ہماری جاننے والی خاتون ایک روز افطار کے بعد گھر ملنے آئیں۔ محترمہ اپنے عمرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں اور فرطِ جذبات میں رو رو کر اپنے عمرے اور زیارتِ رسول ﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے عشق ِ رسول ﷺ میں کہنے لگیں کہ ان کو ہر سال یہ زیارت نصیب ہوتی ہے۔ کچھ دیر بعد میں نے چائے پیش کی، دورانِ گفتگو کہنے لگیں ان کے بیٹے کے لیے کوئی لڑکی ہو تو بتانا لیکن شرط یہ ہے کہ لڑکی ڈاکٹر ہونی چاہیے۔ چونکہ میری نظر میں ایک لڑکی تھی جو نا صرف دیکھنے میں پیاری تھی، ساتھ میں ڈاکٹر بھی تھی لیکن اس وضاحت کے ساتھ بتایا کہ کچھ وجوہات کی بنا پر اس کا نکاح رخصتی سے پہلے ہی ٹوٹ گیا تھا۔۔۔۔۔۔میری بات سنتے ہی آنٹی کے تیور بدل گئے۔ مجھ سے کہنے لگیں مجھے کیا مجبوری ہے جو چھوڑی ہوئی لڑکی دیکھوں ؟
میں نے کہا لیکن آپ کے بیٹے کی منگنی بھی تو ٹوٹی تھی۔۔۔۔۔کہنے لگیں، ارے بھئی منگنی اور نکاح میں فرق ہوتا ہے۔ میں ہرگز اپنے بیٹے کی شادی کسی چھوڑی ہوئی لڑکی سے نہیں کروں گی۔ لوگ کیا کہیں گے؟؟؟
ان کے جانے کے بعد میں یہ سوچتا رہا کہ ان کا رب کون تھا۔۔۔۔ وہ جس کو ڈھونڈنے سعودیہ عرب گئی تھیں یا پھر پاکستان کے لوگ ؟؟؟
وہ میری بتائی ہوئی لڑکی کو چھوڑا ہوا کہہ کر اس کو کمتر یا حقیر سمجھ کر اس کی بے عزتی کر رہی تھیں، یا رسولِ پاک ﷺ کے فیصلوں سے نا آشنا ہمارے ایشیائی معاشرے کی اس فرسودہ سوچ کا اظہار فرما رہی تھیں جس کو سٹار پلس کے ڈراموں اور فضول رومانوی ناولوں نے پروان چڑھایا ہے۔جس امت کی امہات المومنین میں سے اکثر بیوہ یا مطلقہ تھیں، اسی امت کی خواتین اپنی ہی بہن بیٹیوں کے لیے ایسی سوچ کا مظاہرہ کر کے نا جانے کس منہ سے اپنے نبی ﷺ کے روضے پر حاضری دیتی ہوں گی۔
چلیں مان لیا ہمارے معاشرے میں مرد حاوی ہے، اور اس نے معاشرے کو مردانہ معاشرہ بنایا ہوا ہے، لیکن آپ میں سے کتنی خواتین اپنی بہو کو بیٹی بنا کر رکھتی ہیں؟۔۔۔۔۔۔ کتنی خواتین کسی مسلم لڑکی جس کا گھر اجڑ چکا ہو اپنے بیٹے سے بیاہ کر مثال قائم کرتی ہیں؟ کتنی خواتین نا صرف خوب صورت بلکہ خوب سیرت لڑکی ڈھونڈنے کی چاہ میں کتنی ہی لڑکیوں کی عزت ِ نفس اپنے تندو تیز جملوں سے کمال ادا سے پیروں تلے روند کر آتی ہیں، کتنی خواتین کسی جاننے والی بے سہارا بیوہ لڑکی کو سسک سسک کر زندگی گزارتے دیکھ کر بھی اپنا دل بڑا نہیں کر پاتیں کہ اسے اپنے شوہر سے شادی کی اجازت دے کر عزت سے اپنے گھر میں جگہ دے دیں؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔ہر جگہ مرد ظالم نہیں ہے۔ آپ خواتین ہی کافی ہیں ایک دوسرے کو تکلیف میں دیکھ کر منہ پھیرنے کے لیے۔لیکن کیا پتا، کل کو اس تکلیف میں آپ کی ہی بہن یا بیٹی مبتلا ہو جائے۔۔۔سوچیے گا ضرور!
(اس سچی کہانی کو متاثرہ لڑکی کی ایک جاننے والی خاتون ثنا درويش نے بیان کیا ہے،جسے معمولی تبدیلی کے بعد قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں