فیس بک سے مایوس نہ ہوں

کچھ عرصے سے اکا دکا ایسی پوسٹس بھی نظر سے گذرتی ہیں جن میں کوئی نہ کوئی معقول شخصیت فیس بک سے جانے کا اعلان کر رہی ہوتی ہے۔ عموماً وجہ بھی وقت کا ضیاع، اور بدتمیز و گنوار لوگوں رویہ ہوتیں ہیں۔ اس پر ایک دو باتیں عرض کرنا تھیں اور ان لوگوں سے کرنا تھیں جو فیس بک چھوڑ کر جانے کا سوچ رہے ہیں۔ بدتمیزوں سے ہرگز نہیں، کہ ابھی تک کسی بدتمیز نے فیس بک چھوڑ کر جانے کی پوسٹ نہیں کی، بلکہ وہ اکثر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے پائے جاتے ہیں کہ یار فلاں نے بھی مجھے بلاک کر دیا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے ہم عام معاشرتی رویوں میں ہوتے ہیں، ویسا ہی بالآخر (شروع شروع میں تصنع ہوتا ہے) ہم سوشل میڈیا پر بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو جیسا ماحول ہماری گلی محلوں اور دیگر معاشرتی رویوں میں ہے، ویسا ہی آپ کو فیس بک پر ملے گا۔ پاکستانی عمومی طور پر شوخے اور شوباز ہوتے ہیں، تو یہی آپ کو فیس بک پر ملے گا۔ پاکستانی عام طور پر بزعم خود سب کچھ جاننے والے ہوتے ہیں، اسی وجہ سے آپ کو ہر بندہ دانشور، ماہر اور عقل کل نظر آئے گا۔ ہمارے عام رویوں میں بھی دوستی یاری میں حیثیت، ذات برادری کا تعصب، بڑے عہدے والے کو سلام، معمولی کام کرنے والے کی تحقیر، اور شدید احساس کمتری کے باوصف، شدید احساس برتری شامل ہیں۔ اسی لیے یہی رویے آپ کو فیس بک پر بھی ملتے ہیں۔ لوگ گروہی تعصب، نظریاتی تعصب، اور علاقائی تعصب کو فیس بک پر بھی کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔

ایسے حالات میں ایسے افراد جو ایسے رویوں کا سامنا کرنے کے عادی نہیں ہوتے، یا زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ فیس بک کو ایک انتہائی غیر محفوظ جگہ تصور کرتے ہیں اور بالاخر اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ میرا ایسے دوستوں کو مشورہ ہے کہ جس طرح اصل زندگی میں ہم اپنی شخصی خصوصیات اور پسند ناپسند کے حوالے سے اپنے دوست چنتے ہیں، مخصوص حلقوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں، اور ذاتی دوستوں کی محفل کی باتوں کو ذاتی دوستوں کی محفل کے اندر ہی کرتے ہیں، بالکل اسی طرح ہم سوشل میڈیا کو بالعموم اور فیس بک کو بالخصوص استعمال کر سکتے ہیں۔

فیس بک پر آپ اپنے دوستوں کے مخصوص گروپ بنا سکتے ہیں، اپنی پسند کے گروپ جوائن کر سکتے ہیں، اور اپنے نظریات رکھنے والے لوگوں سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے خیالات عام عوام کو سمجھ نہیں آتے، تو آپ ایک مخصوص حلقہ احباب بنا سکتے ہیں جہاں آپ ایسے موضوعات کو عام فیس بک صارف کے علم میں لائے بغیرزیر بحث لا سکتے ہیں۔ مخصوص حلقوں میں رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ آپ کا ڈھیر سارا وقت بچ جائے گا اور آپ صرف اپنے پسندیدہ لوگوں کی آراء پڑھ سکیں گے، اور ان تک اپنی رائے پہنچا سکیں گے۔

البتہ اگر آپ کوئی عوامی رائے عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں تو آپ کو جوابی ہوٹنگ، نعرہ بازی، اور ہلڑ بازی کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے اور اس کو خوشدلی سے نظر انداز کر دینا چاہیے۔ یہاں بھی فیس بک آپ کو بلاک کرنے جیسی سہولت دیتا ہے، جس کو استعمال کر کے آپ اپنے عوامی جلسے کے بدتمیز حاضرین کو در بدر کر سکتے ہیں۔

آخری مشورہ ایسے دوستوں کے لیے جو عوام سے متعلق سنجیدہ اور حساس موضوعات کو غیر محتاط انداز میں عوام کے سامنے ڈسکس کرتے ہیں، اور اس پر جب ایسا ہی غیر محتاط اور بد تمیزانہ عوامی ردعمل آتا ہے تو رنج کا اظہار کرتے ہیں۔ ان سے سوال ہے کہ کیا آپ کسی میلے میں، یا بازار میں کھڑے ہو کر کسی ایسے موضوع پر اظہار خیال کر سکتے ہیں جو لوگوں کے جذبات بھڑکا دے؟ اگر وہاں آپ کو گالیاں پڑ سکتی ہیں، تو فیس بک پر بھی کم عقل لوگ اپنے جذبات کا اظہار گالی ہی کی صورت میں کرتے ہیں، کیونکہ انکو جوابی دلائل اور مطالعہ میسر نہیں ہوتا۔

جو دوست فیس بک کے رویوں سے مایوس ہیں، مگر ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو کوئی مثبت پیغام پہنچا سکتے ہیں، میری ان سے گذارش ہے کہ وہ اپنا دل چھوٹا نہ کریں، اور ہمیشہ اس پیامبرانہ سوچ کو ذہن میں رکھیں کہ اللہ کی بنائی اس دنیا میں دلوں کو تبدیل کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ آپ اپنا کام جاری رکھیں، اور اس کے صلے کی امید رب الانعام سے رکھیں، کہ وہی بہتر صلہ دینے والا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پس نوشت: میں جب بھی مایوس ہوتا ہوں، اپنے قریبی دوستوں کو کہتا ہوں یار میں نے اب نہیں لکھنا، وہ میری ایسی ایسی بور تحریروں کی بھی تعریفیں کرتے ہیں، کہ بندہ پھر لکھنے کو تیار ہو جاتا ہے، آپ بھی ایسا ہی کیجیے۔

Facebook Comments

محمودفیاض
زندگی سے جو پوچھا ہے، زندگی نے جو بتایا ہے، ہم نے کہہ سنایا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply