ذلت رہ گئی تھی۔۔انعام رانا

ذلت رہ گئی تھی۔۔انعام رانا/وزیراعظم عمران خان کو بلاشبہ اللہ نے بہت نوازا۔ عزت شہرت اور پیسہ اور پھر ایک مرد کا خواب، مسلسل میسر حسن و چاہت۔ اسی لیے وہ اپنے جلسوں میں فخریہ اور بطور دلیل یہ کہتے ہیں کہ مجھے تو اللہ سب دے بیٹھا تھا میں تو عوام کیلئے سیاست میں آیا۔
یقینا ًاللہ انکو سب دے بیٹھا تھا سوائے ذلت کے اور وہ عمران خان نے اس سے زبردستی ہی لی ہے۔

میرے تحریک انصاف سے وابستہ دوست یقیناً بُرا مانیں گے اور شاید کچھ ٹرولر گالیاں  بھی شروع کر دیں لیکن تحریر پوری پڑھ لیجیے گا۔

سیاست بے رحم ہے، داؤ پیچ ہے اور پاور پالیٹکس اخلاقیات سے دور، لیکن جب آپ اخلاقیات کے گھوڑے پہ سوار ہو کر خود کو دوسروں سے مختلف پیش کریں اور اسی بنیاد پہ عوام کا ایک بڑا حصہ جو روایتی پاور پالیٹکس سے برگشتہ تھا آپ کا ساتھ دے، تو پھر آپ پہ ذمہ داری بھی دُگنی ہے۔ آپ فقط اقتدار کی دلیل پہ وہی سب کچھ نہیں کر سکتے جو باقی کرتے ہیں۔ اب تک عوام کا ایک بڑا حصہ عمران خان کے ان بلنڈرز یا کمپرومائزز کو معاف کرتا رہا ہے یہ سوچ کر کہ چلیے اس گندی سیاست میں ہاتھ کچھ تو گندے ہوتے ہی ہیں۔ الیکشن میں اچھی پرفارمنس کے بعد روایتی سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانا ہو، پنجاب جیسے صوبے پہ بزدار جیسا نااہل مسلط کیے رکھنا ہو، ہر وقت فقط دوسروں پہ الزام تراشی و دشنام کا “کنٹینر رویہ” ہو، قوم کا وقت ،پیسہ اور امید ضائع کرنے والے نااہل مشیر اور وزیر ہوں، پی ٹی آئی سپورٹرز نے سب ہی پہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ملکی معیشیت و دیگر مسائل اور نان پرفارمنس کی وجہ سے بہت سے انصافینز بددل ہوئے لیکن مخالف نہیں بنے۔ یا خاموش ہو گئے یا بس کچھ تنقید کر لی کیونکہ وہ مارکیٹ میں موجود “متبادل آپشنز” قبول کرنے پہ تیار نہ  تھے۔ بالخصوص وہ بڑا حصہ جسے سیاست کی جانب لائے ہی عمران خان اور ان سے وابستہ امیدیں تھیں۔

قدرت نے ایک شاندار موقع پیدا کیا۔ جس بھی وجہ سے اپوزیشن ایک مٹھ ہو کر عمران حکومت پہ پَل پڑی۔ اسٹبلشمنٹ کا “نیوٹرل کردار” ری ایکشن پیدا کرنے لگا۔ ماضی قریب کے کچھ واقعات نے عمران کے دعوؤں اور خودمختاری وغیرہ کے نعروں کو تقویت دی۔ ایک ایسا ماحول بن گیا جس میں کھوئی ہوئی مقبولیت واپس آنا شروع ہوئی، ناراض حمایتی تک پھر سے حمایت میں بولنے لگے بلکہ کئی تو ستائیس مارچ کے جلسے میں بھی پہنچ گئے کہ ایک “آزاد اور خودمختار” پاکستان کیلئے عمران کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ ایک پھسپھسی سی تقریر کے باوجود انکے حوصلے برقرار رہے۔ عمران کو اللہ نے ایک بار پھر موقع دیا کہ وہ عزت و شہرت کی ایک نئی معراج پہ پہنچے، ایک لیڈر جو عوام کی خاطر سب سے بھڑ گیا یا ایک ایسا لیڈر جسکے خلاف “سب چور لٹیرے” اکٹھے ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

افسوس مگر عمران صاحب نے زبردستی وہ لینا گوارا کیا جو اللہ نے انکو نہیں دیا تھا یا نہیں دینا چاہ رہا تھا” ذلت”۔ پرویز الہی کو وزیراعلیٰ  بنانا “پاور پالیٹکس” کیلئے تو شاید ایک موو، ایک “چھکا” ہو لیکن ایک بڑا موقع ضائع کر دیا گیا۔ عمران صاحب نے ثابت کیا کہ وہ بھی محض اقتدار کے بھوکے ہیں جو تخت قائم رکھنے کیلئے کسی سے بلیک میل بھی ہو سکتے ہیں اور اپنوں کا تختہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس “گندی سیاست” میں چلیے ہاتھ تو گندے ہوئے تھے اقتدار بچانے کی خاطر آپ نے تو گٹر میں ڈبکی ہی لگا لی۔ بہت مشکل ہے کہ عمران عدم اعتماد سے بچ سکیں، کم از کم بھی کہیے تو ففٹی-ففٹی چانس گیم ہے۔ ایسے میں اگر وہ “اقتدار کو ٹھوکر” مارنے کی جرات دکھا دیتے تو شاید اگلے الیکشن میں انکو پانچ پانچ سیٹوں والے بیساکھی حمایتیوں کی بھی ضرورت نہ رہتی۔ پاکستان کی عوام نے ہمیشہ “بہادر اور نڈر” لیڈر کو پسند کیا ہے۔ بھٹو صاحب کے بعد شاید عمران وہ پہلا لیڈر ہوتا جسے عوام بطور دائمی زندہ لیڈر کے اپنا لیتی، لیکن بھٹو کی مثال دینا آسان اور اس کی سی جرات دکھانا مشکل ہوتا ہے۔
کاش عمران خان سمجھ پاتے کہ کئی بار “شہادت” “غازی” بننے سے زیادہ ضروری ہوتی ہے، کئی بار اقتدار عزت نہیں ذلت بن جاتا ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply