عزت والے کو ووٹ دو۔۔۔حسیب حیات

ہمارے نصیب ہفتے میں ایک آدھ بار کوئی آدھ پون گھنٹے کے لئے جاگا کرتے تھے۔ یہی قلیل سا وقت ہمیں آزادی ہزار نعمت ہے کا مفہوم بھی سمجھا جاتا تھا۔ ہم اپنے لنگوٹئے کی بانہوں میں باہیں ڈالے فوارے والی گراؤنڈ تک جانے کا سرکاری اجازت نامہ لئے پچھلی گلی کی سمت دڑکی لگا دیتے تھے۔ ۔آزاد ملک مگر گھر کے قانون میں قید ہم ننھےشہریوں کو ہدایات کا فارم بھرنا اور ان پر سختی سے کار بند رہنے کا بیان حلفی جمع کروانا اس عیاشی کی لازمی شرط ہوا کرتی تھی ۔ گراؤند کے پہلے حصے میں رہنا ہے گندے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلنا ۔ کپڑے گندے نہیں کرنے اور وقت پر سیدھا گھر واپس آنا یے۔۔ سدا سے دل کے ہم غلام بستے سے کاپی پنسل نکالنے میں جتنا ٹائم لیا کرتے اس سے آدھے وقت میں ہم گراؤنڈ پہنچ جایا کرتے تھے۔ ان دنوں اسے پارک نہیں کہا جاتا تھا۔ شائد نام دینے کی نیت کئے ایک فوارہ اس گراؤنڈ کے عین وسط میں بنا دیا گیا تھا۔ فوارے سے چاروں سمت نکلتے واکنگ پاتھ میدان کو چار برابر حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ اس دور میں اس واکنگ پاتھ کو پٹڑی کا نام دیا جاتا تھا۔ عوام کو واک کی سہولت سے زیادہ اس پٹڑی پر دن بھر شعیب اختر نما ایکسپریس ٹرینیں ملک کے لئے بہترین بلے بازوں کی تلاش میں دوڑ بھاگ کیا کرتی تھیں ۔
اس ٹھنڈی سہ پہر بھی ہم اپنی قسمت پر نازاں اپنے لنگوٹئے کو ساتھ لئے گراؤنڈ تک پہنچے تھے ۔دور سے ہی ہمیں فوارے کے پاس بہت سے لوگ جمع نظر ائے۔ ہمیں لگا شائد کوئی تماشہ لگا ہوا ہے۔ تماش بینی کے شوق میں ہم نے بھی فوارے کی سمت دوڑ لگا دی ۔ ہم نے وہاں ایک انکل کے گرد مجنع لگے دیکھا وہ انکل بولے چلے جارہے تھے اور مجمع ان کی باتوں پر ہنسے جاتا اور تالیاں بجائے چلے جا رہا تھا۔ ۔ ہم نے دیکھا کہ وہ انکل نان اسٹاپ بولے جارہے تھے اور وہ بہت گندی گندی باتیں کئے جارہے تھے۔ اس قسم کی گندی باتیں ہم نے اس سے پہلے ایک موٹے سے انکل کو نشاط سینیما کے سامنے دودھ دہی کی دکان پر کہتے سنا تھا۔ ان موٹے انکل کے ساتھ تو مسئلہ یہ ہوا کہ ان کی لسی میں چینی کم تھی جس پر انہیں غصہ آگیا تھا ۔ مگر یہاں فوارے والی گراؤنڈ میں وہی گالیاں اور گندی زبان اور اس پر سب لوگوں کا ہنسنا بہت عجیب سا لگا ۔ ہم نے تو الٹے پاؤں گھر کو دوڑ لگائی۔
وقت گزرتا گیا ہم میٹرک پاس کر گئے ۔ میٹرک کی چھٹیوں لمبی چھٹیوں کے دوران ہم نے انہی فوارے والے انکل کو ایک بار پھر دیکھا ۔ وہی انداز وہی زبان اور انداز گفتگو۔ وہ بالکل نا بدلے تھے مگر ہم بدل چکے تھے اب ہمیں اس طرز کی بدکلامی ایسی بری بھی نا لگتی تھی مگر باقی لوگوں کی طرح ہنسی نا آتی تھی ۔ اب ہم یہ بات اچھی طرح جان چکے تھے کہ یہ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں
یونہی وقت گزرتا گیا سال انیس سو چھیانوے آگیا ۔ ہم نے ایک کارنر میٹنگ اٹینڈ کی ۔ یہاں بھی وہی فوارے والے انکل ہی مہمان خصوصی تھے ان کی تقریر پر خوب تالیاں بجائی جارہی تھیں مگر وہ تالیاں کانوں میں ہتھوڑے کی طرح لگتی تھیں۔ ہم تالی نا بچا پارہے تھے بجاتے بھی کیسے من من کے بھاری ہوئے ہاتھ ہلنے کے ہی نا رہے۔ اس روز ہمیں احساس ہوا کہ یہ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں بلکہ محتاجی تو ہمارے لئے لکھی گئی ہے اپنے نام سے خود کا تعارف کروانے کی محتاجی۔ وہ کارنر میٹنگ فیصل آباد کی کسی کچی بستی کے مزدوروں کی نہیں تھی بلکہ یہ ایوب ایگر ی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالونی تھی ان صاحب کے لئے بڑھ چڑھ کر تالیاں بجانے والے ملک کے صف اول ایگری سائنس دان تھے۔ جو ان صاحب سے الیکشن میں فوارے والے انکل کے حامی تھے اور الیکشن جیت جانے کی صورت ایک ایگری کالونی کی منظور ی اور اس میں پلاٹوں کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
ہم مڈل کلاسیوں کی نفسیات بھی عجیب ہوتی ہے گھر میں اخلاقیات کی پٹی پڑھاتے نہیں تھکتے ہیں مگر حقیقت میں سنی سنائی کہانیاں بس ایک پلاٹ کی مار ہوتی ہیں ۔۔ فوج سے لیکر سائنس دانوں تک اس ملک میں سب کا ایک سا ہی حال ہے۔ ہر کسی کو اپنے حصے کے کیک سے غرض ہے ۔ فرق صرف منہ کے چھوٹے اور بڑے ہونے کا ہے۔
ابھی چند دن پہلے فیصل آباد کے ایک ایم این اے کو مجمع میں غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھا تو اپنے بچپن سے جڑا تجربہ اسی ربط میں یاد آگیا۔ سوچتا ہوں ہم بچے تھے اور اب بچوں والے ہوگئے مگر اتنے سالوں میں گھڑی کو دئیے چکر وں کے علاوہ آخر کچھ بدلا بھی ہے کے نہیں ؟؟ باپ کی جگہ اب بیٹا وہی غلاظت بھری زبان چلا رہا ہے۔ تالیاں بجانے اور قہقہے لگانے والے وہی ہیں اور وہیں کے وہیں ہیں۔
ہمیں تو اعتراض کا حق بھی نہیں ہے کیونکہ عزت ووٹ کو دینی سب پر لازم ہے۔ ہم ” ووٹ کو عزت دو ” کے نعرے کی دل سے قدر کرتے ہیں مگر اس سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اپنے دل کی خواہش کا اظہار کرنے کی اجازت بھی چاہتے ہیں ۔ کاش کوئی سیانہ ووٹ کو عزت دو کے ساتھ ساتھ عزت والے کو ووٹ دو کا نعرہ بھی لگا دے

Facebook Comments

حسیب حیات
ایک پرائیویٹ بنک میں ملازم ہوں اسلام آباد میں رہائش رکھے ہوئے ہوں اور قلم اُٹھانے پر شوق کھینچ لاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply