امی جان میں نے کبھی کیوں آ پ سے نہیں پوچھا؟۔۔۔۔ منصور مانی

گھر کے باہر تمبو لگ چُکا تھا، دریاں بچھائی جا چکیں تھی، لوگ یہاں وہاں ٹولیاں بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، میں کبھی گھر کے اندر آتا اور کبھی باہر نکل جاتا گھر میں کافور کی مہک اگر بتیوں کی خوشبو کے ساتھ مل کر فضا کو بوجھل بنا چکی تھیں، مجھے اپنی بہن کا انتظار تھا، امی جان ہر تھوڑی دیر بعد رونے لگ جاتی تھیں، میں باہر گلی کے نکڑپر کھڑا ہو گیا، باجی سامنے سے ہی چلی آ رہی تھی ، جامعہ کراچی میں پڑھتی تھیں آتے آتے سہہ پہر لگ جاتی تھی۔ گھر کے باہر کا ماحول ایک چیختا چلاتا اشتہار تھا، اس کے باجود میں باجی کے پاس بھاگ کر گیا اور انہیں بتایا، باجی دادی کا انتقال ہو گیا ہے۔!
گھر میں بڑے کمرے میں صوفے پر ابو جان نڈھال بیٹھے تھے، روئے روئے، میں نے سوچا کہ  سب رو رہے ہیں مجھے بھی رونا چاہے لیکن مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیسے روؤں ، کیا کروں ، ہماری دادی ہم سے بہت پیار کرتی تھیں ، تلو کے ڈبے میں سے اکثر ٹافیاں بھی نکال کر دیا کر دیتی تھیں،لیکن اس کے باجود مجھے رونا نہیں آ رہا تھا۔
میں بار بار ابو کے پاس جا رہا تھا، ابو کو میں نے دادی سے بہت کم بات کرتے ہوئے دیکھا تھا، میں نے ابو سے کہا ابو کیوں روئے جا رہے ہیں، ابو نے مجھے غصے سے دیکھا اور کہا، اگر تمہاری امی مر جائیں تو تم کیا کرو گے؟
کسی بڑے نے ابو کو ڈانٹا بچے سے کیسی بات کر رہے ہو؟
مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا، بان کی چارپائی پر جس کے پائے چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں بھرے ہوئے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، اوپر دادی سفید کفن میں ملبوس لیٹی تھیں،میں نے سوچا امی اس طرح لیٹی ہیں !
اُس کے بعد امی امی چلا کر میں اس طرح رویا کہ امی جان نے مجھے اپنے کلیجے سے لگا لیا۔
لوگ سمجھ رہے تھے کہ میں دادی کی وجہ سے رو رہا ہوں ، لیکن مجھے بہت خوف تھا کہ امی کہیں چلی نہ جائیں ، میں نے امی کو بہت مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔۔!

میں نے ایک ہاتھ سے امی جان کا ہاتھ پکڑ ا ہوا تھا اور دوسر ے ہاتھ میں خالی کپڑے کے تھیلے تھامے ہوئے تھے، ہم مال لینے جا رہے تھے ، جو امی دن رات بیٹھ کر سیا کرتی تھیں ، امی جان جہاں جہاں سے گزرتی تھیں لوگ انہیں جھک جھک کر سلام کرتے ، کیا چھوٹے کیا بڑے،(امی جان محلے کے بچے بچیوں کو مفت قرآن  پاک پڑھایا کرتی تھیں، یہ سلسلہ اُن کی وفات سے ایک دن قبل تک جاری تھا) امی نے میری جانب مسکرا کر دیکھا ،لیکن جواب نہیں دیا، میں نے امی سے کہا امی میں نے نونہال میں کہیں پڑھا تھا کہ جو بڑے آدمی ہوتے ہیں انہیں سب سلام کرتے ہیں، کیا آپ بڑے آدمی ہیں ؟
امی نے کہا ، آدمی بڑے ہو جاتے ہیں ، انسان چھوٹے رہ جاتے ہیں!
یہ لوگ مجھے نہیں اُس علم کو سلام کر رہے ہیں جو میں بانٹتی ہوں، بانٹ لینے میں ہمیشہ عزت اور محبت ملتی ہے!
مجھے خاک سمجھ نہیں آیا، میری نظر تو اب سلیم بھائی گولے گنڈے والے پر جم گئی تھی جو امی کو سلام کر رہے تھے اور میں امی سے کہہ رہا تھا امی گولا گنڈا کھانا ہے، امی نے خاموشی سے چار آنے میرے ہاتھ پر رکھ دیے میں بھاگ کر سلیم بھائی کے پاس گیا اور گولا گنڈہ بنوایا، سرکنڈے کی لکڑی میں پیوست ست رنگی برف کے گولے پر لال رنگ کی چاشنی اور اُس پر پسا ہو کھوپرا، میں مزے لے لے کر چوس رہا تھا۔۔۔!

امی جان دستر خوان پر میرے سامنے بیٹھی تھیں، میں اپنی پلیٹ میں سے چکن توڑ توڑ کر انہیں کھلا رہا تھا جسے وہ چوس رہی تھی، امی جان کے سامنےکے دو دانت جھڑ چُکے تھے، روٹی شوربے میں زیادہ تر بھگو کر کھاتی تھیں۔
امی جان کو کرسپی چکن اچھی لگتی تھی!
امی نے کبھی بتایا ہی نہیں۔۔۔۔
اور جب تک مجھے پتا چلا میں کچھ کرنے کے قابل ہوا ،
جب تک امی کے دانت ٹوٹ چُکے تھے ۔۔!

امی جان کو کتابیں پڑھنے کا بے پناہ شوق تھا بہت پڑھتی تھیں، بس یہ ہی معلوم تھا!
امی جان کو کون سا رنگ بھاتا تھا؟؟
امی جان کو بارش کیسی لگتی تھی؟
امی جان کو کیا کھانا پسند تھا؟
گھومنے پھرنے کی چاہ تھی؟
وہ کیا خواہش تھی جو پوری نہ ہو سکی؟
کبھی جانا ہی نہیں۔۔۔
امی جان کو تیار ہونا کیسا لگتا تھا؟
کبھی دیکھا ہی نہیں ماں کو تیار بس سادہ سے حلیے میں ہی دیکھا ہمیشہ!
امی جان کی اپنی کیا خواہشات تھیں کبھی سوچا ہی نہیں!
بس جو لے آئے امی نے خوش ہو کر پہن لیا۔۔ صبر سے کھا لیا!
امی جان سے کبھی کچھ پوچھا ہی نہیں۔۔

ہمیشہ بس اُن کو اپنی خواہشات کی ایک طویل فہرست سنائی۔۔!
ناشتے میں لچھے دار پراٹھے ہوں
یا پیسے بس اُن سے مانگے۔۔
کبھی انہیں اپنے لیے کچھ سوچتے ہوئے نہیں دیکھا۔۔

خواہش تھی امی جان کو اپنے ساتھ کہیں لے کر جاؤں، برف باری دکھاؤں کہ  کیسی ہوتی ہے ! برف میں کھیلنا کیسا ہوتا ہے ، پہاڑ اور سبزہ جب سامنے ہو تو کیسا لگتا ہے، انہیں اپنی بانہوں میں بھر کر چھوٹے چھوٹے ٹھنڈے بہتے ہوئے نالے پار کروں ، دریا کے سرد پانی میں اُن کے ساتھ پیر لٹکا کر بیٹھوں ، بان کی چار پائی پر اُن کے ساتھ لیٹ کر تاروں بھرے آسمان کو دیکھوں ۔۔
میں سوچتا تھا اور بس سوچ ہی رہ  گئی!

Advertisements
julia rana solicitors london

نصرت جہاں نے تو بس بھری جوانی میں ہی جوگ بھر لیا تھا پھر تو بس، ایک بیوی اور ایک ماں ہی رہ  گئی تھی،کبھی انہوں نے بتایا ہی نہیں کہ جو   چار آنے کا گولا گنڈا وہ مجھے دلایا کرتی تھیں انہیں بھی پسند تھا۔۔۔!
امی جان آپ نے کبھی کیوں نہیں بتایا کہ آپ کو نمکین پستے اچھے لگتے ہیں!
میری ماں آپ نے کبھی بھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ کو پی ٹی وی کا ڈرامہ شمع بہت پسند تھا!
آپ نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ آپ نے زندگی کا پہلا پان کب کھایا؟ میری پہلی سگریٹ کا مگر آپ کو یاد تھا!
آپ ترنم سے نعت پڑھتیں۔۔
میں نے مگر کبھی آپ سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا آپ کا دل چاہتا ہے گانے، غزلیں سننے کا؟
کلائی میں ہمیشہ کانچ کی چوڑیاں اور ناک میں فیروزہ!
کبھی معلوم ہی نہیں کیا آپ سے کہ  آپ کے وہ سونے کے کنگن کب اور کیسے بک گئے !
میری ماں ۔۔۔۔۔
تم نے مجھے بنا دیا میری ہر خواہش پوری کر دی !
والدہِ منصور بن گئیں !
سب کو یاد رکھا لیکن
نصرت جہاں کو پیچھے کہیں بھول گئیں!

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply