ملحدین کے فکری روئیے/ڈاکٹر یونس خان

چند دن پیشتر کسی ملحد (atheist) کی پوسٹ پر میں نے ایک مختصر اور نہایت مہذبانہ تبصرہ کیا، مگر اس کے باوجود موصوف بہت طیش میں آگئے ۔ میں نے اگرچہ ان سے معذرت کی لیکن ان کا غصہ کسی طرح بھی کم نہ ہوا تو میں نے خاموشی اختیار کر لی۔
ان کے کہے ہوئے الفاظ البتہ کئی دن تک میری سماعت میں گونجتے رہے۔ ‘میرے بھائی، مذہب کے کنویں سے باہر نکلو، اس سے باہر کی کائنات بہت وسیع ہے۔ مذہب نے تم لوگوں کے ہوش و حواس اور عقل و خرد چھین لئے ہیں’

میں نے فوری طور پر اس موضوع پر کچھ نہیں لکھا، جب غم و اندوہ کی کیفیت سے کچھ باہر نکلا تو اب قلم اٹھانے کی ہمت کی ہے۔ پوچھنا تو میں ان سے چاہتا تھا کہ جس وسیع عریض کائنات کی آپ بات کر رہے ہیں یہ اپنے تمام تر توازن، تنظیم اور حسن ترتیب کے ساتھ کیا خود بہ خود وجود میں آ گئی ہے یا کسی ملٹائی نیشنل کمپنی نے مینوفیکچر کی ہے؟ آپ کے اپنے بدن کے کئی ٹریلین خلیات میں توازن و ترتیب کسی کا معجزہء تخلیق ہے یا یہ خود ہی مرتب و مدون ہو کر زندگی کے پُراسرار کارواں کے سالار بن گئے ہیں؟ ۔اور بھی بےشمار سوالات۔ لیکن ان سوالات کو میں کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔

فی الحال میں چند ایسے انکشافات کروں گا جن سے ثابت ہو گا کہ ملحد خود بھی اپنے آپ کو ملحد سمجھنے میں مخلص نہیں ہوتا۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہر ملحد اپنے آپ کو ملحد کہتے ہوئے شرماتا بھی ہے اور جھجکتا بھی ہے، اس کی بجائے وہ کبھی سیکولر تو کبھی ہیومینسٹ جیسی اصطلاحات کی آڑ لیتا ہے (حالانکہ ان اصطلاحات کا الحاد سے دور دور کا بھی تعلق نہیں)۔ لیکن اس کا مقصد اس سے بے خدا عقیدے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ وہ پوری زندگی اہل مذہب کو خاص طور پہ اہل اسلام کو تضحیک کا نشانہ بناتا ہے۔

سب سے پہلا انکشاف یہ کہ وہ مرد اور عورت کے انہی رشتوں پر پورا ایمان رکھتا ہے جو صرف توحیدی مذاہب کی دین ہیں۔ مثلاّوہ خونی رشتوں سے نکاح کو درست نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی نگاہ میں تو نکاح ہی جہالت کی علامت ہے پھر بھی وہ ہر ایک سے رشتہء زوجیت استوار نہیں کرتا۔ ہونا تو یہ چاہیے کی وہ سگے خونی رشتوں میں بھی ازدواجیت ممکن بنائے مگر چونکہ وہ سچا ملحد نہیں ہے اس لئے اللہ کی بنائی ہوئی ان حدود سے باہر نہیں جاتا۔ کیا بڑے سے بڑا ملحد بھی اپنی ماں یا بہن یا خالہ یا پھوپھی کو اپنی زوجہ محترمہ بنا سکتا ہے؟ یہ ممانعت تو اللہ نے کی ہے۔ پھر یہ محترم اللہ کا حکم کیوں مان رہا ہے؟ ہے نا سوچنے کی بات۔ کیا یہی ہے سچا الحاد؟

آگے چلیے، لباس کا حکم تو اللہ نے دیا ہے اور بے لباسی کو گناہ قرار دیا ہے۔ کہاں ہے وہ سچا اور خالص ملحد جو سب کے سامنے بے لباس گھومے یا چلو سب کے سامنے نہ سہی جہاں اس جیسے ہم عقیدہ خواتین و حضرات کی محفل ہو وہیں پر سہی۔ کیا ہے کوئی ایسا ملحد؟ اگر ہے تو ہمت کرے، سب کے سامنے آئے۔ طعن و تشنیع میں تو یہ صاحب چھ فٹ کی زبان دراز کرتے ہیں لیکن جہاں عمل کی بات آئے پھر یہ کہاں چلے جاتے ہیں۔

اب آئیے ذرا میت اور تدفین کا بھی ذکر کئے لیتے ہیں۔ کون ایسا ملحد ہو گا جو اپنے مذہبی پس منظر سے باہر نکل کر اپنے پیاروں کی میت کے ساتھ الحاد کے شایان شان سلوک کرے۔ بھئی اب وہ ایک لاش ہی تو ہے جو بقول اس کے کسی قیامت میں بیدار نہ ہو گی، نہ حساب کتاب کا جھنجٹ اور نہ دوزخ جنت کی جھک جھک۔ بس رات گئی بات گئی۔ تو وہ کیوں اب آخری رسومات کے لئے مذہبی رہنما کی خدمات حاصل کر رہا ہے۔ کیوں نہیں اس لاش کو کسی میڈیکل یونیورسٹی کو ہدیہ کر دیتا یا کسی اور طریقے سے ٹھکانے لگا دیتا۔ بھئی وہ سچا ملحد ہو تو ایسا کرنے کی جرات بھی کرے۔ (معزز قارئین۔ اسی طرح کے بے شمار انکشافات اور بھی ہیں لیکن وہ میں آپ کے تخیل اور فکرودانش پر چھوڑتا ہوں۔)

Advertisements
julia rana solicitors london

الحاد کا پرستار یہ کہہ سکتا ہے کہ میں زمانے سے نہیں ٹکرا سکتا۔ جب آہستہ آہستہ ساری دنیا ملحد ہو جائے گی تو میں اپنے سارے ارمان نکالوں گا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وہ یہ ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ الحاد کوئی ایسا سچا نظریہ بھی نہیں کہ وہ اس کے لئے اپنی جان کو مصیبت میں ڈال دے۔ بہت عمدہ بات ہے۔ جان کی حفاظت اسی طرح کرنی چاہیے۔ وہ ضرور اپنی جان محفوظ رکھے مگر ساتھ ہی یہ بھی کرے کہ اپنی زبان پیغمبروں پر دراز نہ کرے جنہوں نے اپنی جان کی اور اپنے تن من دھن کی بال برابر بھی پرواہ نہ کی اور اپنے نظرئیے کے لئے ڈٹ گئے۔ ہر طرح کے ستم برداشت کئے، یہاں تک کہ جان بھی دینا پڑی تو ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔ اور جب صلے یا معاوضے کی بات آئی تو یہی کہا کہ ہمارا صلہ ہمارے رب کے پاس ہے ، ہم انسانوں سے کوئی صلہ نہیں مانگتے۔ اس کے بعد انبیاء کرام کے پیروکاروں کی پوری تاریخ ہے،اک داستان ہوشربا ہے ایثار و قربانی کی۔
الحاد کی پوری تاریخ میں ایسا ایک بھی سچا ملحد ڈھونڈا جا سکتا ہے جو ایسی قربانیوں کا تصور بھی کر سکا ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply