مینگو پیپلز اور بنانا ریپبلک۔۔۔۔اسد مفتی

جیسا کہ ہم جانتے ہیں پاکستان پر ’’برا وقت‘‘ آیا ہوا ہے اور میرے حساب سے یہ ’’برا وقت‘‘ اچانک نہیں آیا اس کیلئے برسوں سے زمین تیارکی جارہی تھی۔ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر گزشتہ آدھی صدی سے پاکستان میں اتھل پتھل ہے۔ یہاںکے تمام ادارے، سوسائٹیاں، سرکاری و غیرسرکاری انسٹیٹیوشن، ایسوسی ایشن، اکیڈمیاں، یونیورسٹیاں، پارٹیاں، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور تمام اعلیٰ و ارفع قدریںسب گڈمڈ ہیں۔ الٹ پلٹ اور اتھل پتھل ہوچکی ہیں۔ آج سیاست میں ہمارا کام یہ تلاش کرنا نہیں ہے کہ سچ کیا ہے بلکہ یہ تلاش کرنا ہے کہ وہ سچ کیا ہے جو ہمیں درکار ہے۔ اس وقت کشور حسین شاد باد آفت زدہ اور مصیبت زدہ ہے لیکن اس مصیبت سے نکلنا تو درکناریہاں تو اس کے بارے میں غور و فکرہی ناپید ہے اور یہی ہمارا المیہ ہے۔ ارباب اختیارکو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کوئی مطلب نہیں کہ 45فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے آگرے ہیں۔ دو یا تین وقت کی روٹی کی بات تو چھوڑیئے انہیں دن میں ایک باربھی پیٹ بھرکر کھانانصیب نہیں ہوتا۔ اور یہ بات طے ہے کہ آدھےسے زائد آبادی اگر بھوکے پیٹ ہو تو کسی بڑی طاقت کو اس پر غالب آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

صورت احوال یہ ہے کہ وطن عزیز اندر سے پوپلا اور کمزور ہوچکا ہے۔ وہ ملک جہاں غربت، بیروزگاری، رشوت ستانی، لوٹ مار، قتل و غارت، دہشت گردی، فرقہ واریت، مذہبی جنونیت سماجی تانے بانے کو ادھیڑتی جارہی ہو وہاںکچھ بھی بعید نہیں۔ کچھ معاملات تو ایسے ہوئے ہیں جن پر قوم (اگر قوم نامی کوئی شے ہے) کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہم دیار غیر میں  رہنے والے لوگ مغربی اقوام کی اٹھنےوالی انگلیوں کی تعداد تک نہیں گن سکتے کہ حکمران ملک اور اس کے عوام کی قیادت یا حفاظت نہیں بلکہ اپنے اقتدار اور مفادات کی حفاظت کررہے ہیں۔اپنی غربت اور ملک کے غریبوں کو مٹارہے ہیں۔ نظم و نسق کامسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ روزمرہ کے مسائل تشویشناک ہوتے جارہےہیں۔نت نئے مسائل، عوامی زندگی کو نت نئے مسائل سے دوچار کررہے ہیں کہ جہاںوسائل نہ ہوں وہاں مسائل پہ مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مسائل چھیڑنا مسائل پیدا کرنا، مسائل کا رخ پھیرنا، اصل مسائل کو دبانا، وسائل (جیسے برےبھلے ہوں) کے باوجود نئے نئے اور پیچیدہ مسائل پیداکرنا اور جو مسئلہ نہ ہو اسے مسئلہ بناکر پیش کرنا حکمرانوں کا خاص فن ہے ورنہ ملک اور معاشرے کے اصل مسائل وہی ہیں جن کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں اور جنہیں دبانے کیلئے مصنوعی مسائل پیدا کئے جارہے ہیں۔

جیساکہ میں نے ابھی اوپر لکھا ہے کہ ہمارا کام یہ تلاش کرنا ہے کہ و ہ سچ کیا ہے جو ہمیں درکار ہے اور بات طے شدہ ہے کہ نظریئے سے وابستگی ہی وہ وصف ہے جس کے ذریعےبرائیوں کو خوفزدہ کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں دور حاضر ’’اقدار‘‘ کا نہیں ’’اقتدار‘‘ کا زمانہ ہے جس پر ہمیشہ حکمران ’’قابض‘‘ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقدار اس دھرتی سے منہ موڑ چکی ہے، جہالت، تعصبات، انتہا پسندی، استحصال، مذہبی جنونیت، توہمات، لوٹ مار، ڈاکےاور قتل کا سورج ایک دیوتا بن چکا ہے اور یہ دیوتا سوا نیزے پر بھی آسکتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین وہ بدقسمت دھرتی ہے جس کے بارے میں اس کے بچے بالے آج تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ اسے کیا بننا ہے۔اس دھرتی پر گھر بسانے کیلئے کن اقدار کی ضرورت ہوگی اور یہ کیسا پاکستان ہوگا؟۔ کوئی اسے جاگیرداروں اور وڈیروں کی آماجگاہ مانتا ہے تو کوئی اسے ہاریوںکیلئے جنم لینے والا ملک، کوئی یہاں خلفائے راشدین کا نظام لانا چاہتا ہے توکوئی سوشلسٹ معیشت کا نام لیتاہے، کوئی اسے امریکہ کا بغل بچہ کہتا ہے تو کوئی اسے چینی لے پالک تو کوئی اسلام کا قلعہ۔ کسی نے اس ملک کیلئے بادشاہت کا مشورہ دیا تو کوئی فوجی حکمرانی کو ہی ملک کیلئے بہترین فارمولا تصور کرتا ہے، کوئی یہاں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے تو کوئی بنیادی جمہوریت کے گن گاتا ہے، کوئی یہاں شریعت نافذکرنا چاہتا ہے تو کوئی تھیوکریسی کا دلدادہ ہے۔ کوئی اس کے تمام مسائل کا حل بھارت دوستی میں دیکھتا ہے تو کوئی بھارت کو دشمن نمبر ایک قرار دیتا ہے۔ کوئی یہاں مغربی جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو آزمانا چاہتا ہے تو کوئی مساوات محمدی نافذکرناچاہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کوئی مکا دکھاکر حکومت کرناچاہتا ہے تو کوئی ہزاروں سال لڑنے کا اعلان کرکے۔ہم پاکستانی ایک ایسے معاشرے میںجی رہے ہیںجو بے مہار اور غیرمشروط ہوچکا ہے، سو یہاںکسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاست کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے کہ یہ بھی اسی ملک کی پیداوارہے، سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کھلے عام کہہ رہے ہیںکہ سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ یہ عجیب میدان ہے کہ اس میںنہ کوئی فعل مکروہ سمجھا جاتا ہے اورنہ ہی کوئی اصول قائم رکھا جاتا ہے، کیا ہم جنگل کے قانون یا جنگل راج میں جی رہے ہیں؟ کیا ہم ایک مہذب سماج کا حصہ نہیں ہیں؟ پاکستان بقول شخصے نیوکلیئر طاقت ہے لیکن امن و امان کے حوالے سے وہ تھرڈورلڈ تو کیا فورتھ ورلڈ سے بھی تعلق رکھتا دکھائی نہیں دیتا۔میرے خیال میں ملک کے استحکام کو باہر سے نہیں اندر سے خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ چند برسوںکے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ حکومت، حساس ادارے اور خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی سے نمٹنے میں نااہل ثابت ہوئی ہیں۔ دہشت گرد جب اور جہاں چاہیں دھماکے کر جاتے ہیں۔ ہماری حساس ایجنسیوں کو خبر تک نہیں ہوتی، انہیں یہ بھی معلوم نہیںکہ اصل مجرم کون اور ان کے منصوبے کیا ہیں؟
میرے حساب سے آج ہمیں جن حالات کا سامنا ہے وہ بیرونی دشمن سے تصادم نہیں بلکہ وہ تصادم ہیں جو جہالت، قتل و غارت، انتہا پسندی، ہٹ دھرمی، بے حسی، بیروزگاری اور عدم برداشت کے سبب پیدا ہوئے۔
میں راہ عشق کا تنہا مسافر
کسے آواز دوں کوئی نہیں ہے

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply