کونڈوں کی شرعی حیثیت— سید جواد حسین رضوی

س) کیا کونڈے جائز ہیں؟ اور اس میں جو لکڑہارے کی کہانی بیان ہوتی ہے، کیا وہ درست ہے؟

ج) اس سوال کی کئی جہات ہیں، مؤمنین بلکہ مسلمین بلکہ کسی بھی انسان کو کھانا کھلانا یا اطعام کرنا یا دعوت کرنا باعث ثواب ہے۔ اگر اس رسم کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ باعث ثواب ہے۔

اس سوال کی دوسری جہت یہ ہے کہ کیا رجب کے مہینے میں ہی اس کو منانے کی کوئی شرعی دلیل ملتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں کوئی شرعی دلیل نہیں ملتی کہ 22 رجب کو فلاں کیفیت کے ساتھ دعوتیں کی جائیں۔ ہاں اگر مومنین کو اطعام کی نیّت سے کیا جائے تو کسی بھی دن خوب رہے گا، لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ 22 رجب کو ہی اس خاص کیفیت سے کونڈے کرنے کا کوئی حکم معصوم کی طرف سے صادر ہوا ہے۔ اور جو روایت اس حوالے سے امام صادق(ع) سے منسوب ہے اور اسی قصّے کہانیوں کے کتابچوں میں مرقوم ہوتی ہے اس کا ذکر ہمارے معتبر منابع میں بالکل بھی نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس رسم کی اختراع ہوئی تو خودبخود یہ روایات بھی گڑھ لی گئیں۔

شاید آپ میں بہت سوں کے لئے یہ بات نئی ہو، یہ کونڈے برّصغیر کی رسم ہے، اس کی شروعات بیسویں صدی کے اوائل یا انیسویں صدی کے اواخر میں اتر پردیش سے ہوئی۔ وہاں سے پھر یہ پنجاب و سندھ وغیرہ بھی پہنچی۔ اسی لئے برّصغیر کے دیگر علاقوں جیسے مقبوضہ جمّوں و کشمیر، لداخ و بلتستان، گلگت و پاراچنار وغیرہ میں ایسی کوئی رسم نہیں ہے۔

برّصغیر سے باہر ایران و عراق، افغانستان، ترکی، لبنان، بحرین، شام و آذربائجان میں اس کا تصوّر بھی محال ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ مشہور کہانی جو کونڈوں کے موقعے پر پڑھی جاتی ہے خالص ہندوستانی اختراع ہے۔

ایک اور چیز جو قابل غور ہے، اس نیاز کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ اس کو گھر سے باہر نہیں جانا چاھئے۔ یہ عقیدہ بھی بے بنیاد ہے، کوئی بھی نیاز ہو یا اطعام ہو، اس کے گھر سے باہر لے جانے میں ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ غرباء کو کھلایا جائے، اس سے بڑھ کر بہتر بات کیا ہوگی؟ آئمہ ع کی سنت و سیرت بھی ہے اور حکم قرآنی کے عین مطابق بھی ہے۔

اس سوال کی تیسری جہت ہے کہ آیا اس دن کے کونڈوں کا امیر شام کی وفات سے کوئی تعلق ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ مشاہیر اہلسنت کے نزدیک امیر شام کی وفات 22 رجب کو نہیں ہوئی تھی، بلکہ رجب کے دیگر ایام بتائے جاتے ہیں۔ خود وہ لوگ جو کونڈوں کی نیاز کرتے ہیں ان کے دماغ کے نہاں خانوں میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ اس دن امیر شام کی وفات ہے۔ بلکہ وہ مطلق نیاز کی تاکید کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، اور جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا کہ اس دن کونڈوں کے نیاز کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، اور نہ اس کا حکم ہماری معتبر کتب میں وارد ہوا ہے۔

یہاں اس سوال کے چوتھے جہت پر کلام کریں گے، اور وہ ہے لکڑہارے کی مشہور کہانی جو کونڈوں کے مواقع پر پڑھی جاتی ہے۔ یہ کہانی کافی لمبی چوڑی ہے جس کا ذکر طوالت کا باعث بنے گا، مختصر یہ کہ کسی لکڑہارے کے گھر پر فاقے ہو رہے تھے تو امام صادق(ع) نے ان کو خاص کیفیت میں پوڑیاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر کھلانے کا کہا۔ اس لکڑہارے نے ایسا کیا تو اس کی قسمت جاگی خزانہ ملا۔ اس کی بیوی پہلے کسی وزیر کے گھر پر خادمہ تھی، جب اس کی قسمت جاگی تو وزیر کی بیوی کو ان کونڈوں کے اسرار کا پتہ چلا لیکن اس نے ماننے سے انکار کیا۔ اس انکار کی اس کو سخت سزا ملی، وزیر کو اپنی وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ بادشاہ کا بیٹا غائب ہوا تو دشمنوں نے افواہ اڑائی کہ کہیں اس وزیر نے تو بیٹے کو ہلاک نہیں کیا۔ وزیر کی بیوی خربوزہ یا تربوز خرید رہی تھی ان کو پکڑ لیا گیا، بادشاہ نے اس کے ہاتھ میں رومال دیکھ کر کہا کہ اس میں کیا ہے تو وزیر نے کہا خربوزہ ہے لیکن کھول کر دیکھا گیا تو بادشاہ کے بیٹے کا سر نکلا۔ ان کو قتل کرنے کی سزا ہوئی، جب میاں بیوی بیٹھے تو انہوں نے سوچا کہ آخر ان سے کیا غلطی ہوئی ہے، تو بیوی نے بتایا کہ اس نے کونڈوں کا انکار کیا تھا، اس پر دونوں توبۂ نصوح کرتے ہیں اور کونڈوں کی منّت مانتے ہیں۔ جب بادشاہ نے دوبارہ بلایا اور رومال کھولا تو بیٹے کا سر نہیں تھا بلکہ وہ خربوزہ ہی تھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر سٹپٹا گیا تو وزیر نے کونڈوں کی کرامتیں سنائیں تو بادشاہ ششدر رہ گیا (ہم نے کہانی مختصر طور پر نقل کفر کفر نباشد کے مصداق لکھی ہے)۔

ہم نے یہ کہانی بہت مختصر کر کے سنائی ہے، اس پوری کہانی کو پڑھنے کے بعد اس بناوٹی کہانی پر لب کشائی کے لئے بھی الفاظ نہیں۔ واضح ہے کہ یہ کہانی یوپی کے کسی بانکے نے بنائی ہے، کیونکہ امام جعفر صادق(ع) کے دور میں بادشاہت میں وزارت کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ امویوں کے دورخلافت میں وزیر اعظم کا کوئی عہدہ نہیں ملتا، امام(ع) کا آخری دور عباسیوں کے عروج حاصل کرنے کا زمانہ تھا۔ اس میں بھی اس منصب کا کوئی وجود نہیں ملتا، بعد میں جب عباسی حکومت مستحکم ہوئی تو اس منصب کو بنایا گيا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدینہ میں کسی قسم کی بادشاہت تھی ہی نہیں، بادشاہ کا دارالحکومت اموی دور میں دمشق تھا اور عباسیوں نے بغداد کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ لہذا اس کہانی پر کچھ کہنا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے۔

گو کہ واقعہ مختلف کتب میں مرقوم ہے، اور اس کی جدید صورت میں کئی قابل اشکال باتوں کو حذف بھی کیا گيا ہے، جیسے اب اس کہانی میں خود امام جعفر صادق(ع) لکڑہارے کو کونڈوں کا نہیں کہتے بلکہ ان کے خواب میں آ کر کہتے ہیں۔ لیکن جس طرح سے اس واقعے کو بیان کیا جائے، اس کی بناوٹ ایسی ہے کہ اس کا بناوٹی ہونا آشکار ہو جاتا ہے۔

اب یہ تو واضح ہے کہ یہ کہانی معصوم(ع) سے کسی طور منسوب نہیں، تو اس کہانی کا پڑھنا کیسا ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ جب کسی واقعے کا جعلی ہونا ثابت ہو جائے تو اس کو نقل کرنا معصومین(ع) پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ اگر بالفرض جعلی ہونا واضح نہ ہوتا تب بھی اس کا کسی مستند کتاب میں موجود نہ ہونا ہی اس کہانی کو پڑھنے کے عدم جواز کے لئے کافی تھا۔

نتیجہ گیری:

Advertisements
julia rana solicitors

اوپر پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بذات خود کونڈے کھلانے اور اطعام مسلمین میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ باعث ثواب ہے، لیکن اس دن جعلی کہانی پڑھ کر معصومین ع پر جھوٹ نہ باندھا جائے۔ اگر کونڈے دلانا مقصود ہو تو فقط اس نیّت سے کھلائیں کہ اللہ کی رضا کے لئے مومنین کو دعوت دے رہے ہیں، اور جعلی کہانی کے بجائے کوئی معتبر دعا پڑھ لیں یا سورہ یٰس وغیرہ کی تلاوت کر لیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply