ہاجرہ کو کسی بھی مشکل یا پریشانی کی صورت میں اپنے ماموں کی طرف سے ہر قسم کی مدد و تعاون حاصل ہوتااور اس کے ماموں نے بھی یہ ذمہ داری خوب نبھائی۔ ابراہیم کی وفات کے بعد اس کے بھتیجوں کا جب کبھی لاہور گھومنے کا ارادہ بنتا تو انہوں نے اپنی تائی کے گھر ہی قیام کرنا اور آفرین ہے ہاجرہ کی ہمت و برداشت و حوصلہ پر کہ اپنوں سے ہمیشہ دکھ ہی ملنے کے باوجود کبھی بھی شکوہ نہیں کیا اور انہیں ہمیشہ خوش آمدید ہی کہا۔
؎ اک تبسّم ہزار شکوؤں کا
کتنا پیارا جواب ہوتا ہے
یحییٰ کا چچا زاد بھائی جو عمر میں اس سے کافی بڑا تھا‘ جب بھی لاہور آتا تو یحییٰ کو سائیکل پر گھمانے لے جاتا۔ ایک دو دفعہ اس نے واپس آ کر اپنی تائی کو کہا کہ اس کا دل کرتا ہے کہ وہ یحییٰ کو راوی میں پھینک دے تا کہ بڑا ہو کر ان سے اپنا حصّہ نہ مانگنا شروع کر دے۔ کسی ماں کے سامنے اس کے بیٹے کے بارے میں یہ الفاظ کہنا آسان کام نہیں اور نہ ہی کوئی ماں ایسے الفاظ برداشت کر سکتی ہے‘ وہ تو مخاطب کی اینٹ سے اینٹ بجا دے اور اسے کبھی بھی اپنے گھر میں داخل ہونے دے نہ ہی زندگی میں کبھی اس سے کلام کرے۔ مگر ہاجرہ سب کچھ برداشت کر جاتی اور غصہ سے لال پیلی ہونے کے باوجود ایک ہی جواب دیتی کہ اس نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے اور اسے جائیداد کی ضرورت نہیں‘ یہ دنیاوی مال و زر تم لوگوں کو ہی مبارک ہوں‘ تم لوگوں سے انہیں کچھ نہیں چاہیے اور بس انہیں سکون سے زندگی بسر کرنے دو۔
وقت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ رکتا نہیں اور ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ یحییٰ نے اپنے بچپن میں جو حالات دیکھے‘ انہوں نے اسے ایک سمجھدار و صابر انسان بننے میں بہت مدد کی۔ سکول کے زمانہ میں اس نے اپنی والدہ سے کوئی فرمائش نہیں کی۔ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد گھریلو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے اپنے گھر کے قریب واقع سادات آٹوز میں برتن دھونے کا کام شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی کام اور پھر ڈی کام کا امتحان پاس کیا۔ اسی اثناء میں پاکستان ریلوے میں ایل ڈی سی کی ملازمتوں کا اشتہار اخبار میں دیکھ کر یحییٰ نے درخواست دی اور منتخب کر لیا گیا۔ ہاجرہ کی ایک بہن راولپنڈی میں رہتی تھی اور باقی بہنوں کی نسبت اسے اس سے زیادہ انس تھا۔ مشکل وقت میں اس بہن نے اپنی استطاعت کے مطابق بڑی بہن کی ہر ممکن مدد کی۔ یحییٰ نے جب ریلوے میں نوکری شروع کر دی تو ہاجرہ نے اپنی اس بہن سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا اور یوں یحییٰ کی شادی سادگی سے اس کی خالہ زاد زبیدہ کے ساتھ ہو گئی۔
یحییٰ کی شادی کے وقت ہاجرہ نے کچھ پیسے جمع کر رکھے تھے اور کچھ زبیدہ کے والد نے قرضہ دیا تو میراں دی کھوئی ایک چھوٹا سا گھر خریدا گیا اور یوں وہ لوگ کرایہ کے مکان سے اپنے ذاتی گھر منتقل ہو گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد ہاجرہ کو احساس ہوا کہ وہ اپنے ماموں اور ان کے اہل و عیال سے بہت دور ہو گئے ہیں‘ لہٰذا بہتر ہے کہ ان کے قریب ہی کوئی گھر تلاش کیا جائے۔ ہاجرہ کے ماموں کا گھر بیرون شیرانوالہ گیٹ کی مسجد اقصیٰ سے ملحقہ دو کمروں پر مشتمل تھا۔ میراں دی کھوئی والا گھر بیچ کر ماموں کے گھر کے قریب ایک ڈھائی مرلہ ٹرپل سٹوری گھر خریدا گیا۔ نیچے والا پورشن کرائے پر چڑھا دیا گیاتا کہ زبیدہ کے والد کا قرض اتارنے میں کچھ مدد مل سکے جبکہ اوپر والے پورشن میں وہ لوگ خود شفٹ ہو گئے۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں