اسلام کا نظام عدل

ایک مرتبہ قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی۔ یہ خاندان چونکہ قریش میں عزت اور وجاہت کا حامل تھا، اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ وہ عورت سزا سے بچ جائے اور معاملہ کسی طرح ختم ہوجائے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ جو رسول اکرمؐ کے منظور نظر تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ اس معاملے میں رسول اکرمؐ سے معافی کی سفارش کیجیے۔ انہوں نے حضور اکرمؐ سے معافی کی درخواست کی۔ آپؐ نے ناراض ہو کر فرمایا:
’’ بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غرباء پر بلا تامل حد جاری کردیتے تھے اور امراء سے درگزر کرتے تھے، (یہ تو فاطمہ بنت اسود ہے) قسم ہے رب عظیم کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر (بالفرض) فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی چوری کرتیں تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔(صحیح بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہر جگہ عدل و انصاف کا حکم فرمایا ہے،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ” وہ قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں جو آپس میں انصاف کرنا چھوڑ دیتی ہیں”۔قرآن مجید میں اللہ رب العزت ایمان والوں سے مخاطب ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ اپنے مقدمات میں اللہ سے انصاف طلب کریں ۔ اللہ سے انصاف طلب کرنے سے مراد یہ کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مقدمات اور تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے جج تسلیم کیا جائے۔قرآن مجید میں اللہ رب العزت ان الفاظ میں اس کا حکم فرما رہے ہیں !
ترجمہ”اے ایمان والو! اللہ اورا س کے رسول اور جوتم میں حکمران ہیں ، ان کا حکم مانو۔ پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اُٹھے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور لوٹا دو، اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے”(سورۃ النساء 32)
اس آیت ِمبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑا انتظامی اور عدالتی اختیار تفویض کیا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلوں کی اطاعت حکم الٰہی اور ایک مسلمان کے ایمان کی نشانی بھی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان منافق اور ایک یہودی کے درمیان جھگڑا ہوا تو مسلمان منافق نے کہا:چلو کعب بن اشرف سے فیصلہ کرائیں گے۔ یہودی نے کہا: نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو، ان سے فیصلہ کرائیں گے۔ وہ مسلمان منافق(مجبوراً) آمادہ ہوگیا اور دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (فریقین کے بیانات سن کر) یہودی کے حق میں فیصلہ فرمادیا۔اس منافق مسلمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا: چلو حضرت عمرؓ سے فیصلہ کرائیں ۔ سو دونوں حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا قصہ بیان کیا۔حضرت عمرؓ نے اس منافق مسلمان سے پوچھا: کیا یہ سچ کہتا ہے، واقعہ یہی ہے؟ منافق نے کہاہاں ٹھیک ہے، ہاں ٹھیک ہے۔ تو حضرت عمرؓ نے کہاتم ذرا ٹھہرو، میں ابھی آکر فیصلہ کرتا ہوں اور گھر میں سے برہنہ تلوار لے کر آئے اور منافق کی گردن اُڑادی اور فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو قبول نہ کرے، میں اس کا فیصلہ اسی طرح کیا کرتا ہوں ۔روایات میں ہے کہ اسی وقت حضرت جبرائیل ؑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا کہ عمرؓ نے حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی واقعہ پر طاغوت کے مقابلہ پر حضرت عمرؓ کا نام فاروق رکھ دیا۔ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻋﺪﺍﻟﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﺪﻝ ﻭ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﻗﻌﮧ امیرالمومنین، خلیفہ چہارم ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ۔ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦِ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺑﻄﻮﺭِ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﯾﻖ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺍﮦ ﭘﯿﺶ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺻﺎﺩﺭﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍُﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺮﺿﺎ ﻭ ﺧﻮﺷﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻟﯿﺎ۔واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا، ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺯﺭﮦ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺯﺭﮦ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺭﮦ ﮨﮯ، ﻓﻼﮞ ﺩﻥ ﮔﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﺩﺭﺳﺖ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮨﯽ ﮐﺮﮮﮔﯽ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ امیرالمومنین ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻓﯿﺼﻠﮯﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﺎﺿﯽ ﮐﯽ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ امیرالمومنین ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ جو ﺯﺭﮦ ہے ، وہ میری ہے، ﺟﻮ ﻓﻼﮞ ﺩﻥگم ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ: ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ؟ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻠﮑﯿﺖ ﮨﮯ۔ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺯﺭﮦ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﻮﮞ ﮔﻮﯾﺎ ﮨﻮﺋﮯ۔ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ! ﺍﮮﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ! ﺁﭖ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﭻ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺯﺭﮦ ﺁﭖ ﮨﯽ ﮐﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ۔ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺁﭖ ﮔﻮﺍﮦ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺑﻄﻮﺭِ ﮔﻮ ﺍﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻡ ﻗﻨﺒﺮ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﻦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻭﺭ حضرت ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ۔ ﺍُﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽﺁﭖ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯼ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﮐﯽﮔﻮﺍﮨﯽ ﺗﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﮔﻮﺍﮦ ﻣﺰﯾﺪ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﮯ ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﮐﮯﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﮯ۔ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﺳﻨﺎ ﮨﮯ۔ ”ﺣﺴﻦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧﻧﻮﺟﻮﺍﻧﺎﻥِ ﺍﮨﻞﺟﻨﺖ ﮐﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮨﯿﮟ۔ “ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ! ﯾﮧ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺣﻖ ﮨﮯ۔ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ؟ﻗﺎﺿﯽ ﺷﺮﯾﺢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﺭﮦ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮﺩﯼ۔
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﺗﻌﺠﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺎﺿﯽ ﮐﯽﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻻﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺻﺎﺩﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺩﯾﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺑﻼ ﭼﻮﮞ ﻭ ﭼﺮﺍﻗﺒﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻟﯿﺎ۔ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮﺍﻧﮧ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ: ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ! ﺁﭖ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﭻ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺯﺭﮦ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺁﭖ ﮨﯽ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ ﻓﻼﮞ ﺩﻥ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﻭﻧﭧ ﺳﮯ ﮔﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭ ﮦ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﺱ ﻋﺎﺩﻻﻧﮧ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﮐﺮ مسلمان ہو گیا۔وطن عزیز پاکستان جسے مدینہ منورہ کے بعد دوسری خالص اسلامی نظریاتی ریاست کہا جاتا ہے،وجود سے لے کر اب تک جہاں اور بہت سے مسائل کا شکار ہے وہاں ایک اہم مسئلہ انصاف کی فوری اور شفاف فراہمی کا تعطل اور مساوات کا فقدان ہے۔قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر انصاف کی بلا تفریق اور شفاف فراہمی منتقل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔تھانے سے لے کر کچہری تک جس کی لاٹھی، اسی کی بھینس والا حساب ہے۔جہاں سزا و جزا کا مستحق صرف غریب آدمی ہے۔پاکستان کے انصاف مہیا کرنے والے نظام کی یہ حالت ہے کہ مظلوم بھی واسطہ پڑنے کے بعد دعا کرتا ہے کہ اللہ دشمن کو بھی تھانہ، کچہری سے دور رکھے۔ عدالتی نظام کسی بھی ریاست کا ایک اہم ستون ہوتا ہے، کیونکہ انصاف ہی سے کسی بھی ملک یا معاشرے میں ایک متوازن اور شفاف ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے، اگر بلا تفریق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تو ملک میں موجود بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے، پاکستان کے ارباب اختیار کو اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی اور شفاف بنایاجائے تاکہ ملک امن کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

Facebook Comments

عبدالرحمن نیازی
میں گمشدہ ۔۔۔۔ اپنی تلاش میں ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply