الحمرا /اقتدار جاوید

ناموں کا معاملہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ لوگوں کے نام ہوں شہروں کے یا ادبی جرائد کے ان کی اہمیت مسلم ہے۔موجودہ یا ماضی قریب کے بہت سارے ادبی جرائد کے نام آج کی مستعمل زبان میں گویا ایک مارکہ ( برینڈ) ہی بن گئے تھے ۔ان میں نیاز فتح پوری کا نگار، شمس الرحمان فاروقی کا شب خون، احمد ندیم قاسمی کا فنون اور وزیر آغا کا اوراق سے جرائد سر فہرست ہیں۔ایک پرچہ صریر تھا جس کا فہیم اعظمی نے کراچی سے اجرا کیا اور جدید مباحث کی وجہ سے اسے ایک اہم پرچہ بنا دیا۔نصیر احمد ناصر نے بعد ازاں تسطیر جاری کیا تو صریر کے مدیر فہیم اعظمی نے نصیر احمد ناصر سے کہا تھا کہ تسطیر نام اتنا اچھا ہے کہ میں اپنے پرچے کا نام صریر کی بجائے تسطیر رکھتا بلکہ نام ہی اڑا لیتا۔ایسے ہی خوبصورت ناموں میں ایک پرچہ ” الحمرا ” ہے جو لاہور سے شاہد علی خان کی ادارت میں پچھلے اکیس برس سے تواتر سے شائع ہو رہا ہے۔تواتر کی اس مثال نے اسے نگار اور شب خون کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
شاہد علی خان خود ادیب نہیں مگر وہ ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان اور مولانا حامد علی خان سے ہوتے ہوئے اب شاہد علی خان نے الحمرا کے ذریعے ادب کے فروغ کا منصب سنبھال لیا ہے۔مولانا حامد علی خان ہمایوں کے مدیر تھے۔گویا شاہد علی خان جدی پشتی مدیر ہیں۔ہمایوں پینتیس سال جاری رہا فنون اور اوراق کی عمر بھی کم و بیش اتنی ہی تھی۔ہمایوں کی ادارت کے دوران مولانا حامد علی خان کے سرپرستوں میں سر عبدالقادر اور علامہ اقبال جیسے زعما شامل تھے۔ہمایوں کی اہم خصوصیت علمی متانت اور علمی معیار تھی یہی شاہد علی خان کے الحمرا کی وجہ ِشہرت ہے۔یہاں کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں۔اسی ادب کی کمٹمنٹ نے الحمرا کو موجودہ عصر کا ایک اہم پرچہ بنا دیا ہے۔سال کے گیارہ ماہ عام اور جنوری میں اس کا خاص نمبر شائع ہوتا ہے جسے مدیر سالنامہ کا نام دیتے ہیں۔سالنامے کی یہ روایت بھی الحمرا نے ہی جاری رکھی ہوئی ہے۔تازہ سالنامے کے مندرجات ایسے ہیں کہ ان پر بات کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
پرچے کا اجرا آسان ہے مگر اسے جاری رکھنا کارے دارد ہے۔بہت سارے ادیبوں نے پرچہ جاری تو کر لیا مگر بہت جلد ہمت ہار گئے۔انتظار حسین خیال کا ایک ہی شمارہ نکال سکے۔عسکری اور منٹو نے بھی اردو ادب نکالا مگر اسے جاری نہ رکھ سکے۔ویسے ادبی پرچوں کا ذکر ادبی خانوادوں کے بغیر بھی مکمل نہیں ہوتا۔احمد ندیم قاسمی کا فنون کئی مسائل کا شکار ہے بایں ہمہ ان کی اگلی نسل نے اسے سینے سے لگایا ہوا ہے۔ان کی تیسری نسل میں نیر قاسمی جیسے ہونہار موجود ہیں۔ ناہید قاسمی نے فنون کے کئی یادگار نمبر شائع کیے ہیں۔البتہ وزیر آغا کے اوراق ان کے بعد بے توجہی کا شکار رہا۔سلیم آغا آسانی سے اسے جاری رکھ سکتے تھے ایک تو وہ خود افسانہ نگار، انشائیہ نگار اور نظم نگار تھے ادیبوں سے واقفیت رکھتے تھے پیسے ویسے کا مسئلہ بھی نہیں تھا۔اس کے باوجود انہوں نے اسے دوبارہ شائع کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔شاہد علی خان وہ خوش نصیب آدمی ہیں جو شاعر نہ ہونے کے باوجود الحمرا کا ایک ربع صدی سے نکال رہے ہیں۔اسے ہمایوں کا تسلسل ہی سمجھا جانا چاہیے۔
حسب معمول الحمرا گیارہ حصوں پر مشتمل ہے جن میں اداریہ، حمد، نعت، تنقید، غزل، نظم، افسانہ، مزاح اور احباب کے خطوط شامل ہیں۔الحمرا کو اردو کے اہم ترین ادبآ کا قلمی تعاون حاصل ہے جن میں ظفر اقبال، ستیہ پال آنند، فتح محمد ملک، اے بی اشرف، نذیر قیصر، نسیم سحر، آغا گل، عذرا اصغر، خورشید رضوی، سحر انصاری، یاسمین حمید، ناصر عباس نیر، ناصر بلوچ اور شاہدہ دلاور شاہ جیسے سینیرز شامل ہیں۔غزل کا حصہ ہمیشہ ظفر اقبال اور نذیر قیصر جیسے اہم شعرا سے شروع ہوتا ہے۔ دونوں شعرا غزل کی آبرو بھی ہیں اور الحمرا کی بھی۔ظفر اقبال کی غزل تو آگے نئی نسل تک منتقل ہو چکی ہے البتہ نذیر قیصر اپنے اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔نذیر قیصر اس وقت غزل کے نمائندہ شاعر ہیں۔ان کی غزل معاشرے کی تطہیر کرتی نظر آتی ہے۔مظاہر سے تعلق ان کی غزل کا خاصہ ہے جہاں ستارے، آسمان، پیڑ، ہوا، پھول، لڑکی، باغیچے اور پانی استعاراتی فضا تخلیق کرتے ہیں۔
کبوتر طاقچوں سے اڑ رہے ہیں
شجر گنبد سے اونچا ہو رہا ہے
آغا گل نے افسانے میں الگ بہار قائم کی ہے۔بلوچستان کے پس منظر میں افسانے کی غایت بناتے ہیں۔ وہاں کے مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں۔نوجوان نسل جن مسائل کا شکار ہے اس کی بات کرتے ہیں۔کسی خاص نسل یا خاص علاقے کی بات کرتے ہوئے وہ بہت کچھ کہہ جانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ سال نامے میں ان کا افسانہ شوئست خصوصی مطالعے کا متقاضی ہے جہاں سیما کے والدین، دو قومی نظریے کی دھوتی، سیاست اور عقیدے کے پینڈولم، لیاری کی پرپیچ گلیاں، ریاستی تشدد، مسخ شدہ لاشیں اور مفلوک الحالی نظر آتی ہے۔اس وقت وہ واحد مزاحمتی افسانہ نگار کہا ہے۔ملک جس قسم کے اندرونی اور بیرونی خلفشار کا شکار ہے اس کو بلا کم و کاست بیان کرنا تخلیق کار بنیادی وظیفہ ہے۔
ادب کی طرح ادبی رسائل بھی میراتھن ریس کی طرح ہوتے ہیں۔یہ سو میٹر کی دوڑ نہیں ہوتی لمبی دوڑ ہوتی ہے۔
مولانا ظفر علی خان مولانا حامد علی خان کا خانوادہ اب بھی ادب کی مشعل تھامے ہوئے ہے۔فقیر ِروزگار میں سید وحید الدین نے اقبال کا کہا نقل کیا ہے۔اقبال یوں تو ملا کے خلاف تھے مگر قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا کے نشانات دیکھ کر آئے تو گویا ہوئے کہ ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو ان چٹائیوں پر پڑھنے والے درویش نہ رہے تو مسلمانان ہند کا بھی وہی حال ہو گا جو اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو سال کی حکمرانی کے باوصف ہوا ہے وہاں اسلامی کھنڈرات کے علاوہ وہاں کچھ نہیں۔نہ اسلام رہا نہ اس کے پیروکار۔یہ درویش اور ملا ہی ہیں جن کے دم سے یہ رونق ہے۔ادبی پرچوں میں رونق شاہد علی خان جیسے درویش لوگوں سے ہے۔نہ ذاتی شہرت اور نہ ادبی تاجوری کا شوق۔ ادب سے محبت ہی ان کی اول آخر پہچان ہے۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply