مفتی منیب اینڈ کمپنی کا چاند یا خدا کا چاند؟

‎‏
‎‏‎آسٹریلیا اور ملائشیا میں بھی چاند نظر آ جاتا ہے، جو ہم سے تین سے چھ گھنٹے آگے ہیں ۔ مڈل ایسٹ میں بھی نظر آ جاتا ہے، جو ہم سے دو سے تین گھنٹے پیچھے ہیں۔
‎اب ‏‎ایک معصومانہ سوال ہے، اگر مفتی منیب صاحب کے چاہنے والوں کو برا نہ لگے کہ آخر ساری دنیا میں سعودیہ سے لے کر آسٹریلیا، ملیشیا، انڈونیشیا، چین، سنگاپور، مڈل ایسٹ، فار ایسٹ، کینیڈا، امریکا، یورپ، بنگلہ دیش میں چاند آج نظر آتا ہے تو پاکستان میں ایک دن بعد کیسے پیدا ہو جاتا ہے؟کیا الله پاک نے مفتی منیب اینڈ کمپنی کے لیے اسپیشل چاند بنا کر رکھا ہوا ہے؟
‎1971‏‎سے پہلے اگر چٹاگانگ یا ڈھاکا میں چاند نظر آجاتا تھا تو مغربی پاکستان والے ان کے ساتھ عید منا لیتے تھے، لیکن آج اگر مفتی منیب اینڈ کمپنی کے اراکین سے سوال کریں تو وہ کہیں گے کہ بنگلہ دیش کا مطلع الگ ہے اور ہمارا مطلع الگ۔
‎پوری دنیا کا چاند ایک اور ان کا چاند اور
‎‏‎یوں لگتا ہے کہ مفتی صاحب کے پاس الله کے چاند کا ویزا ہے
‎‏‎کہ لکیر کے اُس طرف عید اور لکیر کے اِسطرف روزہ اور جب تک مفتی منیب صاحب سے چاند کو ویزہ نہیں ملے گا وہ لکیر کے اِس طرف نہیں آ سکتا۔
۔اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا تمام مسلمان ایک دن عید نہیں منا سکتے؟ کیا تمام دنیا کا مطلع ایک نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب ہے کہ ہاں سب ملکوں کا مطلع ایک ہے۔ یہ بات تمام مسالک، جیسے مالکی، حنفی، حنبلی، شافعی کی کچھ شاخیں کے فقہا یہ بات مانتے ہیں کہ جس بھی مسلم ملک میں چاند نظر آئے، دوسرے ممالک کے مسلمان بھی ان کے ساتھ روزہ اور عید منائیں۔
‎‏‎آخر کیسے کیوں؟ ہم سوال اٹھانے والوں کو جواب دینے کی بجاۓ مذہب کے نام پر ڈرا دھمکا کر خاموش کیوں کرا دیتے ہیں؟
‎‏‎چند لوگ جو پارسا اور پرہیزگار بھی ہوں، اور شق 62/63 پر بھی پورے اترتے ہوں، اگر وہ زاہدان، جلال اباد، امرتسر، ممبی یا دبئی میں چاند دیکھ لیں اور صرف چند گھنٹے کی فلائٹ لے کر مفتی منیب الرحمان صاحب کی رویتِ ہلال کمیٹی کے سامنے جو کراچی میں چھت پر کھڑی دوربین لگا کر چاند دیکھ رہی ہوتی ہے، اُسے گواہی دے دیں تو کیا یہ رویتِ ہلال کمیٹی والے اُن کی گواہی مان لیں گے؟
‎وہ ایسا شاید نہ کریں اس لیے کہ ہمارے یہاں قومی ریاستوں کی حدود اللہ کے رسول ﷺ کی سنت سے زیادہ محترم اور مقدس ہو چکی ہے
‎مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ رویت ننگی آنکھ کے ساتھ دیکھنے میں ہے۔۔۔ درست۔۔۔ مگر پھر یہ دوربین کس کام آتی ہے؟ کیا دوربین سے دیکھنے سے ننگی آنکھ کی شرط باطل نہیں ہو جاتی؟ سچ تو یہ ہے کہ عینک بھی ننگی آنکھ کی شرط پوری نہیں کرتی۔چاند دیکھنے میں تو یہ سب مولوی حضرات ایک روایت کا سہارا لے کر ننگی انکھ سے دیکھنے پر اصرار کرتے ہیں، اور سائنس کو نہیں مانتے مگر کیا یہ سب رمضان کے مقدس مہینے میں، نماز، سحری، تراویح اور دیگر عبادات رسول ‬ﷺ کی سنت کے مطابق وقت دیکھ کر کرتے ہیں؟
‎اس کا جواب ہے۔ نہیں۔ یہ سارے سائنس کا سہارا لے کر گھڑی کے مطابق ساری عبادات کرتے ہیں جب کہ ہمارے رسول ﷺ کے زمانے میں ظہر، عصر ایک ڈنڈے کے ساۓ کے زریعے، فجر، مغرب سورج کے طلوع اور غروب کے زریعے متعین کیا جاتا تھا۔
‎اب رمضان کے چاند پر تو ہمارے تمام مولانا حضرات ننگی آنکھ پر اصرار کرتے ہیں اور جب عبادات کرنی ہوں تو فوراً گھڑی پہن لیتے ہیں۔‫ کیا یہ بہت بڑا تضاد نہیں ہے؟
‎‫آپ سب قبلہ کی طرف منہ کر کے اپنی عبادات ادا کرتے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ زمانہ قدیم کے مسلمان اندازے سے قبلہ کا تعین کیا کرتے تھے۔ جب مسلمانوں نے سائنس کا سہارا لینے کی کوشش کی تو امام احمد ‬(780-855 AD)‫ اور ابنِ رجب ال حنبلی ( AD 1336- 1393) نے قبلہ کا تعین کسی سائنسی آلے کے زریعے کرنے کی سختی سے ممانعت کر دی تھی۔ ابنِ رجب نے مزید یہ کہا کہ یہ غداری ہو گی رسول ﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ اگر ہم نماز کی ادائگی یا قبلہ کا تعین کسی سائنسی طریقہ سے کریں۔ ‬ہمارے علما حضرت اب قبلے کے تعین کے لیے حضرت عمر کی سنت کی پیروی کیوں نہیں کرتے جنہوں نے کہا تھا کہ قبلہ کا رُخ مشرق اور مغرب کے درمیان میں ہے۔ کیا ہمارے علما حضرات ‬‫عمر کی سنت پر واپس جانا پسند کریں گے؟ ‬
‎‫پھر ایک سوال ہے اپنے مفتی صاحبان سے کہ آپ جس طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں، وہ بھی تو سائنسی آلے کے ذریعے متعین ہوا ہے۔ یہاں کیوں نہیں سنت کے مطابق اندازے سے تعین کر کے پڑھتے؟ ‬
‎‫اسی طرح، کیا آپ کو معلوم ہے کہ زمانہ قدیم کے فقہ کے ماہرین، نمازوں کا وقت پہلے سے متعین کرنے کو خلافِ شریعت سمجھتے تھے مگر اب ایک چھوٹا سا سمارٹ فون بتا سکتا ہے کہ اگلے سو سال کے بعد ہماری نمازوں کے اوقات کیا ہوں گے۔ تو سوال یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک چاند کو کیوں ننگی انکھ کے ساتھ کس لئے مشروط کیا ہوا ہے؟‬جب ہم نماز سائنس کی ایجاد کردہ گھڑی کے مطابق ادا کر سکتے ہیں تو رمضان اور عید کے لیے سائنس کی مدد کیوں نہیں لی جا سکتی۔ اگر تو آج کل کے علما سائنس کو نہیں مانتے، تو پھر کیوں نہیں تمام نمازوں کو بھی سورج کے ابھرنے، ڈھلنے اور اس کے سائے کی پیمائش وغیرہ سے مشروط کیا جاۓ؟‫‬
‎‫اب آتے ہیں اِیک اور نکتے کی طرف۔ جب کوئی ننگی آنکھ سے چاند دیکھ لے تو مفتی صاحب کا کہنا ہوتا ہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق چاند تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا، اس نے کیسے دیکھ لیا اور اگر محکمہ کہہ دے کہ آج قوی امکانات ہیں کہ چاند نظر آ جاۓ گا تو پھر مفتی صاحب کا اصرار ننگی آنکھ سے دیکھنے کو ہوتا ہے۔ اور وہ بھی اس وقت تک، جب تک یہ خود نہ دیکھ لیں، تب تک یہ اعلان نہیں کرتے۔ ‬یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان تضادات کے پیچھے کہانی کیا ہے؟میرے خیال میں ان کو سعودیوں کے فقہ سے خصومت ہے اور یہی سارے مسائل کی جڑ ہے۔ یہ ان کی امامت میں نماز پڑھنا فائق نہیں سمجھتے تو ان کے ساتھ عید کس طرح منا سکتے ہیں۔
‎کوئی حکومت سے یہ پوجھے کہ چاند دیکھنے کا مذہب کے ساتھ کیا تعلق کہ ایک پوری چھبیس رُکنی کمیٹی بنا دی۔ کیا یہ ملاوں کو رشوت دینے کے لیے بنی ہوئی ہے، آخر کیوں ہمارا ٹیکس کا پیسہ ان لوگوں پر اڑایا جاتا ہے؟ چاند کا اعلان تو گریڈ سترہ کا افسر بھی کر سکتا کسی بھی شہر یا ملک سے گواہی آنے کے بعد۔ اس میں چھبیس ارکان کا کیا عمل دخل اور وہ بھی اس سائنسی دور میں۔
‎‫حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس کی مخالفت ہمارے مذہبی فکر میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ فراست کا عالم یہ ہے کہ یہی حضرات کسی زمانے میں ٹی وی کو حرام گردانتے تھے اب سج دھج کے اسی پہ آتے ہیں تو حضور چاند کے معاملہ میں سائنسی حساب سے کیوں فائدہ نہیں اٹھاتے؟ آخر یہ دوربین وغیرہ بھی تو سائنسی ایجادات ہیں وہ کیوں لگا رکھی ہوتی ہے؟ ‬
‎‫میرا سوال ہے کہ اگر یہ جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتی تو کیا آپ اس کا استعمال فرماتے یا اسے رد کر دیتے؟‬
‎علما کرام سے بھی درخواست ہے کہ اس جدید زمانے کی ضروریات کو سمجھیں اور جو خول انہوں نے اپنے اوپر صدیوں سے چڑھایا ہوا ہے اس سے باہر نکلیں۔ اس بات کو سمجھیں کہ سائنس جتنی اب ترقی کر گئی ہے، اتنی ترقی ہمارے بزرگوں کے زمانے میں نہیں تھی۔ اس زمانے کے علما نے اپنے زمانے کے حالات اور دستیاب سائنسی حقائق کی بنیاد پر چاند کے بارے میں فتوے دیے۔ آج کے علما کو مختلف سائنسی حقائق اور حالات درپیش ہیں، ان کو چاند اور دیگر مسائل کے بارے میں فیصلہ آج کے حالات اور حقائق کی بنیاد پر کرنے ہوں گے۔
‎اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل لوگوں کی ریسرچ سے مدد لی گئی ہے۔
1. Dr Zulfiqar Ali Shah A Analyses of Moon Sighting Arguments (Fiqa council north america)
2. Hamza Yusuf, Cesarean Moon Births, Part I & II, posted on www. zaytuna. org
3. Mokhtar Maghraoui “An Islamic Legal Analysis Of The Astronomical Determination Of The Beginning of Ramadan

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply