دیس دلبر کو دور نہیں کر رہا /محمد داؤد خان

اس وقت دیس میں وہ سورج طلوع نہیں جس سورج سے ماؤں کی دید انتظار کی اذیت سے گزرتی ہے،سکھیاں معصوم بچوں کو جھوٹے و عدوں سے بہلاتی ہیں اور سسیاں درد بھرا سفر کرتی ہیں۔جس سورج میں سب دِکھتا ہے پر درد چُھپ جاتے ہیں۔جس سورج میں بارشی قطرے تو نظر آتے ہیں پر آنکھوں سے بہتے آنسو نہیں ۔جو سورج اوس کے قطرے خشک کر دیتا  ہے۔پر سسیوں کی پلکوں پر ٹھہرے درد سے قطرے خشک نہیں ہو تے۔جو سورج،سورج دیوتا ہے پر اندھا۔

جس کی دنیا بھر میں سورج نمسکار کی جاتی ہے۔پر جب اس دیس پر طلوع ہوتا ہے تو شرم سے آنکھیں نہیں اُٹھا سکتا ،کیوں؟کیوں کہ یہ سورج بھی اتنا ہی مجرم اور قصور وار ہے جتنا قصور ان بندوقوں اور سرداروں کا ہے جن بندوقوں اور سرداروں نے ماؤں کی نیندوں کو غارت کیا۔ان کے نصیب میں رتجگے دیئے اور سسیوں کو مسافر بنا یا۔اس سورج کو تو چاہیے تھا کہ جب مائیں اور بیٹیاں سفر میں تھیں تو وہ کہیں بادلوں میں چھپ جاتا،درد میں برستا،یا تو برستے بادلوں کا ساتھ دیتا۔پر یہ وہ (ڈونگر)پتھر نہیں تھا جب سسی اپنے پنہوں کی تلاش میں تھی اور پہاڑوں کے بیچ سے گزری تو پہاڑوں کے بیچ میں ٹھہرے پتھروں نے سسی سے پوچھا تھا ”ہم تمہارے ساتھ چل تو نہیں سکتے بتا ہم تمہا رے لیے کیا کریں؟ “
تو سسی نے ان ٹھہرے پتھروں سے کہا تھا کہ
”ڈونگر مون سین روءِ کڈھی پار پنہوں جا!“
(اے پتھرو!میرے ساتھ میرے پنہوں کے لیے اشک بار تو ہو! )

وہ ایک پنہوں تھا۔وہ ایک سسی تھی۔یہاں سیکڑوں سسیاں ہیں اور سیکڑوں پنہوں
سورج کو شرمسار ہونا چاہیے تھا پر وہ نہیں ہوا
سورج کو درد سے اندھا ہو جانا چاہیے تھا پر وہ نہیں ہوا
پر آج بلوچ دھرتی پر سورج شرمسار ہے۔وہ اپنے  درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ سورج نے سیاہ بادلوں کی چادر اُوڑ ھ لی ہے۔وہ پہاڑوں سے گر کر زخمی ہو رہا ہے۔وہ پسنی کے ساحل پر خود کشی کر رہا ہے۔وہ گوادر کے ساحل پر ماتم کرتا دیکھا گیا ہے۔وہ درد سے ڈوب رہا ہے۔وہ شرم سے پانی پانی ہے۔سورج اپنا سر کبھی پہاڑوں سے ٹکرا رہا ہے۔کبھی نمکین پانی میں غوطے لگا رہا ہے۔کبھی وہ گوادر کے نمکین اداس ساحل پر ماتم کر رہا ہے
کیوں کہ اک قلندر نے سورج کو مات دے دی ہے۔اس وقت بلوچستان کے ساحلوں سے لیکر پہاڑوں کی اُوٹ تک ،ایوانوں کی مسندوں سے لیکر اخباری سرخیوں تک، ایک ہی سورج طلوع ہے اور اس کا نام ہے مبارک قاضی!

مبارک قاضی نے آکاش پر طلوع ہو تے سورج کو بہت پہلے تو اپنے قلم سے کچلا تھا، پر اب اپنے پیروں سے مسلا ہے۔قلندر جیت گیا سورج ہار گیا۔اب بلوچستان میں سورج نمسکار نہیں ہو رہا ،پر قاضی کے گیت گائے جا رہے ہیں۔
درد کے ساتھ
محبت کے ساتھ!

آج پو رے دیس میں اک سورج غروب ہوا،اور اک سورج طلوع ہوا۔
آگ کے گولے نما   سورج کوپہاڑوں سے گرتا دیکھا گیا
اور محبت کا میٹھا سورج پسنی کے ساحل سے طلوع ہوتا دیکھا گیا
آج آکاش کا سورج شرم سار ہے
اور دھرتی کا سورج،محبت کی مسکراہٹ بن کر آکاش پر چمک رہا ہے
آج دیس پر بھونکتی بندوقیں ہار گئیں
اور وہ قلم جیت گیا جس قلم سے سب سے پہلے مبارک قاضی نے نام لکھا تھا
”کمبر قاضی!

وہ سورج اور بندوق ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئے جو دہشت کی علامت تھے،اور وہ قلم عِلم  بن کر لہرا رہا ہے جس قلم نے مبارک قاضی کے دیس کے درد کی رفو گیری کی!
اس قلم پر محبت،جدو جہد اور مزاحمت کا عِلم چڑھا دو
اس قلم کو ایسے اشکوں سے پاک کرو
جیسے یسوع کے پیر وہ پاک بیبیاں اپنے سیاہ بالوں اور آنسوؤں سے کیا کرتی تھیں

قاضی بھی تو بلوچ دھرتی کا یسوع تھا
جو درد کے ساتھ مصلوب رہا
قاضی کو کس نے مصلوب کیا؟
درد اور قلم نے!

آج اس قلم کو صلیب بنا کر گلے میں لٹکا دو
حسین،گورے پستانوں کے بیچ!اس کے علاوہ اور اس صلیب کی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟
بہت سے آنسوؤں کے ساتھ
حسینی علم کے ساتھ
قاضی اس دیس پر قلندر بن کر چلتا رہا
اکیلے مسافروں کی طرح
مزاروں پر غٹرو غوں ،غٹر غوں کرتے کبوتروں کی طرح
پر وہ دیس کو جانتا تھا
اور دیس اسے جانتا تھا
جس جس نے دیس سے محبت کی ہے
دیس نے اسے سینے سے لگایا ہے
جس کے لیے استاد بخاری نے لکھا تھا کہ
”ھُئن تہ مٹی جی چپٹی آھیان
جئے دیس تہ پوءِ دھرتی آھیان!“

بلوچ دھرتی جانتی تھی وہ قلندر با کمال شخص ہے
وگرنہ کون اپنے با کمال بیٹے کو گولیوں کے بیچ بھیجتا ہے؟
اور قلم ہاتھ میں لکھ کر اس کا سہرہ لکھتا ہے
پر قاضی نے ایسا کیا
ڈنکے کی چوٹ پر کیا
ہم سمجھے،تم سمجھے وہ سمجھے،یہ سمجھے
کہ اب وہ بیٹے کا نوحہ لکھے گا
پر دھرتی جانتی تھی وہ اپنے شہید بیٹے کا سہرہ لکھے گا
ایسا سہرہ جیسا سہرہ مائیں اپنے دولہا بیٹے کا لکھتی ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دیس کے بے شرم لوگوں،بے شعور لوگوں میں تو شعور ہی نہیں۔یہ تو دیس کی محبت اور بلوچ دھرتی نے اپنے قلندر جیسے عاشق کو پو رے دیس کے آکاش پر ایسے چمکا دیا ہے جیسے سورج چمکتا ہے
مشرق سے مغرب،جنوب سے شمال،پر ہمارا شاعر تو بس کیا دھرتی،کیا آکاش ،دِلوں    میں بھی چمک رہا ہے۔
وگرنہ ہم تو جانتے ہیں کہ
پیمبروں کو اپنی قوم،اپنے دیس سے،دیس نکالا  دیتی ہے اور شاعروں کو قتل کر دیتی ہے
ہم نے بھی اپنے شاعر کو زمانہ پہلے قتل کیا تھا
یہ تو دیس ہے
جو دلبر کو دور نہیں کر رہا
نا تمام!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply