• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچاسویں قسط،حصّہ چہارم)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچاسویں قسط،حصّہ چہارم)۔۔گوتم حیات

اتوار کا دن تھا ،ہم سب گھر پر ہی تھے، شام کی چائے کے دوران میں نے دیکھا صائمہ کسی سے فون پر الجھ رہی تھی، مجھے اس بات کا تو علم نہیں تھا کہ اس نے کس کو کال ملائی ہوئی ہے، کسی ایوارڈ کا تذکرہ کر رہی تھی کہ آپ نے ایسی غلط بات کیونکر لکھ دی۔۔۔ وہ کافی غصے میں تھی۔۔۔ چار، پانچ منٹ کے بعد جب فون کال ختم ہوئی تو میں نے پوچھا کیا ہوا خیریت تو ہے؟؟؟ کس کے ایوارڈ کی بات کر رہی تھی، اور کون تھا وہ۔۔۔؟ میرے استفسار پر صائمہ نے مجھے بتایا کہ۔۔۔
“عجیب منافق لوگ ہیں، شرم بھی نہیں آتی اتنی غلط بات اپنی فیس بُک وال پر لکھتے ہوئے۔ خود تو ملٹری کی حمایت کر کے ایوارڈ وصول کر چکے ہیں، لیکن کتنی ڈھٹائی سے ان ادیبوں کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹ رہے ہیں جنہوں نے ایوارڈ لینے سے پہلے ہی معذرت کر لی تھی۔ عاطف تمہیں تو معلوم ہی ہے میڈم زاہدہ حنا نے مشرف حکومت کی طرف سے دیے جانے والے صدارتی ایوارڈ کو لینے سے انکار کر دیا، سب ہی پڑھنے والوں کے علم میں یہ بات ہے، مگر ان موصوف (وہ کراچی کے ایک نامی گرامی ادیب کا نام لے کر بتانے لگی) نے اپنی پوسٹ پر لکھا ہے کہ احمد فراز اور زاہدہ حنا نے صدارتی ایوارڈ لینے کے کچھ عرصے بعد حکومت کی پالیسیوں سے اختلافات کی بنا پر واپس کر دیا تھا، جبکہ ایسا صرف احمد فراز نے کیا تھا، میڈم زاہدہ حنا نے جب وہ ایوارڈ وصول ہی نہیں کیا تو واپس دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دراصل یہ موصوف خود کبھی کسی جمہوری تحریک یا مزاحمت کا حصہ نہیں رہے، اور جو یہاں گنتی کے کچھ معتبر نام ہیں ان کے خلاف جھوٹ لکھ رہے ہیں۔ میں نے تو صاف صاف ان کو کہہ دیا کہ آپ فوراً اپنی پوسٹ پر نظرثانی کریں، یہ ایک غلط رویہ ہے، اب جو نئے پڑھنے والے ہیں ان کو مِس گائیڈ کیا جا رہا ہے اس قسم کی پوسٹ اپڈیٹ کر کے۔۔۔”

صائمہ کی بات سو فیصد درست تھی۔ ہمارے یہاں کچھ عجیب و غریب سی روایات نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے، کبھی بھی وقت پر کسی کو خراجِ عقیدت پیش نہیں کیا جاتا اور اگر کسی کا کوئی اچھوتا اور منفرد کام منظرِ عام پر آجائے تو اس کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح کے منفی رویے ہم باآسانی اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں۔ کاش کہ یہ سلسلہ ہمارے سماج سے ختم ہو سکے۔

2011میں فیض صدی کے سلسلے میں پاک و ہند سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے بہت سے ادیب اور دانشور ماسکو گئے تھے۔ “زاہدہ حنا” نے بھی ماسکو میں منعقد ہونے والی “فیض صدی کانفرنس” میں شرکت کی تھی۔ غالباً یہ مئی کا مہینہ تھا، ماسکو کے بارے میں انہوں نے کالموں کی صورت میں اپنی یادداشتوں کو بھی رقم کیا تھا، پھر بعد میں ان ہی کالموں کو ایک طویل مضمون کی صورت میں “ارتقاء” کے “فیض نمبر” میں بھی شامل کیا گیا۔

میڈم نے اپنے اس سفر کی روداد میں سرخ انقلاب کے زمانے سے پورے ایک سو سال پہلے بنائے گئے اُس شاہکار چرچ کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے جس کو دنیا “کرائسٹ دی سیویور چرچ” کے نام سے جانتی ہے۔ اس کے علاوہ مختصر طور پر سندھی تاجروں کا بھی ذکر ہے جو انیسویں صدی میں روس گئے تھے۔ بنیادی طور پر یہ مضمون روس کی اب تک سماجی، سیاسی تاریخ کی مختلف جھلکیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر انقلابِ روس، مختلف ممالک سے سوویت یونین آنے والے ادیبوں کے قافلے، علمی، ادبی و ثقافتی تعلقات، پشکن میوزیم، تیسری دنیا کے ممالک سے سوویت یونین کے زمانے میں ماسکو کی یونیورسٹی میں جا کر تعلیم حاصل کرنے والے انگنت لڑکے، لڑکیاں۔۔۔ اس کے علاوہ وہ تاریک دن جب انقلاب کو آہستہ آہستہ زنگ لگ رہا تھا۔ اس بارے میں یہاں پر میں ایک پیراگراف نقل کرنا چاہوں گا۔ زاہدہ حنا لکھتی ہیں کہ۔۔۔
“سامنے کریملن کی وہ دیوار ہے جس پر سوویت یونین کے مالک و مختار حکمرانوں نے کھڑے ہو کر مسلح افواج کی سلامیاں لی ہیں۔ چشمِ تصور سے اس پریڈ کو دیکھا جس میں چوبیس اور بتیس پہیوں والی گاڑیوں پر چڑھے ہوئے ایٹمی میزائل، ان کے جلو میں چاق و چوبند فوجی، ٹینک، توپیں اور آسمانوں پر اُڑان بھرتے ہوئے بمبار طیاروں کے پرے۔ شان و شکوہ کے مناظر، ایک عظیم عالمی طاقت کا جاہ و جلال لیکن عوام کے روزمرہ مسائل کا بڑھتا ہوا انبار۔۔۔ڈبل روٹی کے لیے لمبی قطاریں، اسلحہ خانوں میں چمچماتے ہوئے ایٹمی میزائلوں کے انبار قطار در قطار۔ جس نے بھی کہا کہ حضور ایٹمی ہتھیار تو یقیناً اہم ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ سنگین معاملہ لوگوں کی روزانہ ضرورتوں کا ہے، یہ کہنے والا گردن زدنی ٹہرا یا سائبیریا کا سرد جہنم اس کا ٹھکانہ ہوا، ہم بھی اپنے مائی باپ سے ڈرتے ڈرتے یہی عرض کرتے ہیں ‘غدار’ کہے جاتے ہیں”

میڈم نے مندرجہ بالا پیراگراف میں کتنا کچھ بیان کر دیا ہے۔ ہم باآسانی اس میں اپنا اور کئی دوسری قوموں کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں۔ دور کیوں جائیں، ذرا ایک نظر اپنے خطّے پر ڈالیے۔۔۔ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، برما، نیپال، سری لنکا اور پھر ایران، افغانستان۔۔۔ اسلحے کی دوڑ میں سرفہرست اور یہاں کی عوام، محرومیوں کی لہروں میں ڈولتی ہوئی، بھوک افلاس کا شکار، بنیادی انسانی ضروریاتِ زندگی کی نعمتوں سے کوسوں دور۔
فیض صدی کانفرنس پر ہونے والے سیشن کے بارے میں میڈم لکھتی ہیں۔۔
“لوگ چلے جاتے ہیں، ان کی یادیں رہ جاتی ہیں، ماسکو کے انسٹیٹیوٹ آف اورینٹل  سٹڈیز میں منیزہ، سلیمہ،لدمیلاوسی لیوااورایرینامسکی موا، آئی اے رحمن اور دوسروں نے فیض صاحب کی یاد کی اشرفیاں بکھیر دی ہیں۔ ماسکو کے اس سیمینار میں فیض صاحب کی زندگی اور شاعری پر کئی پرچے پڑھے گئے۔ ان کی بیٹی منیزہ ہاشمی نے فیض کی زندگی پر ایک اچھی ڈاکومنٹری فلم بنائی ہے۔ وہ اس سیمینار میں دکھائی گئی”۔۔

آگے چل کر میڈم پڑھنے والوں کو بتاتی ہیں کہ۔۔۔۔
جشن کے آخری دن فیض کی بنائی ہوئی فلم “جاگو ہوا سویرا” دکھائی گئی، پاکستان میں یہ فلم عرصہ دراز سے ڈبوں میں بند ہے اور سویرا ابھی تک نہیں ہوا۔ فیض کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ انسان دوستی اور امن پسندی کی بات کرتے رہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ جس طرح کا تناؤ تھا، وہ ان کو دکھ دیتا رہا۔ بدترین حالات میں بھی وہ اچھے دنوں کے خواب دیکھتے رہے۔ انہیں جب بھی موقع ملا انہوں نے ہندوستان کا سفر کیا اور اپنے ان پرانے دوستوں سے ملتے رہے جو ان کی طرح دونوں ملکوں کے بیچ امن قائم کرنے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ ان میں کرشن چندر اور علی سردار جعفری تھے، ان میں راجندر سنگھ بیدی اور کیفی اعظمی بھی تھے”۔

امن جس کی آرزو کو فیض صاحب نے کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی اپنے دل و دماغ اور افکار میں ہمیشہ سربلند رکھا۔ فیض کی یہی امید پرستی آج بھی کروڑوں محکوموں کے دلوں کو گرماتی ہے، انہیں حوصلہ و استحکام بخشتی ہے اور مزاحمت کی وہ راہیں دکھاتی ہے جن پر چل کر انسان ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتا ہے۔

لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں میڈم زاہدہ حنا اور ان کی تحریروں پر لکھتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ میرے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہے۔
میں ان سہانے دنوں کو یاد کر رہا ہوں جب پہلے پہل میں نے ان کو جنگ اخبار میں پڑھا تھا۔ وہ زمانہ جب میں نے باقاعدگی کے ساتھ اخبار پڑھنا شروع کیا تھا، اکثر لکھنے کی مشق بھی کرتا تھا لیکن پھر بددل ہو کر ارادہ ترک کر دیتا اور خود سے کہتا کہ لکھنا میرے جیسوں کا کام نہیں ہے، ہم جیسے لوگ بس ٹھیک سے مطالعہ کر لیں تو یہی بڑی بات ہے۔ یوں ہی سال گزرتے رہے اور میں مطالعہ کرتا رہا۔ اکثر دوست کہتے کہ تم لکھتے کیوں نہیں ہو، کیا ساری زندگی بس دوسروں کی کتابیں ہی پڑھ پڑھ کر گزار دو گے، تو میرا ان کو ایک ہی جواب ہوتا کہ فی الحال میں اپنے آپ کو لکھنے کا اہل نہیں سمجھتا، اچھا لکھنا کوئی معمولی کام نہیں ہے کہ قلم اٹھایا اور فوراً لکھنا شروع کر دیا، کچھ لوگوں کی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں لکھتے لکھتے اور مجھ جیسے لوگ جو لکھنے کے عمل سے ناواقف ہیں، بس مطالعہ کرتے رہ جاتے ہیں، کیونکہ ہمیں مطالعہ کرنے کے دوران لفظوں کی صورت میں وہ کچھ میسر آتا ہے جس کے بارے کوئی عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اچھی تخلیقات کا مطالعہ کرنا بھی ایک اہم فریضہ ہے جس کو اگر دیانتداری سے سرانجام دیا جائے تو انسان حقیقی معنوں میں زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے، ان تلخ حقائق کو بھی سمجھ سکتا ہے جو ہمارے اردگرد صلیب کی صورت گڑے ہوئے ہیں۔ لکھنے کے فن سے ناواقفیت بھی ایک دکھ ہے کہ میں کیوں نہیں لکھ سکتا۔۔۔ مجھ سے لکھا کیوں نہیں جا رہا۔۔۔ کاش میں لکھ سکتا۔۔۔ ان دکھوں سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ مطالعہ کیا جائے اور اپنی لکھنے کی خواہش کو پسِ پشت ڈال کر عظیم ادیبوں کو پڑھا جائے، یہ ضروری تو نہیں کہ جو شخص مطالعہ کرتا ہو وہ لکھ بھی سکے، لکھنا ایک الگ قسم کا معاملہ ہے جس پر ہر کوئی پورا نہیں اتر سکتا۔ بس ان ہی خیالات کو مدنظر رکھ کر میں نے مطالعہ جاری رکھا، کئی سال گزر گئے۔۔۔ 2020 کا آغاز ہوا تو میں نے خود سے عہد کیا کہ ہر روز کچھ نہ کچھ لکھوں گا، ایک پیراگراف، دس سطریں۔۔۔ اور میں نے لکھنا شروع کر دیا، اس طرح تقریباً دو ماہ گزر گئے۔

جنوری اور فروری کے اختتام تک میرے پاس دو، دو پیراگراف پر مشتمل پانچ، چھ مختصر تحریریں جمع ہو چکی تھیں۔ میں ان ہی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا اور پھر اچانک ہمیں کرونا کی وبا نے دبوچ لیا۔۔۔ مارچ کا دوسرا ہفتہ شروع ہو چکا تھا، عجیب عجیب سی خبر آنا شروع ہو گئیں کہ فلاں ملک میں آج اتنے لوگ کرونا کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے، دنیا کے بڑے بڑے شہروں کی رونقیں ماند پڑنے لگیں، آہستہ آہستہ خوف کے گھنے سائے چار سُو پھیل گئے، کچھ ہی روز کے اندر ہمارا ملک بھی اس وبا شکار ہو گیا۔

سولہ، سترہ مارچ سے دوسرے ممالک کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں بھی لاک ڈاؤن پر اصرار کیا جانے لگا۔ آخرکار بیس مارچ کے بعد سے سب کچھ بند کر دیا گیا۔ میرے روزمرہ کے مشاغل برے طریقے سے متاثر ہوئے، وہ شب و روز جو میں کئی سالوں سے گزارتا آیا تھا کہیں روپوش ہو چکے تھے۔ میں ان شب و روز کو شدت سے یاد کرنے لگا۔۔۔ یاد کرتے کرتے میں نے انہیں اپنے موبائل پر لکھنا شروع کر دیا، ہر روز میں گزرے ہوئے ماہ و سال کو لکھنے لگا اور یوں میری ڈائری کی انچاس قسطیں مکمل ہوئیں۔ میں پچاسویں قسط لکھ کر اپنی ڈائری کا اختتام کرنا چاہتا تھا۔ میں نے سوچا اس آخری قسط میں ایسا کیا لکھوں کہ یہ یادگار ہو جائے، کیونکہ میں اپنی پچاسویں قسط کو یادگار بنانا چاہتا تھا۔ میں نے جھجکتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اب بس کوشش کر کے میڈم زاہدہ حنا پر کچھ لکھتا ہوں۔ آخر میں کب ان پر کچھ لکھوں گا۔۔۔ اتنے سال گزر گئے اور میں ان کی شخصیت پر ایک چھوٹا سا مضمون تک نہیں لکھ سکا، کتنا نکمّا ہوں میں۔۔۔

اب بس اس ڈائری کی اختتامی قسط میڈم پر لکھ کر میں اپنے پڑھنے والوں سے رخصت لوں گا۔ اس کے بعد اکتیس مئی تک لاک ڈاؤن برقرار رہے گا، تو میں اپنا وہ سارا وقت مطالعہ کرنے میں گزاروں گا، کیونکہ لاک ڈاؤن کے آغاز سے اب تک میں نے کسی بھی کتاب کو نہیں پڑھا۔ یہ اٹل فیصلہ کر کے میں نے ہمت کی اور میڈم سے جڑی یادوں کو لکھنا شروع کر دیا۔ قسط نمبر پچاس جب نوّے فیصد لکھ لی تو سوچا اتنی باتیں تو رہ گئیں۔۔۔ کس طرح اس قسط کا اختتام کروں۔۔۔ آخری قسط کو تو میں یادگار بنانا چاہتا تھا، لیکن یہ تو تشنگیوں سے بھری ہوئی لگ رہی ہے۔۔۔
پھر دل سے ایک آواز آئی کہ “یہ قسط تو ابھی بھی یادگار بنائی جا سکتی ہے، اگر تم اس قسط کا دوسرا حصہ لکھ دو۔۔۔”
اور میں نے اپنی پچاسویں قسط کا پہلا حصہ لکھنے کے بعد دوسرا حصہ لکھا، پھر تیسرا حصہ اور آج رات چوتھا حصہ لکھ رہا ہوں۔

رات کے اس لمحے چار بج کر چار منٹ ہوئے ہیں، میں انتہائی مسرت محسوس کر رہا ہوں اپنی پچاسویں قسط کا چوتھا حصہ مکمل کر کے۔ “میڈم زاہدہ حنا” کی شخصیت اور فن پر میں ابھی مزید لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ امید ہے آپ سب سے کل دوبارہ ملاقات ہو گی پچاسویں قسط کے پانچویں حصے میں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply