ووٹ کو عزت کون دے گا؟۔۔۔نجم ولی خان

کیا ووٹ کو عزت دینا صرف غیر سیاسی حلقوں اور طبقوں کا کام ہے، بریگیڈئیر صاحب نے مجھ سے پوچھا، کیا اس حوالے سے سیاستدانوں پر صرف یہ ذمہ داری ہے کہ جب وہ اقتدار سے محروم ہوجائیں تو ووٹ کی عزت لُٹ جانے کا شور مچانا شروع کر دیں مگر جب اقتدارمیں ہوں تو اسی ووٹ کو گھر کی لونڈی برابر بھی نہ سمجھیں۔

کیا آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی نے اس وقت ووٹ کی عزت کی تھی جب وہ نااہلی اور بدعنوانی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی تھی۔ لوڈ شیڈنگ عروج پر پہنچ چکی تھی، ملک بھر کے کارخانے اور کاروبار توانائی کے بحران کی وجہ سے بند ہورہے تھے۔

ووٹ کی سب سے بڑی توہین یہ ہے کہ ووٹروں کے مسائل حل نہ ہوں۔ قوم کی اپنے بہتر مستقبل بارے امیدیں دم توڑنے لگیں۔ کیا اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کو کام کرنے سے روکتی ہے؟

میں بریگیڈئیر صاحب کا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ صاحب دل ہیں، صاحب نظر ہیں، صاحب مطالعہ ہیں۔ وہ جب سے ریٹائرہوئے ہیں انہوں نے علم کی ترویج کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔

میں انہیں دیکھتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ میرے ملک میں ریٹائرمنٹ کی عمر زیادہ ہونی چاہئے کہ جس عمر میں آپ اپنے تجربے کی انتہا پر پہنچتے ہیں، آپ کو تمام ذمہ داریوں سے فارغ کر کے گھر بٹھا دیا جاتاہے۔

ایسے میں جو لوگ معاشرے میں کسی بہتری کے لئے کردارادا کرنا شروع کرتے ہیں وہ میری نظر میں ایک مثال بن جاتے ہیں۔مجھے ان کی باتوں سے کوئی خاص اختلاف نہیں تھا لہذا میں سر ہلائے جا رہا تھا مگر آخری فقرے نے میری چُپ توڑ دی۔

میں نے اختلاف کیا، میرا کہنا تھا کہ سیاسی حکومتوں کو اس آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا جو ہماری آمریتوں کو حاصل رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کو صرف یہ اعتماد دے دیا جائے کہ وہ اپنا پانچ سالہ دور پورا کریں گی اوراس کے بعد عوام کو ان کے احتساب کا حق حاصل ہو گا تو ان کی کارکردگی کہیں زیادہ بہتر ہوجائے گی۔ جب سیاستدانوں کو ہم محلاتی سازشوں میں پھنسا دیتے ہیں، وہ اپنے وجود اور بقا کی لڑائی لڑنے لگتے ہیں تو پھر ان کے پاس عوامی فلاح کے لئے نہ فرصت رہتی ہے اور نہ ہی دماغ۔

میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی کا مقدمہ نہیں لڑتا مگر پیپلزپارٹی کا ووٹر مانتا ہے کہ افتخار چودھری نے یوسف رضا گیلانی کی حکومت نہیں چلنے دی اور اب اسی قسم کی صورتحال کامسلم لیگ نون کی حکومت کو بھی سامنا ہے۔

بریگیڈئیر صاحب مسکرائے اور بولے، ووٹ کو عزت دینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ سیاستدان اپنے اس ادارے کو بھی عزت دیں جو انہیں طاقت اور اقتدار بخشتا ہے۔دنیا بھر کی جمہوریتوں کی تاریخ کا مطالعہ کرو، تمہیں علم ہو گا کہ سیاسی اور جمہوری اداروں کو اپنی جگہ خود بنانی پڑی ہے۔

مجھے یہ بتاو کہ جب ایک عدالت آئینی ترمیم کو معطل اور منسوخ کر رہی تھی تو اس وقت پارلیمنٹ نے اپنے اوپر اس عدالتی اختیار کو تسلیم کیوں کیا تھا۔

دنیا کا یہ اصول ہے کہ یہاں کبھی خلا نہیں رہتاجب آپ اپنی جگہ اور اختیارات چھوڑیں گے تو اسے دوسرے لے لیں گے ، چلیں، مان لیتے ہیں کہ مقتدر حلقے سیاستدانوں کو انگیج رکھتے ہیں مگر کیا یہاں ان کی ذمہ داریاں زیادہ نہیں بڑھ جاتیں، میں پھر دنیا بھر کی ریاستوں کی جمہوری تاریخ کا حوالہ دوں گا کہ اگر کسی جگہ سیاستدانوں کو اختیارات پلیٹ میں رکھ کر پیش کئے گئے ہوں تو اس کا حوالہ دو۔بہت ساری ریاستوں میں جمہوریت کی تاریخ خون سے لکھی گئی ہے اور اگر پاکستان میں سیاستدانوں کو اس صورتحال کا سامنا ہے تو اس میں حیران کردینے والی کوئی نئی بات نہیں۔

بریگیڈئیر صاحب نے پوچھا،میاں نواز شریف اس وقت جگہ ، جگہ جلسے کر کے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہے ہیں مگر کیا انہوں نے خود ووٹ کو عزت دی۔ علم سیاسیات کہتا ہے کہ جمہوری نظام میں حکمرانوں کے احتساب کا ذریعہ پارلیمنٹ ہے۔ یہ سوال میرانہیں بلکہ آصف علی زرداری کا ہے اور وہ پوچھ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف پانچ برسوں میں کتنی مرتبہ پارلیمنٹ میں گئے، انہوں نے کتنی مرتبہ وقفہ سوالات میں اپوزیشن کا سامنا کیا، کیا یہ بات درست نہیں کہ وہ منتخب بیوروکریٹوں اور مشیروں میں گھرے رہے، قومی اسمبلی تو ایک طرف رہی یہاں ملک کی ارکان کی تعداد کے حوالے سے سب سے بڑے جمہوری ادارے، پنجاب اسمبلی، میں وہ قواعد ہی تبدیل کر دئیے گئے جن میں اجلاس کے دوران صرف ایک یا دو دن وزیراعلیٰ کو ارکان کے توجہ دلاو نوٹسز کے جواب دینا ہوتے تھے۔ میاں شہباز شریف کی محنت اور کارکردگی کا فوج میں بھی اعتراف کیا جاتا ہے مگر کیا ان کا حلقہ انتخاب فوج ہے یا ان کو ان کی اس اسمبلی نے وزیراعلیٰ منتخب کیا تھا جس میں جانا ان کو کبھی زیادہ پسند نہیں رہا۔میں پھر بولا، پوچھا، پاکستان میں کون پرفیکٹ ہے، کون غلطیاں نہیں کرتا، وہ پھر مسکرائے اوربولے، سیاستدانوں کے علاوہ باقی تمام طبقے اپنے اپنے مفادات اور احترام کے لئے متحد ہوتے ہیں ، وہ اپنے اندر میرٹ کا ایک نظام لاتے ہیں اور پھر اس کی پاسداری کرتے ہیں مگر کیا سیاستدان کسی اصول اور ضابطے کی پروا کرتے ہیں، کیا میثاق جمہوریت میں سیاسی قوتوں نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے غیر جمہوری قوتوں سے مدد نہیں لیں گی مگر کیا بے نظیر بھٹو نے این آر او نہیں کیا تھا اور کیا میاں نواز شریف ، آصف علی زرداری کے مقابلے میں ہمارے حلیف نہیں بنے تھے، جب جمہوریت کی تاریخ لکھی جائے گی تو کیا عمران خان کے دھرنے اس کا ایک سیاہ باب نہیں ہوں گے ،کیابلوچستان کی حکومت کی تبدیلی اور سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ پیپلزپارٹی نے سیاسی اور جمہوری اخلاقیات کی دھجیاں نہیں بکھیریں۔

میں بریگیڈئیر صاحب کو حوالہ دینا چاہتا تھا کہ آج تک ہمارے ملک میں کسی بھی منتخب جمہوری وزیراعظم کو اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی مگر مجھے ان کے جواب کا بھی علم تھا کہ اس درخت کو کاٹنے میں خود سیاستدانوں نے لوہے کے کلہاڑے میں لکڑی کے دستے کا کام کیا ہے، جمالی اور شوکت عزیز کو ووٹ دینے والے سیاستدان تھے۔

میں بریگیڈئیر صاحب سے اتفاق کرتا ہوں کہ اگر سیاستدان ووٹ کو عزت دینا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے خود ووٹ اور ووٹ سے بنے ہوئے اداروں کو عزت دینا ہو گی۔

ایک جمہوری سیاسی حکومت براہ راست پارلیمنٹ سے جنم لیتی ہے اور جب اولاد اپنی ماں کو عزت نہیں دیتی،ہفتوں مہینوں اور برسوں اس کا حال تک نہیں پوچھتی، صرف اسی وقت اس کے پاس جاتی ہے جب اس کا دودھ پینا ہوتا ہے تو شریکے والے کب اس کی عزت کریں گے۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ اس وقت بھی ہمارے سیاسی رہنما ووٹ اور پارلیمنٹ کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی سے اقتدار کے حصول کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ جماعت جو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہی ہے اس کے اپنے نومنتخب صدر کی حکمت عملی باقی جماعت سے مختلف ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آئین کی سربلندی اور عوامی حاکمیت کو یقینی بنانے کے لئے کوئی انقلاب برپا ہونے والا ہے تومجھے کیا حق ہے کہ اس کی اپنے خیالوں اور خوابوں میں بنائی ہوئی جنت کو برباد کروں کہ اس سے پہلے بہت سارے پڑھے لکھے مقتدر حلقوں کے تعاون سے ایک نئے پاکستان کا خواب بھی تو دیکھ چکے ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply