گشتی۔۔۔

اس کی پھانسی میں فقط ایک گھنٹہ باقی تھا۔ جیلر کی جانب سے ملی گولڈ لیف کا آخری گہرا کش لگا کر اس نے کاغذ قلم کی فرمائش کر ڈالی جو پوری ہوئی۔ 

“اس کے علاوہ کوئی آخری خواہش؟”

“ہاں۔ جو میں لکھ رہا ہوں اسے پھانسی گھاٹ میں بلند آواز سے سنا دینا”۔ 

اس نے لکھنا شروع کیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“چل اوئے فیکے، سبق سنا۔”

“جی قاری صاحب۔ الیف زر (زبر) آ، بے زر با، جیم زر جا، ح زر۔۔ ح زر۔۔ وہ۔۔ ح زر۔۔۔”  

“ح زر؟؟؟”

قاری وحید کی بانچھیں ایک خباثت بھری مسکراہٹ کے ساتھ پھیل گئیں۔ اس کی آنکھوں کا سرمہ چہرے پہ ایک عجیب سی نحوست برسانے لگا۔ 

“لگتا ہے یاد نہیں کیا۔ کیوں فیکے؟ سبق تیرا باپ یاد کرے گا یا تیری گشتی ماں؟”۔

“قاری صاحب ماں کو کیوں کوستے ہو؟ سبق میں نے یاد نہیں کیا، سزا مجھے دو، ماں کو نہیں”۔ فیکا سراپا احتجاج بن جاتا۔ 

“او تیری ماں سارے زمانے میں مشہور ہے۔ سارا شہر تھوکتا ہے اس پر۔ گشتی ہے تیری ماں گشتی۔”

فیکے کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ 

“سبق تو نے یاد نہیں کیا۔ بتا پھر۔۔ کیا سزا دوں تجھے؟ ڈنڈے کھائے گا یا۔۔۔ کچھ اور؟” 

مولوی صاحب کی لچکدار چھڑی جہاں پڑتی کھال اتر جاتی۔ مدرسے کے بچے عموماً دوسری سزا پہ مان جاتے۔ 

“چھتر نہیں کھانے قاری صاحب۔ اور میری ماں گشتی نہیں ہے۔ وہ دن بھر فیکٹری میں کام کرتی ہے”۔ 

قاری وحید اللہ قہقہہ لگاتے فیکے کو اپنے خاص کمرے میں لے گیا۔

“فیکٹری؟” قاری کے قہقہے جاری رہتے۔ 

“چل اتار یہ، مجھے مغرب بھی پڑھانی ہے”۔

اگلے کئی منٹ فیکے پہ صدیوں بن کر گزرتے۔ اسے قاری وحید اللہ کی بھاری توند اور جھاڑیوں جیسے بالوں سے گھن آتی مگر مجبور تھا۔ جب تک قاری وحید اللہ اس کا ننگا جسم نوچتا رہتا اس کے ذہن میں اپنی ماں کے الفاظ گونجتے رہتے۔ 

“فیکے دن بھر میں تیری حفاظت نہیں کر سکتی۔ تو مدرسے ہی رہ لیا کر۔ شام کو میں کام سے واپس آجایا کروں گی، تب تک تو بھی آجایا کرنا۔”

فیکا سوچتا اس کی ماں قاری وحید اللہ جیسے گھناؤنے شخص کے ہاتھ اسے کیوں سونپتی ہے مگر کچھ سمجھ نہ آتی۔ ویسے بھی اب تک تو یہ سب روز کا معمول بن چکا تھا۔ 

اس دن قاری وحید اللہ کی جگہ حافظ کریم مدرسے میں تھا۔ قاری  کے بارے میں پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے، حکیم کے پاس گیا ہے۔ حافظ کریم نے فیکے کو مزید سبق دے کر اپنے پاس بٹھا دیا۔ فیکا آج سبق یاد کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس نے کئی بار حافظ سے چھٹی مانگی مگر حافظ سختی سے انکار کرتا رہا۔ فیکا بالآخر موقع پا کر بھاگ نکلا اور سیدھا گھر کی جانب ہو لیا۔ 

گھر کے باہر حافظ وحید اللہ کی سائیکل کھڑی دیکھ کر فیکا چونک گیا۔ اس نے اپنی چابی سے دروازہ کھولا اور دبے قدموں گھر داخل ہوا۔ ریحانہ کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ فیکا فقط قاری وحید اللہ کی بدنما کمر اور ریحانہ کی بھدی رانیں ہی دیکھ پایا۔ یہ دن فیکے کا اس شہر میں آخری دن تھا۔ اس کے بعد فیکا شہر سے بھاگ چلا اور کبھی واپس نہ آیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھانسی کا وقت آن پہنچا تھا۔ جیل سپرٹنڈٹ نے اس کی خواہش کے مطابق اس کا لکھا با آواز بلند پڑھ کر سنا دیا۔ مگر ایک سوال اب بھی اس کو تنگ کیے جارہا تھا۔ آخرکار سپرٹنڈنٹ نے پوچھ ہی لیا۔ 

“سیکیورٹی گارڈ ہوتے ہوئے اپنی ہی بس کی ہوسٹس کا قتل؟ کیوں؟”

ڈھکے چہرے کے ساتھ رفیق اللہ ولد حسیب اللہ عرف فیکے نے جواب دیا۔ 

“گشتی تھی صاحب۔ گشتی۔ اماں کی طرح یہ بھی باہر کام کرتی تھی۔ بس میں ہوسٹس بن کر۔ کبھی ایک ہاتھ لگاتا کبھی دوسرا۔ خاموش رہتی۔ میں نے خواہش کی تو دھمکانے لگی۔ یہ سب ایسی ہی ہوتی ہیں صاحب۔ گشتی۔”

سپرٹنڈنٹ کو اپنا جواب مل چکا تھا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

گھڑی نے پانچ بجنے کی نوید سنائی۔ اختر مسیح نے تختہ دار کا لیور کھینچا اور فیکے کو اس کی چھوٹی سوچ سے آزاد کر ڈالا۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 5 تبصرے برائے تحریر ”گشتی۔۔۔

  1. جس معاشرے میں تعلیم ختم اور انصاف ناپید ہوجائے وہ معاشرہ ادب و اخلاق سے عاری ہوجاتا ہے اور سوچ پاتال کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگرتی ہے اور
    ہمارا معاشرہ اس کی مثال بنتا جارہا.

  2. تمام دوستوں سے معذرت کے ساتھ کچھ لکھ رہا ہوں
    دنیا میں موجود لڑکیاں ہوں یا عورتیں سب ایک جیسی نہیں ہوتیں پر کچھ ایسی لڑکیاں جو بس ہوٹس بن کر سب مردوں کی نظروں کی ہوس کا نشانہ بننا تو پسند کرتی ہیں پر گھر میں یہ لڑکیاں پانی کا گلاس بھر کر کسی کو نہیں دیتی مجھے ایسے والدین سے گھن آتی ہے جو جانوروں کی طرح بچے تو پیدا کر لیتے ہیں پر ان کی اچھی نشو نما اور حفاظت نہیں کرتے جب آپ اولاد کو کھلا پلا نہیں سکتے اچھی تعلیم نہیں دے سکتے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہو اور لڑکیاں بھی روشن خیالی کے نام پر بن سنور کر جب بازار کی رونق میں اضافہ کرتی ہیں تو پھر ننگا گوشت دیکھ کر کتے بلے تو نوچنے کی کوشش ضرور کریں گے اور کچھ شاطر لومڑ قسم کے لوگ اس طرح کا ننگا گوشت نوچ ہی لیتے ہیں سب والدین اپنی بیٹیوں کی خود حفاطت کریں اور ان پر نظر رکھیں یہاں تک کہ آج کے شیخ و واعظ بھی ہوس پرستی کا شکار ہو چکے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اسلامی تعلیمات کو ہم نے کچھ اور رنگ دے کر بہت پیچیدہ کر دیا ہے خود قران پاک کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ اسلام میں کس قدر آسانی ہے اور پھر اسلامی تعلیمات پر عمل کریں

    1. یہ تو جناب آپ نے رحمان ملک والی بات کہہ ڈالی کہ دھشت گردی کے پیش نظر گھروں کی دیواریں اونچی کر لیں ۔
      بھائی صاحب معاشرہ میں موجود برائی کا سدباب ھم سب نے مل کے کرنا ھے ۔ ھمارا سارا زور عورتوں پہ تو چل جاتا ھے جن کے لباس کی قیک ایک شکن اور پائنچوں کے ڈیزائن تک پہ تبصرے کر ڈالتے ھیں اور چاھتے ھیں کہ وہ گھر سے باہر ھی نہ نکلیں ۔
      دوسری جانب ایک ظالم جو اسکے ساتھ دست درازی کا مرتکب ھوتا ھے اس سے ھم مکمل کنارہ کشی اختار کرتے ھیں۔

  3. جس معاشرے میں چھوٹے بچوں بچیوں اور عورت کی عزت حوس پرستوں سے محفوظ نہ ہو وہاں ایک طوائف کو معیوب کیوں سمجھا جاتا ہےحلانکہ طوائف اسی معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے

Leave a Reply