مردم شماری اور خودکش حمله

اب کی بار چھٹی جاؤں گا تو ماں سے جی بھر کے باتیں کرنی ہیں پچھلی بار بھی وقت کم تھا ،اگلے ہفتے بھائی کی شادی ہے خوب خوشی منانی ہے آخر اکلوتا بھائی ہے ،بہن نے چوریاں منگوائی ہیں انتظار کرتی ہو گی ،آج بہت تھک گیا ہوں جاتے ہوئے ہی پکانے کے لیے لے جاؤں کچھ۔۔بچے انتظار کر رہے ہوں گے ۔۔
ایسے ہزاروں خواب سجائے لوگ گھر سے نکلتے ہیں ایک مزدور جس کے گھر وہ اکیلا کمانے والا ہے اور آٹھ دس بندے کھاتے ہیں ۔۔ناکے پر کھڑا ایک سپاہی جو کتنے لوگوں کے پیٹ پال رہا ہے ،ماں نے بچوں کو نہلا کے تیار کیا ہے اور بابا کے ساتھ گھومنے بھیجا ہے ،آج بابا آتے ہوئے چاکلیٹ لائیں گے ۔۔
ایسے کتنے خواب ،خواہشات ،ارادے ،مسکراہٹیں ایک دھماکے کی آواز میں دب جاتی ہیں اور ایوان سے بیان آتا ہے کہ ہم پرزور مذمت کرتے ہیں اور ساتھ حقہ تیار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور بیٹھے ہوئے اگلے الیکشن کا سوچا جاتا ہے کیسے جیتا جائے ،کیسے مخالف حریف کو نیچا دکھایا جائے۔
کل لاہور میں مردم شماری کی گاڑی پر خودکش دھماکہ ہوتا ہے جوان شہید ہوتے ہیں ایوان سے پرزور مذمت آتی ہے اور چیف کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ مردم شماری ہر حال میں جاری رکھی جائے گی ۔۔۔ضرور رکھیے پر یہ جو گھر جن میں آج ماتم بپا ہے جن کے بچے یتیم ہوئے ہیں جن کی عورتیں بیوہ ہوئی ہیں کیا چند لاکھ روپے دے کر تم انہیں ان کا گھرانہ دے سکتے ہو ؟ کیا ان بچوں کی آنکھوں میں بابا کے انتظار کو ختم کرسکتےہو ؟۔۔۔۔کیا ان عورتوں کی آنکھوں میں وہ روشنی لا سکتےہو جو اپنے سہاگ کو دیکھ کر ان کے چہرے پر آتی تھی؟
یقیناً تم یہ نہیں کر سکتے تو یہ چند مراعات و پیسہ ان کے کسی کام کا نہیں نہ یہ چند لاکھ لٹا کر تم قرض اتار سکتے ہو۔۔۔۔آج تک کتنے دھماکے ہوئے کتنے گھر اجڑے ۔۔ایوان سے سواۓ مذمت کے اور کیا کیا گیا ؟ کتنے ذمہ داروں کو سزائیں دی گئیں کتنوں کے قاتل پکڑے گئے ؟؟
میرا ایک سوال ہے جو اکثر ذہن میں شور مچاتا ہے کہ آج تک کسی حکمران کو نشانہ کیوں نہیں بنایا گیا ؟ آج تک کسی حکمران کا بچہ کیوں کسی دھماکے میں شہید نہیں ہوا؟ اللہ تمہارے گھر سلامت رکھے پر میں اتنا سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ ایک غریب مزدور ،ایک پولیس والے ،فوجی کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟۔۔ کیا انہی کا خون سستا ہے ؟ اور تمھارا مہنگا؟ یا ایسے مواقع پر ساری بات اللہ کی رضا پر چھوڑ دی جاتی ہے۔
یہ صرف میرا خیال ہے، ہو سکتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہ ہو ۔۔۔پی ایس ایل کے فائنل سے پہلے پاکستان میں کئی دھماکے ہوئے جو ایک عرصے سے رکے ہوئے تھے اس بات پے زور دیا گیا کہ فائنل لاہور میں ہی ہو گا جو اتنا ضروری نہیں تھا پر ضد میں میچ کروایا گیا اور سارا کریڈٹ موجودہ حکومت کو گیا کہ دہشت گردی ہار گئی ہم جیت گئے ،میں پوچھنا چاہتا ہوں کون سی دہشت گردی ہاری ہے ؟۔۔۔عوام کو یہ لولی پاپ دے کر کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو گئی ، اگلا پی ایس ایل پاکستان میں ہوگا ،حکومت کا کارنامہ ہے لہذا سر جھکایا جائے۔
اب مردم شماری کروائی جا رہی ہے اور ساتھ حاکم جماعت کا نعرہ کہ تعداد جانیں گے تو معلوم ہو گا ہمیں کیا چاہیے ،مردم شماری ہونی چاہیے میں مخالفت نہیں کرتا پر کیا اس پر سیاست تو نہیں ہو رہی ؟ کیا خراب حالات میں مردم شماری کروا کے حکومت یہ ثابت تو نہیں کرنا چاہتی کہ پاکستان کا ہر مشکل قلعے کے فاتح ہم ہیں ۔۔۔؟؟ یاد رہے یہ محض میرا خیال ہے ۔۔ہم اور کتنے گھر برباد کریں گے ہم کب اس دہشتگردی سے نجات حاصل کریں گے کب ہمارا جوان ناکے پر اس یقین کے ساتھ کھڑا ہوگا کہ شام کو گھر جاؤں گا ،کب ایک مزدور صبح اس یقین سے مزدوری پر جائے گا کہ شام کا کھانا بچوں کے ساتھ کھاؤں گا کب پاکستان کی عوام کافر کافر کے کھیل کو ذرا دیر روک کر متحدہو کر اس ناسور کا مقابلہ کرے گی ؟ آؤ اس دہشت گردی کے خلاف ،آپس کے اختلافات ایک جانب رکھ کے نکلتے ہیں ،آؤ قوم بن جائیں جیت کے دکھائیں ۔۔اس بات کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ آج لاہور دھماکے کے بعد ایوان سے بیان آیا کہ مرنے والے جوان ہمارا فخر ہیں ۔۔اگر ایسے ہی آٹھ دس سیاست دان ہمارا فخر بن جائیں تو پاکستان میں امن ہو۔ حاکم بنے بیٹھے نااہل لوگو سنو ۔۔۔۔غیرت بھی کوئی شے ہے۔۔۔ کما لیجئے!!!

Facebook Comments

علی حسین
منٹو نہیں ،منٹو جیسا ہوں ،معاشرے کو کپڑے پہنانے کی کوشش نہیں کرتا!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply