تعلقات کی کنجی /ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسان کے اندر ایک ہی ایسی چیز ہے جو اس کی کامیابی اور خوشی کی ضامن ہے، لیکن تضاد دیکھئے کہ یہی چیز اسی انسان کی تمام ناکامیوں اور مایوسیوں کی وجہ بھی ہے، یہ چیز فرد کی شخصی اہمیت ہے، اس کی ذات کے اہم ہونے کا احساس ۔ فرد کی زندگی اسی کے گرد گھومتی ہے، اسی بات کو اگر گہرائی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی کے ساتھ اچھے یا برے تعلقات کا انحصار اس چیز پر ہے کہ آپ اس شخص کی شخصی اہمیت کو کس قدر اہم جانتے ہیں، اس سے بھی ایک قدم آگے، کسی کو اپنے حصار میں جکڑنے اور ” محبوب آپ کے قدموں میں ” لانے کیلئے بھی یہی فارمولا سب سے زیادہ پراثر ہے۔ بعینہ برے تعلقات کی جڑیں بھی اسی شخصی اہمیت سے وابستہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعلق میں بگاڑ یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنی اہمیت منوانے پہ تلا ہے، دوسرے کی شخصی اہمیت کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔
اپنی اہمیت کو ہم ایک لمحے کیلئے، مشروط طور پر، اندرونی اہمیت اور دوسرے کی اہمیت کو بیرونی کا نام دے دیتے ہیں، ہر فساد کی جڑ اندرونی اہمیت کا مطالبہ اور بیرونی اہمیت پر چار حرف بھیجنا ہے۔
باریک نکتہ جو سمجھنے کا ہے، وہ یہ کہ آپ کی اندرونی اہمیت تب ہی آشکار ہو گی، سراہی جائے گی، جب آپ بیرونی اہمیت کو اہم جانیں گے، یعنی دوسروں کی شخصی اہمیت کا احترام کریں گے ۔ فرد کے سکون اور کامیابی کو لے کر اکثر یہ بے معنی سا جملہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو بدلو، خود پہ محنت کرو، پھر آگے بڑھ سکو گے، اچھے تعلقات اور کامیاب زندگی گزار سکو گے، لیکن اپنے آپ کو بدلنا اپنی فطرت کے ساتھ زنا بالجبر کے مترادف ہے، کون بھلا ایسا کر سکتا ہے؟ خود پر جبر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، فقط اتنا سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ اندرونی اہمیت جتنی بڑھے گی، بے چینی، ناکامی اور مایوسی کے امکانات زیادہ ہوتے جائیں گے، یہ اپنے ناک میں نکیل ڈالنے والی بات ہے، جتنا زور لگائیں گے، تکلیف بڑھتی جائے گی۔
یہ بیرونی اہمیت کسی ایک یا دو چار افراد تک محدود نہیں ہے، اس کا پھیلاؤ پوری کائنات تک ہے۔ زمانہ، بیرونی دنیا سب اس میں شامل ہیں، فطرت آپ کو کچھ دینا چاہ رہی ہے، آپ اندرونی اہمیت پہ اٹکے ہیں، قسمت کچھ نیا لانے کو ہے، آپ اپنی خواہش پہ رو رہے ہیں، دوست احباب آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں، آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی ٹانگ کھینچی جا رہی ہے، اندرونی اہمیت پر فوکس کرنے کا نقصان یہی ہے کہ آپ اپنے آگے تمام دروازے بند کرتے جاتے ہیں، قید تنہائی میں سینہ پیٹتے ہیں، اور پھر منصور ملنگی کے غمگین گانے سنتے ہیں۔
یہ صرف بیرونی اہمیت ہے جو کسی شخص کو خوش نصیب بنا سکتی ہے، اندرونی اہمیت کا اس میں کوئی کردار نہیں، فرض کیجئے کہ ایک عورت اپنے کسی دوست سے شادی کی خواہشمند ہے، دونوں میں محبت بھی ہے، لیکن اگر عورت ہر وقت، کب شادی کریں گے، کیا تمہیں مجھ سے محبت نہیں ، والدین کو کب رشتے کیلئے بھیجو گے، کا ڈھول پیٹتی رہے گی تو ایک دن اس کا یہ دوست اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا، کیونکہ عورت کا مکمل فوکس اندرونی اہمیت ہے، یہ وہ منفی توانائی ہے جو سامنے والے کو پچھلے قدموں جانے پہ مجبور کرتی ہے، سمجھدار عورت اندرونی اہمیت کی بجائے اگر بیرونی اہمیت پر فوکس کرے کہ اس کے ہونے والے شوہر کی پسند ، خوشی کس چیز میں ہے ، اسے عزت و احترام دے، تعریف کرے، تو یہ حربہ بنگالی بابے کے تعویذ سے زیادہ پراثر ہوگا۔
انسان کی پوری جدوجہد یہی ہے کہ وہ دوسروں سے کیا کچھ حاصل کر سکتا ہے، یہ جاننے کا تکلف شاذونادر ہی کیا جاتا ہے کہ دوسرے اس سے کیا چاہتے ہیں، ہم اگر دوسروں سے کچھ حاصل کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو ضروری ہے کہ اپنی توجہ کو اندرونی اہمیت سے بیرونی اہمیت پر شفٹ کیا جائے، یعنی کہ فقط یہ جاننا ہے کہ دوسرا شخص کیا چاہ رہا ہے، ایسا کرنے سے گویا کہ آپ بند گلی میں ایک چھپا ہوا دروازہ دیکھ لیتے ہیں۔ پرکشش شخص وہی ہے جو اپنے آپ کو منوانے کی بجائے دوسرے کو اہمیت دے رہا ہے، اسے سن رہا ہے، اسے احساس دلا رہا ہے کہ وہ اس کیلئے اہم ہے، دلچسپی دکھا رہا ہے، ایسے کرنے سے آپ سامنے والے کی اندرونی اہمیت کو تسکین دیتے ہیں، جواب میں آپ کی اندرونی اہمیت کو احترام اور محبت دی جاتی ہے۔
اب فیصلہ خود ہی کر لیجئے کہ کونسا شخص آپ کو زیادہ پسند ہے، وہ جو اپنی شخصیت کو ، اپنی ذات کو آپ پہ مسلط کر رہا ہے، یا وہ جو آپ کی شخصیت میں، آپ کی ذات میں دلچسپی دکھا رہا ہے؟ ہم محفلیں بھی وہی پسند کرتے ہیں جہاں ہمارے سر پر سوار ہونے کی بجائے ہمیں آشکار ہونے کا موقع دیا جاتا ہے، دوست ہمیں وہی اچھے لگتے ہیں جو اپنی شخصی اہمیت کی بجائے ہماری شخصی اہمیت کو اہم سمجھتے ہیں، یعنی جس کا فوکس اندرونی اہمیت کی بجائے بیرونی ہے،۔ اسی چیز کو اب خود پہ لاگو کر کے دیکھئے ۔
دراصل توجہ کو خود سے ہٹا کر دوسرے پر لانے سے ہماری اندرونی اہمیت اب اندرونی نہیں رہتی ، بلکہ بیرونی ہو جاتی ہے، انسان کی زندگی میں ہوتا وہی ہے جو بیرونی اہمیت چاہتی ہے، آپ لاکھ خواہشیں پالیں، ہزار خواب دیکھ لیں، یہ سب تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک بیرونی اہمیت ایسا نہ چاہے۔ مثلآ اگر آپ کسی حسین شخص کے ساتھ عشق میں مبتلا ہیں ، اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں، یہ فقط آپ کا خواب ہے، خواہش ہے، اندرونی اہمیت ہے کہ آپ اسے اپنے خول، اپنی انا میں جکڑنا چاہتے ہیں، لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ بیرونی اہمیت صفر ہے، اس حسین شخص کو آپ میں کوئی دلچسپی نہیں، آپ کی خواہش تب ہی پوری ہو سکتی ہے جب آپ شعیب ملک کی طرح اپنی اندرونی اہمیت کی بجائے اس دوشیزہ کی اندرونی اہمیت پر توجہ دیں گے۔ اسی طرح کا ایک سچا واقعی نیپولین ہل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے جہاں ایک عام سی امریکی خاتون برطانوی شہزادے سے شادی کی خواہشمند تھی اور پھر یہ شادی ہوئی، ایسی ہوئی کہ شہزادے نے اپنے وراثتی تخت کو بھی اس عورت کیلئے ٹھکرایا ۔
اس لفظ ، اہمیت، کو ہم صرف انسانوں کے ساتھ تعلقات تک محدود رکھتے ہیں، بیرونی دنیا یعنی کائنات و فطرت کے ساتھ تعلق میں ہم اس رجحان کو ، اہمیت، کی بجائے، ارادے ، کا نام دے سکتے ہیں، یعنی اندرونی ارادہ اور بیرونی ارادہ۔
اندرونی ارادے کو جتنا اہم جانیں گے، اتنے زیادہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے، تکالیف اٹھانی پڑیں گی، خواب تب ہی پورے ہو سکتے ہیں جب اندرونی ارادے کی بجائے بیرونی ارادے کو اہم سمجھا جائے ۔
(ان دو ارادوں پر راقم الحروف کے دو مضامین، ،داخلی ارادہ، اور ،خارجی ارادہ، کے نام سے وال پر علیحدہ سے موجود ہیں).

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply