ہیکٹر کا خدا (دوسرا حصہ )۔۔۔۔مجاہدافضل

گفت وشنید

Advertisements
julia rana solicitors london

ملحد( Atheist )لوگوں کے نزدیک مذہب ایک پرانے وقتوں کا خیالاتی پلندہ ہے ،ایک مسلمان ہونے کے ناتے اللہ کے وجود پر کامل یقین اور ایمان ہمارے ذہنی اور مذہبی نظریات کا بلندپایہ حصہ ہے ۔
اس دن کے بعد ہیکٹر اور مجھ میں مذہبی سوالات و جوابات کا سلسلہ اکثر ہونے لگ گیا ۔ عام طور پر یورپین باشندے مذہب، سیاست، خاندان اور آمدن کو ایک بہت ہی ذاتی نوعیت کی چیز سمجھتے ہیں ،آپ سے پہلی ملاقات میں اپنے کسی رشتے دار کا ذکر نہیں کرنے بیٹھ جاتے،مگر آپ کبھی لاہور کی مشہور زمانہ جنگلا بس میں سفر کریں اور آپ کا سفر بیس منٹ کا ہی کیوں نہ ہو ،گاڑی سے اترتے وقت ساتھ والے مسافر کے چچا آپ کے آبائی علاقے میں کام کرتے ہوئے بتائے جائیں گے،تب تک آپ کا فون نمبر لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جائے گا۔
ہم اپنی اصل بات کی طرف آتے ہیں ہیکٹر نے مجھ سے پوچھا “تم کیوں ایک مسلمان ہو ؟ “میرے لیے یہ ایک نیا مگر دلچسپ سوال تھا ،میں اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق اسلام پر روشنی ڈالنا شروع ہی کی تھی اور اللہ کا لفظ اپنے منہ سے نکالا ہی تھا کہ اسی لمحے اس نے پوچھا کیا کوئی خدا ہے ؟ یہ سوال میرے لئے پہلے سوال سے زیادہ مشکل تھا ، استاد محترم کے مطابق “دنیا کا سب سے مشکل سوال یہ ہے کہ کیا کوئی خدا ہے” ؟ میرے سارے مسلمان ہونے کے لئے دیئے گئے جوابات کے پیش نظر ،ہیکٹر نے مجھے کہا تم صرف اس لئے مسلمان ہو کیونکہ تم ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہو،میں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا “یسا نہیں ہے میرے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،بالفرض میں کسی بھی غیر مسلم خاندان میں پیدا ہوا ہوتا ،پھر بھی میں دنیا کے سارے کے سارے مذاہب کو پڑھتا اور ان کو سمجھتا اور اس کے بعد میں اسلام کو ایک بہتر اور مکمل مذہب سمجھتے ہوئے مسلمان ہو جاتا” میرے اس جواب سے وہ کچھ اسطرح مسکرایا جیسے وہ مجھ سے شاید کسی ایسے ہی جواب کی توقع کر رہا تھا ،اس نے کہا “چونکہ تم اب ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوئے ہو، ابّ تم نے سارے کے سارے مذاہب کو پڑھ لیا ہوگا، دیکھ لیا ہوگا اور ان کے بارے میں سوچ سمجھ لیا ہوگا ،تمہیں پھر اسلام بہتر لگا ہوگا اور تم نے مذہب بدلنے کی بجائے اسی میں رہنے کو ترجیح دی ؟”
اب پریشان ہونے کی باری میری تھی , میں نے اس کو جواب دیا کہ میں بدقسمتی سے ایسا نہیں کر سکا ! اس نے ایک زور دار قہقہ لگایا ! پھر کہا “تم مجھ سے جھوٹ بول رہے تھے ۔ تمیں اب یہ ماننا ہوگا کہ تم صرف اس لئے مسلمان ہو کہ تم مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے،”اس کے ایسے سوالات اور دلائل کے بعد میرے ذہن میں  پیدا ہونے والے مختلف نوع کے سوالات وخیالات نے مجھے جکڑ لیا۔
“کیا ہم سب لوگ صرف اسی لئے مسلمان ہیں کیونکہ ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں ؟ ” “ہمارے نزدیک اللہ کا وجود بھی صرف ہمارے گھر، مسلک اور مسجد کے مطابق ہیے ؟”
شائدہم حقیقتا اللہ تعالی کو سمجھنے کا حق ایک مسلمان ہونے کے ناطے کبھی ادا کر ہی نہیں سکے ۔
عام طور پر ہمارے لئے ہمارا خدا ویسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے ماں باپ کے لئے تھا ۔ ہمارے کسی نزدیکی مسجد کے مولوی صاحب کے لئے تھا ۔ہم نے اگر نماز ایک طرح کے مکتبہ فکر کے ساتھ پڑھنا شروع کی تھی تو ہمارا الله مزاروں ، نعروں اور ختم نواؤں سے خوش ہوتا ہوگا ،اگر ہم نے نماز کسی دوسری طرح کے مسلک میں پڑھنا شروع کر دی تو ہمارا خدا محرم اور ذکر علي رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے خوش ہو جاتا ہوگا ، اگر ہمارا الله کسی اور فرقے کا ہوگا تو وہ باقی سب کو غلط کہنے ، مزارات ،ختم پڑھنے اور میلاد کو شرک کہنے پر راضی  ہوجاتا ہو گا.
کتنی عجیب اور دکھ کی بات ہےکہ ہمارا تعلیمی حتیٰ کہ مذہبی نظام بھی ہماری ذہنی استطاعت کو بہتر بنانے میں بری طرح ناکام رہا ہے ،ہمارے سب دینی اور دنیاوی علم دینے والے مل کربھی ہمارے دماغ کو اتنی وسعت نہیں دے سکے کہ ہم کسی سے کوئی بھی اچھی سوچ ، اچھی بات لیں اور اس بات کو پہلے سے ذہن میں موجود پست بات سے بدل سکیں ،جبکہ ہم یہ جانتے ہوں گے جو بات بتائی جارہی ہے وہ مستند بھی ہے اور مصدقہ بھی.۔
ہم کھڑے گندے پانی کی طرح اپنے عقائد اور فرقہ کا بلا تحقیق دفاع کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تو نظر آتے ہیں مگراپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹی نہیں اتارتے،جبکہ  دوسری طرف ہم لوگوں کے مذاہب و عقائد اور خدا کو بدلنے کے بلند و باگ دعویٰ  زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply