انسانی رویّے اور ہومیو میڈیکل سائنس

ہومیو پیتھک میڈیکل سائنسز کی جہاں دیگر بہت ساری انفرادی خصوصیات ہیں وہاں اسکی ایک خصوصی انفرادیت اس سائنس میں کسی بھی دوا کا انسانی جسم پہ ہونے والا ہر طرح کے اثر کا مطالعہ کرنا بھی ہے، یہ سعادت ماسوائے ہومیو پیتھی کے کسی دیگر طریقہ طب کو حاصل نہیں ہے۔
ہومیو پیتھک میٹیریا میڈیکا (خواص الادویہ) میں کوئی دوا تب ہی جگہ بنا پاتی ہے جب اسکے کسی بھی تندرست انسان پہ مکمل اثرات کا اچھی طرح سے جائزہ لے کر قلمبند کیا جا چکا ہو، ہومیو میڈیسن کی اس طرح کی تحقیق نے کچھ ایسی اضافی چیزیں بھی سامنے لائی ہیں جو کسی دیگر طریقہ طب میں موجود نہیں ہیں، ان ہی میں سے ایک ہے “بیماری یا دوا کے ذہنی اور نفسیاتی اثرات”۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کو تمام قدیم یونانی و اسلامی طب بھی تسلیم کرتی رہی ہے اور جدید میڈیکل سائنس بھی اسکو تسلیم کرتی ہے۔ مگر اسے اتفاق کہیں یا بد قسمتی کہ اسکو مکمل طور پہ شعبہ طب قرار دے کر اسکا باقاعدہ مطالعہ صرف ہومیو پیتھی نے ہی کیا ہے اور اسے تشخیص مرض اور شفائی عمل یعنی علاج کے لئے ایک لازمی شے قرار دیا ہے۔
انسان کی جسمانی بیماری اسکی ذہنی حالت پہ کتنا اثر رکھتی ہے اسکی مثالیں ہماری روز مرہ زندگی میں اکثر دیکھتے کو ملتی ہیں، جس وقت کسی کو دانت کا درد لاحق ہو اسوقت کوئی اسے آئی لو یو کہے تو یقیناً اس موقع پر یہ الفاظ زہر لگیں گے، اگر چہ وہ اسی شخص سے یہ لفظ سننے کا کتنا ہی متمنی کیوں نہ رہا ہو۔ اسی طرح کسی کا ہاتھ کار کے دروازہ میں آگیا ہو یا کیل ٹھونکتے ہوئے انگوٹھے پہ ہتھوڑی لگ جائے تو ایسے وقت میں اسکا آئس کریم کھانے کا من کبھی نہیں چاہتا۔ یہ تو نارمل زندگی کی مثالیں ہیں، کسی طویل بیماری میں ذہنی مایوسی، پست ہمتی، اور چڑچڑا پن عمومی مشاہدہ میں آتے ہیں، اسی طرح ذہنی تفکرات سے پیدا ہونے والی جسمانی بیماریاں بھی جدید میڈیکل سائنسز سے تصدیق شدہ ہیں۔
ہومیو پیتھک میڈیکل سائنس کسی بھی غیر فطری رویہ کو ایک بیماری تسلیم کرتی ہے اور اسکی علامتوں کے مطابق اسکا مکمل علاج اور دوا بھی بتاتی ہے، مثال کے طور پہ ایک کمپنی مینیجر، جسکے دفتری اوقات (آفس ٹائمنگز) بہت زیادہ اور بے ترتیب ہوں، دفتری کام، فائلیں، کمپیوٹر کا کام، ٹیلیفون کالیں وغیرہ کافی زیادہ ہوں، ساتھ ہی کھانا بھی بے ترتیب، بازاری، مرغن اوربھاری ہو، جسمانی ورزش بہت کم ہو، تو کچھ ہی مدت بعد اس کو ہلکا سردر رہنا شروع ہو جاتا ہے، معدہ خراب ہو نے لگتا ہے پیٹ بڑھنے لگتا ہے، یہ تو اسکے جسمانی مسائل ہیں، ساتھ ہی وہ فرد چڑچڑا سا رہنے لگتا ہے، بات بات پہ ماتحتوں کو ڈانٹنا شروع کر دیتا ہے، گھر میں بیوی بچوں کو ڈانٹتا ہے، ان عمومی باتوں پہ جو بلکل بھی اہم نہیں ہوتیں انکو بہت بڑی اور اہم محسوس کرنے لگتا ہے، اچھا خاصا جھگڑا ڈال لیتا ہے، ٹھیک سے سو نہیں پاتا، دوران ڈرائیونگ گالیاں دینے لگتا ہے، معاشرے سے گلے شکوے کرنے لگتا ہے، دیگر بہت سارے معاملات میں شدید جذباتی ہو جاتا ہے اور اس طرح اپنے بہت سارے نقصان کر لیتا ہے، ایسے فرد کو نکس وامیکا کی چند خوراکیں ہر طرح سے معتدل کرنے لے لئے کافی ہوتی ہیں۔
اسی طرح بات بے بات شک کرنا، بچوں کا رات کو سوتے میں ڈرنا، خواتین کا چھوٹی چھوٹی بات پہ رونا یا لڑنا، شدید حسد کرنا، کسی امتحان یا مجمع میں جانے سے کترانا، اعتماد کی کمی، بوڑھوں کا بچوں جیسی حرکات کرنا، یہ سب چیزیں درحقیقت کسی بیماری کے ہی زیر اثر آتی ہیں۔
اگر آپکے تعلق میں کوئی ایسا فرد ہو جس کی ان ہی جیسی کسی بد عادت سے آپ متاثر ہو کر پریشان ہو رہے ہوں تو پریشان مت ہوئیے، اس سے قطع تعلقی بھی مت کیجئے بلکہ اسے اپنے کسی قریبی ہومیو معالج سے ملوائیے اور سکون کی زندگی کا لطف لیجئے۔

Facebook Comments

مبارک حسین انجم
لاہور میں سکونت ہے، ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہوں، باقی میری تحریریں ہی میرا حقیقی تعارف ہیں-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply