نہال ، تیری بے تکی باتوں پہ کیسے ہوں نہال

ہم بطور قوم جوتے کھانے والی خیالی قوم سے بہت مشابہت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے تو کہا تھا کہ آپ بندے بڑھا دیجیے اور ہم اس حد تک چلے گئے ہیں کہ نااہل کو اہل، دلالوں کو باکردار، ضمیر فروشوں کو با ضمیر بنانے پہ ایسے تلے بیٹھے ہیں کہ ہم اپنے بھانڈ جیسے منہ کو کھولتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم جس شاہ کے لیے اپنے منہ کو اتنی زحمت دے رہے ہیں وہ اتنا بے قوف نہیں ہے کہ بے تکی نونہالیوں پہ ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا۔ شاہ خود جانتا ہے کہ اُس کے آگے مطلب کے لیے لیٹ جانے والے کس حد تک اس کے ساتھ وفادار ہیں۔
مجھے سمجھ اس بات کی نہیں آ رہی ہے نہال ہاشمی صاحب جیسے لوگوں کو ہم سیاستدان کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ویسے معذرت کہ مجھے صحافیانہ انداز اپناتے ہوئے ان کے نام کے ساتھ صاحب لکھنا پڑ رہا ہے۔ حد ہے اس قوم پہ کہ وہ اب بھی یقیناًان جیسے کرداروں کو اپنا راہنما مانے گی۔چلے تھے انصاف کا بول بالا کرنے اس ملک میں، دو پیشیاں ہی نہ جانے کیا کیا بہا کے لے جارہی ہیں۔ ارئے بھئی حوصلہ کیجیے اور پاؤں جوڑ کر رکھیے ابھی تو بہت سفر باقی ہے۔میاں صاحب ذرا دھیان رکھیے کہ آپ ایک بڑے راہنما ہیں اور آپ کے کھوٹے سکے آپ کا قد کم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر تحقیقات کے بعد فیصلہ آپ کے خلاف آتا ہے تو بھی آپ اگر فیصلہ مان لیں گے تو یہ قوم دوبارہ آپ کو موقع ضرور دے گی ۔ لیکن کیا تیسرے درجے کے راہنماؤں کے دفاع پہ اب آپ انحصار کریں گے؟
ہمارے پارٹی سربراہوں کا المیہ ہی یہی ہے کہ وہ خوشامدیوں کو ان کی اوقات سے بڑھ کے دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ بہت کوشش کی لفظ تلخ نہ ہوں مگر کیا کیا جائے کہ میری نسل کا نوجوان جس نے آنکھ 70 کی دہائی کے بعد کھولی ،وہ جب دیکھتا ہے کہ سفید بالوں کا چھجا لیے لوگ اس ملک کی جڑیں کاٹنے پہ لگے ہیں تو اتنا حق تو بنتا ہے کہ لفظوں کے پھپھولے پھوڑ لیے جائیں۔ دل تو کرتا ہے کسی کے سر پہ پھوڑیں مگر صفحات ہی میسر ہیں۔
ہم تو انصاف کی کشتی پہ سوار تھے۔مگر اس کشتی میں سوراخ بھی خود کر رہے ہیں۔ نہ جانے کھلے عام ان دھمکیوں پہ اعلیٰ عدالت کیا ردعمل دیتی ہے مگر اس طرح ایک تھانے کےایس ایچ او کی طرح ہنٹر ہاتھ میں لیے مولا جٹ کا روپ دھارے راہنماؤں کے بیانات کے بعد اگر اعلیٰ عدلیہ ان کومعاف کرنا شروع کر دے گی تو پھر اس قوم کا نوجوان مایوس ہو جائے گا۔اعلیٰ عدلیہ کیا اس بے تکے خطاب کو توہین عدالت نہیں سمجھتی؟ کیا اس طرح ببابگ دہل اپنی ذہنی پسماندگی ظاہر کرنا کیا انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں؟ کیا یہ بے وقت راگنی جے آئی ٹی ممبران کی جان کو خطرے سے متشابع نہیں ؟کیا اس بے تکے بیان سے جے آئی ٹی پہ پریشر نہیں ڈالا جا رہا؟ کیا ان کو نہیں کہا جا رہا کہ خبردار ہمارے خلاف فیصلہ نہ دینا، ورنہ ؟ کیا ان سے نہیں کہا جا رہا کہ خبردار ہم سے کچھ پوچھا تو؟ کیا اس بیان کے بعد ان کی جانوں کو خطرہ نہیں کہ ایک عام سیا ستدان تحقیق کرنے والوں کے بچوں تک کو ملک سے نکالنے کی دھمکی دے رہا ہے؟ کیا ایک سیاستدان سب پہ اتنا بھاری ہو گیا ہے کہ وہ اعلیٰ افسران کے خاندانوں کو دھمکیاں دیتا پھرئے؟
کیا قانون کی کسی راہداری میں شور نہیں اٹھنا چاہیے ؟ نہال صاحب کی زبان سے جو آگ برس رہی ہے وہ ان کی سیاسی پختگی کا عملی نمونہ ہے۔ اور قانون کا طالبعلم ہی بتا سکے گا کہ اس پہ قانون کی کون سی دفع لگتی ہے مگر اس کو دفع دور ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ اور خیال رہے چھوٹے شاہ کی تیسری پیشی بھی ہو رہی ہے۔ تو آپ ان بے سروپا اور اپنی ذہنی پسماندگی ظاہر کرتے بیانات سے جے آئی ٹی کو ویسے غصہ ہی دلا رہے ہیں کہ بھئی جو تھوڑا بہت نرم رویہ رکھنا ہے اب وہ بھی نہیں رکھنا۔ حیرت مجھے میاں صاحب پہ ہو رہی ہے جو ایسے بے وقت بانگ دینے والے مرغوں کا سہارا لے کر سیاست کر رہے ہیں۔ قربانی دیجیے ۔ فوراً اگر، بیان آتا کہ نہ صرف بیان سے تعلق نہیں بلکہ آج سے ان کا ہم سے بھی کوئی تعلق نہیں ۔یقین مانیے کہ سیاسی قد اتنا بڑھ جاتا کہ پانامہ کیس پہ بھی عوام کا رویہ ان کے حق میں تبدیل ہوتا۔ مگر ایسا کیوں ہو گا میاں صاحب بھی ہیں تو سیاستدان ہی وہ بھی پاکستانی ۔
مجھے کوئی گلہ نہیں کہ اگر پاکستانی عوام نہال ہاشمی جیسے راہنماؤں کے ان بیانات کے بعد اور ان کی پارٹی کے ان سے اعلان لاتعلقی نہ ہونے کے باوجود اسی پارٹی سے اپنی وابستگی جاری رکھتے ہیں۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply