پروزیم کا ٹیکہ۔۔۔سید عواد

عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد بچ جانے والے چند اہم لوگ لبریا میں مطلق العنان حکومت اور فاشسٹ نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ریاست کے سربراہ کو ”فادر“کہا جانے لگا اورفادر کے نظریات اور احکامات کو ریاست کی کامیابی کے لئے ضروری قرار دے دیا گیا۔ لبریا نے جلد ہی ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دئیے ۔ فادر کے نظریات کو عام کرنے کے لئے شہر کے اہم حصوں اور تمام شاہراہوں پر بڑی بڑی سکرینیں نصب کر دی گئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دریں اثناء،فادر کے احکامات پر من و عن عملدرآمد اورعوامی تحریکوں اور احتجاج کو مستقل طور پر روکنے کے لئے ایک بہت بڑے پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت یہ طے پایا کہ عوام اور ان کے جذبات و احساسات کوہمیشہ کے لئے قابو میں کیا جائے تاکہ نظام کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کر سکے اور ہر فرد بلا سوچے سمجھے اورکچھ محسوس کئے بغیرریاستی ہدایات کے مطابق زندگی جئے۔اس پروگرام کا مقصد انسانوں میں ذہنی و نظریاتی طور پر یکسانیت پیدا کرناتھا تاکہ آئندہ کوئی بھی اختلاف ،لڑائی یا جنگ جنم نہ لے سکے اور تمام لوگ ایک منظر کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھیں۔ لہٰذااتھارٹیز کی جانب سے کتابوں، مصوری، فنون لطیفہ سمیت ہر اس چیز اور شعبہ پر پابندی عائد کر دی گئی جن سے انسانوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ،شعوراور جذبات و احساسات پیدا ہوتے تھے۔
انسان کے لئے اپنے جذبات اور احساسات کو دبا نا یا دفن کرنا فطری طور پرناممکن ہے چنانچہ عوام کی’ آسانی ‘کے لئے انہیں باقاعدگی سے پروزیم کے انجکشن فراہم کئے جانے لگے۔ فادر کے حکم پرقانون بنا دیاگیا کہ تمام شہری بشمول جوا ن، بچے، بوڑھے وخواتین روزانہ خود کو پروزیم کا انجکشن لگائیں گے۔ اس انجکشن کی خوبی یہ تھی کہ اس کو لگانے کے بعد انسان کی سوچنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیتیں ختم ہو جاتی تھیں۔ قانون کے مطابق انجکشن نہ لگانے اور کسی بھی معاملے، چیزیا عمل سے متعلق اپنے حقیقی احساسات کا اظہار کرنے والے شہری کو سزائے موت دی جاتی۔ اگر کسی شخص کے قبضہ سے کتاب، لٹریچر، پینٹنگ وغیرہ برآمد ہو جاتی تو اسے سینس اوفینڈر قرار دے کرموت کی سزا سنا دی جاتی تھی۔
اس قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے ایک خصوصی ٹاسک فورس بنائی گئی۔ یہ ٹاسک فورس سینس اوفینڈرز پر مشتمل ‘انڈر گراﺅنڈ’ تحریک کے خلاف آئے روز چھاپے مارتی اورانہیں موقع پر موت کی سزا دی جاتی۔ جان پریسٹن نامی شخص کو اس فورس میں ایک لیڈر کی حیثیت حاصل تھی۔ مارشل آرٹس میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا اور یہ اپنے مقابل درجنوں افراد کو چند لمحات میں زیر کر دیتا تھا۔ یہ دیگر افراد کی طرح روزانہ خود کو انجکشن لگاتا اور فرائض کی ادائیگی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتا۔ احساسات رکھنے والے غداروں یعنی سینس اوفینڈرز کو جان سے مار دینااس کا کام تھا۔اس نے اپنے پارٹنر کو ڈبلیو بی ییٹس کی نظموں کی کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا تواسے جان سے مار دیا۔ یہ ریاست اور فادر کا اس قدر وفادار سپاہی تھا کہ جب قانون کی خلاف ورزی پر اس کی بیوی کو اس کے اور اسکے بچوں کے سامنے سزائے موت دی گئی تو اسے تب بھی کوئی دکھ یا افسوس محسوس نہیں ہوا۔
تاہم ایک روز جان پریسٹن کے پاس موجود انجکشن گر کرٹوٹ گیا اور وہ خود کو انجکشن نہ لگا سکا۔ اس نے اس بارے میں اپنے کسی بھی ساتھی کو نہ بتایا۔ انجکشن نہ لگانے کی وجہ سے اس کے احساسات زندہ ہونے لگے۔ وہ انسانی جذبات اور انسانوں کے آپس میں تعلق کو محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ اپنے بچوں سے پیار اور جانوروں سے محبت، قدرتی نظاروں میں موجود حسن ،دلفریبی اوررنگ و بوکو محسوس کرنے لگا۔ اسے مسکراہٹ اور آنسوﺅں کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ وہ جان چکا تھا کہ لبریا کے لوگ جبر کے نظام میں زندہ لاشیں بن کر گھوم رہے ہیں۔ اس نے تہیہ کر لیا تھاکہ اب وہ کسی بھی انسان کو گزند نہیں پہنچائے گا اورلبریا کے لوگوں کو ظلم کے اس نظام سے نجات دلائے گا۔
جان پریسٹن نے خود کو انجکشن لگانا چھوڑ دیا تھا۔اس کی بدلی ہوئی حالت کو اس کے ساتھیوں نےبھانپ لیا اور بات فادر تک پہنچ گئی۔ تب تک وہ مکمل طور پر انڈر گراﺅنڈ تحریک کا حصہ بن چکا تھا۔اس تحریک میں کوئی بھی اس قابل نہیں تھا جو ایک ڈکٹیٹر اور اس کی انتہائی تربیت یافتہ فورس سے ٹکر لے۔ جان پریسٹن نے یہ ذمہ داری خود اٹھائی۔ قسمت کہیں یا لہو میں دوڑتا آزادی کا احساس، جان پریسٹن نے تن تنہا تمام رکاوٹو ں کا مقابلہ کیا اور فادر اور اس کے نظریے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شکست دے دی۔ گلی کوچوں میں نصب سکرینیں خاموش اور تاریک ہوچکی تھیں ۔جان پریسٹن کی وجہ سے لبریا کے لوگوں کوجبر کے نظام سے آزادی مل چکی تھی۔
یہ واقعہ تاریخ کی کسی کتاب میں موجود نہیں کیونکہ یہ واقعہ حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ ہالی ووڈ کی سائنس فکشن فلم’ایکویلیبریم‘ کی کہانی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں ڈیووس میں چند لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ اخبارات پڑھنا اور ٹی وی ٹاک شوز دیکھنا چھوڑ دیں ،سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس فلم کی کہانی پڑھنے کے بعد عمران خان کی اس بات اور اس کے پیچھے چھپے نظریے کی تشریح کرنا بالکل بھی ضروری نہیں ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply