کرونا کیساتھ زندگی۔۔مہرساجدشاد

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ جسے فلو ،زکام یا خارش وغیرہ ہو جائے وہ اپنا تولیہ الگ رکھے ،تا کہ باقی گھر والے اس سے محفوظ رہیں۔ کرونا بھی اسی طرح کا مرض ہے جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتا ہے اب تو ایک سال میں حاصل شدہ تجربات اور ہونے والی تحقیقات سے یہ عیاں ہو گیا ہے کہ اس سے بچنے کیلئے ماسک بہت موثر ہے پھر اگر ہم عوامی مقامات کو پُر ہجوم نہ بنائیں اور کچھ فاصلہ قائم رکھیں تو اس مرض کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر میں اس مرض کو اپنی تباہ کاریاں پھیلاتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے، دنیا کے گلوبل ویلج بن جانے کے باعث اس نے تیزی سے سفر طے کیا اور ہر ملک میں پہنچ گیا، ماضی میں شہروں اور ملکوں کے درمیان سفر کیلئے آج کی طرح تیز رفتار  ذرائع میسر نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بہت سی وبائیں کسی علاقے میں پھوٹتیں اور وہیں ختم ہو جاتیں۔

لیکن جو وبائیں ماضی میں پھیلیں انہوں نے بے تحاشا تباہی مچائی، آج کرونا کے انتہائی مہلک ہونے اور تیزی سے پھیلنے کے باوجود بھی ماضی کے مقابلے میں نقصانات کم ہوئے ہیں کیونکہ  ذرائع ابلاغ نے اس کے متعلق تمام تر معلومات احتیاطی تدابیر وغیرہ کی آگاہی کو آسان بنا دیا۔

لیکن اس سب کے باوجود دنیا میں اس سے تقریباً 14 کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے اور تقریباً 29لاکھ سے زائد لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

یاد کیجیے ہمارے ارد گرد کتنے ہی لوگ اس مرض کے باعث دنیا سے رخصت ہو گئے، کتنے ہی بزرگوں کی دعائیں اور شفقت ہم سے چھن گئی۔ کتنے ہی ایسے بچے جو اپنے والد کی میت کو کندھا دینے کی عمر کو بھی نہیں پہنچے اور ان کو دنیا سے رخصت ہوتے دیکھ چکے۔
کتنی ہی مائیں اپنے بچوں کو روتا چھوڑ گئیں جن کا بچپن ہنسی کھیل میں تھا ابھی انہوں نے اپنی ماں سے زندگی سیکھنا تھی۔

ہمارے کتنے ہی بھائی بہن اور عزیز دوست اس موذی کے ہاتھوں ہم سے جدا ہو گئے جن  کے   جانے کا صدمہ آج بھی ہماری  آنکھیں نم کر دیتا ہے۔

یہ مرض دنیا سے ختم نہیں ہوگا جس طرح انسان آج دیگر بہت سے امراض کی موجودگی کے باوجود ایک محفوظ زندگی گزار رہا ہے اسی طرح کرونا سے بچاؤ  کیلئے احتیاطی تدابیر کے استعمال اور اسکے خلاف مدافعتی ویکسین کے  ذریعے انسان اپنی معمول کی زندگی کی جانب لوٹ آئے گا۔

ویکسین کے معیار میں بہتری بھی ایک مسلسل عمل ہے یہ جاری رہے گا لیکن ہمیں دستیاب دوا کو ہی استعمال کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے۔

یہاں پاکستان ایک بار پھر دنیا بھر سے بہت پیچھے نظر آتا ہے، اوّل ہمارے ہاں اس بیماری کے حوالے سے کوئی قابل  ذکر تحقیقی کام نہیں ہوا، ایسے کاموں کیلئے ریاستیں بڑے مالی اخراجات کرتی ہیں ہمارے لئے یہ ترجیح نہیں بن سکے۔

البتہ کرونا کے ٹیسٹ کیلئے کئی اطلاعات اور خوشخبریاں سنی گئیں کہ ہم نے بہت سستی ٹیسٹ کٹس بنا لی ہیں لیکن آج بھی پرائیویٹ لیبارٹریاں اپنی مرضی کے معاوضے پر ہی ٹیسٹ کر رہی ہیں ہزاروں روپے کا یہ ٹیسٹ کسی صورت بھی غریب کی پہنچ میں نہیں ہے۔

پھر جب مریضوں کی تعداد بڑھی تو یہ اعلان اور خوشخبری بھی سنی گئی کہ ہم نے مقامی طور پر نہائیت سستا اور معیاری وینٹی لیٹر بنا لیا ہے لیکن اب ایک سال ہونے کو آیا ہے اب پھر کرونا سے متاثر مریض ہسپتالوں میں بڑھ رہے ہیں تو یہی خبر مل رہی ہے کہ ہمارے پاس وینٹی لیٹرز کی کمی ہے۔ امید تو یہ تھی کہ اس ایک سال میں ہم اپنے ہسپتالوں کے تمام بیڈ پر یہ وینٹی لیٹر کی سہولت پہنچا چکے ہوتے لیکن شاید یہ خوشخبریاں بھی مصنوعی تھیں۔

حد تو یہ ہے کہ ہماری حکومت نے اب تک عوام کیلئے ویکسین نہیں خریدی بلکہ اسکے لئے بھی دنیا کی امداد پر ہی انحصار کیے ہوئے ہے ۔

پھر یہ بھی ہو سکتا تھا کہ عالمی سطح پر مفت دستیاب فارمولا سے دوائی بنانے والی کچھ کمپنیوں کو ویکسین بنانے کی اجازت دی جاتی تاکہ وافر اور سستی ویکسین دستیاب ہو جاتی لیکن حکومت نے اس کے برعکس کچھ پرائیویٹ کمپنیوں کو اجازت دے دی ہے کہ وہ دیگر ممالک سے ویکسین پاکستان منگوائیں اور بھاری منافع پر مجبور عوام کو لگائیں۔

آج ہمیں کیا کرنا چاہیئے ؟
سب سے پہلے تو خدارا یہ تسلیم کر لیں کہ کرونا ایک حقیقی سنگین مرض ہے یہ کسی کی سازش نہیں ہے کیونکہ یہ سب کیلئے یکساں نقصان کا باعث ہے اور سب کو اس سے ایک برابر ہی خطرہ ہے۔

جس طرح ہم ایک دوسرے کا تولیہ استعمال نہ کر کے احتیاط کرتے ہیں اسی طرح ہم نے ماسک لگا کر اس کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، ہو سکتا ہے کوئی اس قدر قوت مدافعت رکھتا ہو کہ اسے اس وائرس سے بالکل بھی نقصان نہ پہنچے لیکن وہ اس وائرس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے اور سوچیے  اگر ہم یہ وائرس کہیں سے لے کر گھر آ جائیں اور ہمارے بزرگ یا خواتین یا وہ افراد جو کمزور قوت مدافعت رکھتے ہیں انکو ہماری وجہ سے یہ کرونا وائرس لگ جائے۔

یہ احتیاط اپنے سے زیادہ دوسروں کیلئے ہے۔ جب بھی ہم ملیں تو روائتی مصافحہ یا بغلگیر ہونے سے اجتناب کریں ،اپنے ہاتھوں کو سینیٹائزر سے صاف کریں یا صابن سے دھو لیں اسکے بعد ہی کچھ کھانے پینے کیلئے ماسک کو منہ سے ہٹائیں تو اسکے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئیے ہم اپنا حصہ شامل کریں خود کو اور اپنے  خاندان کو ذمہ دار شہری بنائیں اور اعلان شدہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

Facebook Comments