مارگلہ کی” چھمبر”آبشار(1)۔۔آصف محمود

شادرا کے جنگل سے آگے پرستان ہے۔ آپ کبھی جائیں اور مارگلہ کی اس وادی میں گم ہو جائیں۔ بچپن میں سنی ساری طلسماتی کہانیوں کا سحر اور جنگل کی داستانوں کا سارا حسن آپ کے وجود سے لپٹ جائے گا۔ خوابوں جیسا یہ سفر کہکشائوں کی مسافت ہے۔ جس کے اختتام پر مارگلہ کی ملکہ، یہ آبشار آتی ہے جسے لوگ چھمبر کہتے ہیں۔

شادرا کے قدیم گائوں کے آگے ایک بغلی سڑک ہے، تھوڑے فاصلے پر ندی میں جوبن ہے۔ ندی کے اُ س پار ایک رستہ ہے جو چند گھروں کی اس بستی کے صحن سے گزرتا ہوا، ندی کے ساتھ ساتھ چلتاجنگل کی وسعتوں میں گم ہو جاتا ہے۔ شروع میں کچھ کشادہ سا راستہ ہے، پھر ایک مقام پر یہ ختم ہو جاتا ہے، آگے ایک پگڈنڈی جیسی مسافت ہے، کچھ دیر بعد یہ بھی ختم ہو جاتی ہے اور ندی کے اندر ہی اندر چلنا پڑتا ہے۔ پھر ایک مقام آتا ہے پانی کے تیز بہائو کی وجہ سے ندی کے اندر سے بھی چلنا ممکن نہیں رہتا۔ آپ کو ندی کے ساتھ عمودی پتھروں کو تھام کر گویا دیوار پر چل کر جانا ہوتا ہے۔ آپ اس مرحلہ شوق سے گزر جائیں تو سامنے آبشار ہے۔ مارگلہ کی چھمبر۔

چھمبر کو جانے والا راستہ کوئی ٹریل نہیں ہے۔ یہ دل کا راستہ ہے۔ یہ کٹے تو شب کاٹے تو سانپ کہلاوے والا معاملہ ہے۔ ندی میں پانی نہیں ہے تو جانے کا فائدہ نہیں، اس کا مطلب ہے آبشار خشک ہے۔ ، ندی میں پانی زیادہ ہے تو جانا ممکن ہی نہیں، دو مقامات پر ندی خاصی گہری ہے اور اس کے اطراف عمودی پہاڑ کھڑے ہیں، کوئی گزرے تو کہاں سے گزرے۔

یہاں جانے اور آبشار کو دیکھنے کی ایک ہی صورت ہے۔ ندی خشک نہ ہو اس میں پانی ہو۔ پھر یہ کہ پانی کم نہ ہو خوب روانی میں ہو، اور مزید یہ کہ روانی میں تو ہو لیکن بہائو میں اتنی شدت نہ ہو کہ ندی کے اطراف عمودی پہاڑ تھام کر گزرنے کے جو تین مشکل راستے ہیں وہ بھی پانی کے بہائو کی زد میں آ کر بند ہو جائیں۔ یہ ظاہر ہے اتنا آسان نہیں ہے۔ آبشار کا کیا پتا کب تک روٹھی رہے اور کب مائل ہو جائے اور ندی کا کیا بھروسا کب تک خشک پڑی رہے اور کب اس میں طغیانی آ جائے۔ چنانچہ ایسا ہوتا ہے کہ سالوں بیت جاتے ہیں اور جانے والے جا نہیں پاتے۔
ماندلہ گائوں کی وادی میں پہاڑوں کے دامن میں اور ندی کے پہلو میں خوابوں پر رکھے گھر میں رہنے والے زعفران چیچی صاحب نے خبر دی کہ اس وقت پانی کے بہائو کی ساری شرائط پوری ہیں اور کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ چند روز میں پانی کا بہائو کم ہو جائے یا زیادہ ہو جائے لہذا آبشار دیکھنے یہاں جانا ہے تو یہی وقت ہے۔ یہ خبر سنی تو دل اداس ہو گیا۔ مجھے چیسٹ انفیکسن، فلو اور الرجی کی وجہ سے سانس کی تکلیف تھی، چلنا دشوار تھا۔ اس حالت میں پہاڑوں میں کیسے جایا جاتا۔ لیکن یہ احساس بھی تھا کہ ایسا منظر پھر جانے کب ملے۔ اگلے سال ساون بھادوں میں کسے معلوم بارشیں ہوں گی، آبشار رواں ہو گی اور ندی میں یہی جوبن ہو گا یا نہیں۔ بالآخر عقل ہار گئی اور عشق جیت گیا۔ یہ طے ہوا کہ جانا تو ہے آگے جو ہوگا اللہ مالک ہے۔

بھادوں جنگل کا شباب ہوتا ہے۔ ندی کے پہلو سے ہم جنگل کی جانب مڑے تو وادی کی وسعتوں میں سبزے نے طبیعت بحال کر دی۔ پہلو میں بہتی ندی کا شور تھا، راستہ تتلیوں سے بھرا پڑا تھا، پگڈنڈی پر جنگلی پھول کھلے تھے، ہم آگے بڑھتے گئے راستہ سکڑتا گیا۔ یہ مانوس جنگلوں کا اجنبی رستہ ہے۔ ہر بھادوں میں اس کی ہیئت بدل جاتی ہے۔ یہاں لوگ بہت کم آتے ہیں۔ مقامی لوگ باہر والوں کی آمد کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اس کی ان کے پاس معقول وجوہات ہیں۔ چونکہ آمدو رفت نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے ہر چند قدم کے بعد رک کر دیکھنا پڑتا تھا کہ رستہ کہاں ہے۔ مختصر سی آبادی کے آخری گھر تک تو راستہ ہے اس کے بعد یوں سمجھیے کہ راستہ خود ہی بنانا پڑتا ہے۔

ندی کے اس پار جنگل میں ایک گھر تھا۔ چند گھروں کی اس بستی سے دور اس بستی کا آخری گھر۔ میں وادی کی وسعتوں میں اس گھر کو تکتا رہا۔ کتنے ہی جاڑے اس گھر کے مکینوں نے جاگ کر گزارے کہ ندی کے پاس تیندوا گرجتا رہتا تھا اور ایک بار ان کی گائے بھی کھا گیا تھا۔ درہ کوانی ان دنوں شہریوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے کیونکہ وہاں کافی تعداد میں تیندے آ چکے ہیں۔ وائلڈ لائف والوں کے ساتھ جب میں د رہ کوانی میں جاتا ہوں تو وہ زمین پر تیندوے کے نشان دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ یہ ا س نے اپنا علاقہ مارک کیا ہوا ہے۔ اسی طرح گائوں کے پرانے لوگ بھی تیندوے کی بو سنگھ لیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے جب تیندوا اپنا علاقہ مخصوص کر لیتا ہے تو وہ بو چھوڑتا ہے تا کہ سب کو معلوم ہو جائے یہ علاقہ اس کا ہے۔ ایک عرصہ ایک تیندوے نے شادرا کی یہ وادی اپنا پایہ تخت بنائے رکھی اور کتنے ہی لوگوں کے جانور وہ کھا گیا۔ یہ کہانی یاد آئی تو خوف اور ڈر کی ایک لہر وجود میں اتر گئی۔ لیکن پھر سامنے وادی کے حسن کو دیکھاتو سب بھول گیا۔
شہر کے ہنگاموں سے دور، سیاحوں اور منچلوں کی یلغار سے محفوظ مارگلہ کی یہ اکیلی اور پردہ نشیں وادی بھادوں میں سراپا حسن بن چکی تھی۔ انسانی قد سے اونچی جھاڑیوں کے بیچ سے یہ راستہ حسن اور خوف کا امتزاج تھا۔ پائوں پھسلا تو ہڈی پسلی ایک۔ اور اگر سامنے تیندوا آ گیا تو پھر نہ ہڈی ایک نہ پسلی ایک۔ دل کی اس گزر گاہ پر چلتے چلتے پھر ایک وقت آیا ہم آبشار کی نیچے کھڑے تھے۔ وجود پسینے سے بھیگا ہوا تھا مگر جسم پر سردی کی وجہ سے کپکپی سی طاری ہو گئی۔ یہ ایک عجیب کیفیت تھی جس کا تجربہ پہلی بار ہوا۔ آبشار کی یخ بستہ پھوار ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کے ساتھ وجود سے ٹکراتی اور برفاب کر جاتی۔ آبشار کے اطراف میں چشمے پھوٹ رہے تھے اور ندی میں گر رہے تھے۔ موتیوں جیسا صاف پانی، آبشار کا شور، بہتی ندی، قطار اندر قطار اڑتی تتلیاں، چہکتے پرندے، وادی کا سناٹا۔ پوری وادی گویا دیوار دل پر سوال بن کر دستک دے رہی تھی کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس پورے سفر میں یاد ہی نہ رہا، چیسٹ انفیکشن بھی تھی اور سانس کی تکلیف بھی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب سے لوٹا ہوں طبیعت بحال ہے اور سانس کی تکلیف ختم ہو چکی۔ میری اہلیہ اسے واہمہ سمجھتی ہے لیکن یہ سچ ہے مارگلہ کا جنگل شفاء ہے۔ میں کچھ دن جنگل نہ جائوں تو طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے اور جنگل میں ایک پہر گزار آئوں تو وجود میں جیسے سرشاری سی بھر جاتی ہے۔ جیسے روح ری چارج ہو جائے۔ فطرت تو مہربان ہے، بس لوگوں کے پاس اب فطرت کے لیے وقت نہیں رہا۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply