مقابلہ ء حماقت۔۔حسن نثار

زندگی میں ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ کیریکٹر سے واسطہ پڑتا ہے اور کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو بھلائے نہیں جاتے۔ برسوں بعد بھی ان کا خیال آ جائے تو آدمی تنہائی میں بھی مسکرانے لگتا ہے لیکن آج ان پر نہیں ان کے ’’کزن برادرز‘‘ بارے بات کریں گے جو بے وقوفی اور حماقت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اس ’’صحت مند‘‘ مقابلہ ٔ حماقت میں کون کس درجہ پر فائز ہے؟ اس کا فیصلہ قارئین خود کر لیں مثلاًاک ایسے شخص کا تصور کریں جو اپنے والدین کی دیکھ بھال میں تو کوتاہی برتتا ہے لیکن اپنی اولاد سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ بڑھاپے میں اس کا خیال رکھے گی، دیکھ بھال کرے گی۔

اس سیانے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنا کوئی بیحداہم راز کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کے بعد اسے پوشیدہ رکھنے، کسی اور کو نہ بتانے کی درخواست کرتا ہے اور جب بات باہر نکل جائے تو خود کو ملامت کرنے کی بجائے اس شخص کو برا بھلا کہتا ہے جس کے ساتھ اس نے اپنا راز شیئر کیا تھا۔

بندہ پوچھے کہ جس راز کی حفاظت تم خود نہ کر سکے، کسی اور سے اس کی امید کیوں۔شمار اس کا بھی احمق ترین عقل مندوں میں ہونا چاہئے جو یہ سوچ کر کوئی عیب مثلاً جوا یا نشہ ’’ٹرائی‘‘ کرے کہ بس دو چار بار کرنے کے بعد اسے چھوڑ دوں گا۔

ایسا شخص جینئس بھی ہو تو یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ….’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے میں نے ’’احمق ترین عقل مند‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے ’’عقل مند ترین احمق‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

زندگی میں ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو لوگوں کی ظاہری شکل و صورت، وضع قطع، مینر ازم، بول چال وغیرہ دیکھ کر ان پر اعتبار اعتماد کر بیٹھتے ہیں اور پھر مدتوں اپنی رائے پر پچھتاتے رہتے ہیں۔

تمام لوگوں کو قائل یا خوش کرنے کا خیال بھی خاصا بچگانہ اور احمقانہ ہے کیونکہ انسانوں کی ریکارڈڈ ہسٹری میں آج تک تو کوئی شخص بھی ایسا نہیں گزرا جو سب کو مطمئن کر سکا ہو۔ کچھ لوگوں نے تو صرف اس لئے بھی آپ کی مخالفت کرنا ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ آپ سے متفق ہیں۔

’’سدا ناں ماپے حسن جوانیسدا ناں صحبت یاراںسدا ناں باگیں بلبل بولےسدا نان باغ بہاراں‘‘بھلا اس سے بڑھ کر بائولا کون ہو گا جو اس خیال میں حال مست رہے کہ اس کی صحت، حسن و جمال و جوانی ہمیشہ قائم رہے گی حالانکہ یہاں تو پہاڑ، سمندر اور صحرا بھی فانی ہیں۔

سب دو چار دن کی کہانی ہے۔ سنتے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی صحرا ہیں، کبھی سمندر تھے۔ ساحر نے صحیح کہا تھامیں پل دو پل کا شاعر ہوںپل دو پل مری کہانی ہےجسے ہم فانی لوگ ایک صدی یا ایک ہزاری کہتے ہیں یعنی ایک ملینیم تو کون جانے کارخانۂ قدرت میں ایک منٹ تو کیا، ایک پل کا ہزارواں حصہ بھی نہ ہو۔ میں نے کسی بزرگ بارے پڑھا کہ آپ نے بہت لمبی عمر پائی۔

جب بستر مرگ پر تھے، کسی نے ان کی طول العمری کا قصہ چھیڑ دیا تو بولے ’’مجھے تو یہ اتنی طویل زندگی یوں محسوس ہو رہی ہے کہ میں ایک بیحد چھوٹے سے کمرے میں ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل رہا ہوں۔‘‘وہ لوگ بھی لاجواب بلکہ لاعلاج ہیں جو کسی کام کو ادھورا چھوڑتے وقت یہ فرض کر لیتے ہیں کہ آئندہ کسی وقت اسے مکمل کر لیں گے۔

ایسے لوگوں کا کوئی کام کم از کم میں نے تو پایۂ تکمیل تک پہنچتے کبھی نہیں دیکھا جبکہ حقیقت یہ کہ ’’کام‘‘ کسی کو بھی عزت صرف اس وقت دیتا ہے جب کرنے والا اپنے کام کو عزت دے۔

جو فرد، قوم، قبیلہ اپنے کاموں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا، اس کے کام بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے اور پھر وہ گھڑی سر پہ آ جاتی ہے جب اس کا اپنا کام تمام ہو جاتا ہے۔ہر اس شخص کو بھی تمغہ ٔ حماقت بلکہ ستارئہ حماقت ملنا چاہئے جو آزمائے ہوئوں کو دوبارہ آزمانے کی حماقت کا ارتکاب کرے۔

ہماری موجودہ اجتماعی صورتحال کا ذمہ دار بھی دراصل یہی رویہ ہے کہ ہم نے آزمائے ہوئے لوگوں کو صرف دوبارہ ہی نہیں بار بار آزمایا حالانکہ اسلاف نے صدیوں پہلے ہمیں سمجھایا تھا کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا‘‘ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم سوراخوں اور سانپوں کے عشق میں مبتلاہو کر اپنی آئندہ نسلوں کو بھی فراموش کر بیٹھے ….. جہاں سوراخ دیکھا، وہاں دھرنا دے کر بیٹھ گئے کہ جب تک ’’فدوی‘‘ ڈسا نہیں جائے گا، اٹھنے کا نام نہیں لے گا۔

سوراخ تو سوراخ ، جہاں کہیں سانپ دیکھا، سینے سے لگا لیا اور کورنش بجا لانے کے بعد مؤدب ہو کر عرض کیا ناگ راجہ! پلیز ووٹ کو عزت عطا فرمائیں اور اپنے سو فیصد خالص جمہوری زہر سے ثابت کر دیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

حضور کا اقبال سرے محل سے پارک لین تک بلند ہوبوسۂ مرگ مرحمت فرمایئے جو ہمارے لئے آب حیات سے کم نہ ہو گیا ….. ہمیں ووٹ کی پرچی کا کفن پہنا کر بیلٹ بوکس کی قبر میں دفن کر دیجئے کہ اسی میں ہماری نجات ہے۔ ‘‘

’’آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے‘‘’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply