ٹوٹی فروٹی بائیکاٹ

ہمارے ہاں ایک کلچر ہے کہ جب ایک سمت کی ہوا چل نکلتی ہے تو ہر شخص بنا دیکھے سنے اور جانے اسی طرف رخ کر کے چلنا شروع کر دیتا ہے، سجنو تے بیلیو، آج کل سوشل میڈیا کے ہاتھ، انگور، سیب،کیلے اور آم کے گریبان پرہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جمعہ ہفتہ اور اتوار پھل نہ کھا کر ایک عظیم سامراجی پھل فروش مافیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے، اور یہ پھل فروخت کرنے والا لینڈ لارڈ اپنی کروڑوں روپے کی “ریڑھی”سے اتر کر گھٹنے کے بل آجائےگا، اور تین دن گزرتےساتھ ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور عوام کو بجلی،گیس، پیٹرول، ڈیزل دیگر اشیاء خوردونوش سمیت تمام ضروریاتِ زندگی عوامی ریٹس کے اوپر دستیاب ہوجائیں گی۔
اگر کوئی ایسا سوچ رہا ہے تو فوراً سے پہلے ٹھنڈے ٹھار پانی کے چھینٹے اس کے چہرے پہ ماریں اور اسے جگا کر کہیں کہ افطارکا وقت ہوا چاہتا ہے خوابِ خرگوش سے بیدار ہوجاؤ، اور احتجاج کرنا ہے توکسی ملٹی نیشنل کمپنی کی ٹوٹی فروٹی آئیس کریم پر کرو، کپڑوں، جوتوں، پرفیومز، پر کرو، ایسے برینڈز کے خلا ف کرو جہاں تم شاپنگ کرنا اپنا اسٹیٹس سمبل سمجھتے ہو، پراڈکٹ کی اصل قیمت سے دوگنا ادا کر کے خوشی خوشی باہر نکلتے ہو۔
ہم بھی عجیب الفطرت قوم ہیں، مائٹ از رائٹ ،کے فارمولے پر چلنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، ایک غریب مزدور ٹھیلے والے کو بے روزگار کر کےاپنے ضمیر کو مطمئن کرنے ی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا، اگر اتنے ہی بیدار ہوگئے ہو تو آؤ سڑکوں پر نکلو اس سامراجی نظام، سرمایہ دار وڈیرے کے خلاف قیام کرو، دور مت جائیں اسی ہفتے کی بات ہے کہ ایک مشہور برینڈ کھاڈی نے اپنے مزدوروں کے خلاف ایکشن کیا اور ان کے لیبر حقوق کی دھجیاں بکھیر دیں، مگر کتنے لوگ سڑکوں پر نکلے ؟کس نے منظم ہو کر اس کے خلاف ٹرینڈ چلائے ؟کتنے فکری مفلوق الحال دانشوروں نے انکے خلاف لمبی لمبی پوسٹیں اور تحریریں لکھیں؟
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فروٹ کا بائیکاٹ صارف کے حقوق کے لئے پہلا قدم ہے تو ان سے گزارش ہے کہ پھر آؤ شروع طاقتور طبقے سےکرتے ہیں، سرمایہ دار سے کرتے ہیں ۔بڑے بڑے برینڈز سے کرتے ہیں، آؤ قانونی جنگ لڑتے ہیں، صارف عدالتیں موجود ہیں ان کو آباد کرتے ہیں، جو گراں فروش نظر آئے اس کو پکڑ کر عدالت لے کر جاتے ہیں، موبائل فون کمپنیز کا بائیکاٹ کرتے ہیں، موبائل استعمال کرنا ترک کرتےہیں، بڑے سیاستدانوں اور بیورکریٹس کو عدالتوں میں لے کر جاتے ہیں جو بڑی بڑی ملوں اور کارخانوں کے مالک ہیں۔
جو لوگ بھی بائیکاٹ کےحق میں ہیں ان سے گزارش یہ ہے کہ حضور آپ کی نیت پہ شک نہیں مگر اپنے جذبے کی سمت کو درست جانب رکھیں، استحصال کا مقابلہ کرنا ہے تو مزدور کے بجائے سرمایہ دار سے ٹکر لیں، یہ مزدور تو پہلے ہی مفلوک الحال ہے یہ بھی آپ ہی کے ہم آواز کھڑا ہوگا۔مڈل کلاس کو غریبوں کا دشمن نہ بنائیں بلکہ مڈل کلاس کو ایلیٹ کلاس کے مقابل کھڑا کریں، مزدور آپ کا ہراول دستہ ہوگا، ویسے بھی ایسے احتجاجات رویوں کو درست کرنے کے کیے کوئی مستقل حل نہیں ہیں، معاشرے کو درست کرنا چاہتے ہیں مساوات اور عدل قائم کرنا چاہتےہیں توقانون کو مقدس بنائیں۔
حکمرانوں کا احتساب کریں، قوم کو اس فکری بالیدگی کے لیول پر لائیں کہ وہ ایسے حکمران کا انتخاب کرے جو عوامی فلاح کے کام کرے، نہ کہ خود سرمایہ دار ہو اور سرمایہ دارانہ کلچر کی پیداوار ہو،۔جس دن آپ نظام بدلنے کی بات کریں گے، فکری شعوری اخلاقی ارتقاء،معاشرتی عدل اور مزدور کے ساتھ کھڑے ہونگے اس دن ان سب کا بائیکاٹ کرنے کے لیے مجھے بھی صفِ اول میں پائیں گے۔

Facebook Comments

رفعت سبزواری
انجینیرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہونے کے باوجود علم و ادب سے شغف ہے ، سلگتے سماجی مسائل پر لکھتا ہوں ،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply