قفقاز کا سفر-5/ڈاکٹر مجاہد مرزا

(مثل برگ آوارہ،سے)
 سامنے والی نشست پر ایک لمبی لمبی ٹانگوں والی پیاری سی نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جس نے جانگیے کے اوپر بس ایک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ طغرل کو وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اس نے ریل گاڑی کے ریستوران کمپارٹمنٹ میں جا کر کونیاک کے دو جام چڑھائے تھےاور اپنے ڈبے میں لوٹ کر اس لڑکی کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ اور سمجھا جانے والا فقرہ “آئی لو یو” کہا تھا۔ لڑکی سن کرخوش ہوئی، چنانچہ ہنسنے لگی تھی مگربعد میں طغرل کے بولے جانے والے انگریزی فقروں کو سمجھنے سے بیچاری نابلد تھی۔ طغرل کو اس کی زبان نہیں آتی تھی تو وہ کیا کہتا۔ جب کونیاک کا نشہ اتر گیا تو اس نے جا کر پھر دو جام پیے تھے اور آ کر وہی فقرہ دہرا دیا تھا پھر خاموش ہو گیا تھا۔ جب ایک بار پھر کونیاک کا سہارا لے کر اس نے تیسری مرتبہ یہ فقرہ کہا تو لڑکی ڈھونڈ ڈھانڈ کر تھوڑی بہت انگریزی جاننے والے شخص کو لے کر آئی تھی جس نے طغرل سے پوچھا تھا کہ آپ اس سے ” آئی لو یو” کہتے ہیں، پھر گھنٹے بھر خاموش رہنے کے بعد کہیں چلے جاتے ہیں اور آ کر یہی فقرہ دہرا دیتے ہیں، آخر اس یک فقرہ کلام اور پھر طویل خاموشی کا سبب کیا ہے؟ طغرل بھلا اسے کیا بتاتا ، اس نے صرف اتنا کہا تھا:
زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم

اس بے ڈھنگے مترجم نے طغرل کو یہ بتانے سے شاید احتراز کیا تھا کہ لمس کی بھی بالآخر ایک زبان ہوتی ہے۔ اگر وہ اس حقیقت کا تذکرہ کر بھی دیتا تب بھی طغرل میں اس قدر جرات رندانہ نہیں تھی کہ لمس کا استعمال کرتا۔ وہ بیچارا تو یہ بے ضرر فقرہ کہنے کے لیے بھی کڑوے پانی کا سہارا لے رہا تھا۔ بصورت دیگر سفر کو رنگین کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوتی۔

رات ہو گئی تھی، سب سو گئے تھے۔ طغرل کروٹیں بدلتا رہا تھا، لڑکی سامنے والی برتھ پر محو خواب تھی۔ چادر تلے سے اس کے جسم کے نشیب و فراز پھدک کر باہر آتے ہوئے لگتے تھے۔ آخر نیند نے طغرل کو بھی آن لیا تھا۔ اگلے روز سہ پہر کے وقت گاڑی کہیں رک گئی تھی اور پھر رکی رہی تھی۔ لوگ ریل گاڑی سے نیچے اتر کر باہر ٹہلنے اور باتیں کرنے لگے تھے۔ ان کے انداز اور لہجے سے لگتا تھا جیسے وہ پریشان ہیں۔ کچھ جھنجھلائے ہوئے بھی لگ رہے تھے۔ طغرل اشاروں کی زبان میں پوچھنے کی کوشش کرتا بھی تو کیسے؟ بہر حال ہاتھ کے اشاروں اور لفظ “شتو” یعنی “کیا؟” سے کام چلانے کی کوشش کی تھی۔ جس سے بھی پوچھا اس نے “نی زنایو” ہی کہا تھا یعنی اسے علم نہیں۔ کوئی چار گھنٹے بیت جانے کے بعد، اس ویران مقام پر بچھی ہوئی پٹڑیوں میں سے ایک پٹڑی پر کوئی دوسری ریل گاڑی آ کر رکی تھی۔ لوگ اپنا اپنا سامان اٹھا کر اس گاڑی میں منتقل ہونے لگے تھے۔ طغرل نے بھی شفیق ساتھی خاتون کے اشارہ کرنے پر اپنا بیگ اٹھایا تھا اور اس کے ہمراہ جا کر دوسری گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ سب مسافروں نے اپنی اپنی نشستیں سنبھال لی تھیں ۔ سب پُرتشویش تھے۔ پھر کہیں جا کر معلوم ہوا تھا کہ قفقاز کے پہاڑوں میں شدید بارشیں ہونے کی وجہ سے ہوئی تباہی کے باعث ریل کی وہ پٹڑی بہہ گئی تھی جس پر ان کی ریل گاڑی کو جانا تھا۔ اس کی مرمت میں بہت وقت لگے گا اس لیے متبادل راستے سے انہیں منزل مقصود پہنچانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ جب ان کی گاڑی پہاڑی علاقے میں پہنچی تو ان پر تباہی کے نشان واضح ہونے لگے تھے۔ بہہ کر آئے ہوئے درخت، بارشوں کے ریلے سے بننے والے عارضی ندی نالے، جھاڑ جھنکار۔ لگتا تھا کہ بارشیں بہت ہی طوفانی اور تند تھیں۔ اس پریشانی کے باوجود نگاہیں تھیں کہ قدرتی مناظر سے ہٹ کے نہیں دے رہی تھیں۔ پہاڑوں کی ڈھلانوں پر دیودار، چیڑ اور سرو کے درخت یوں ساکت کھڑے تھے جیسے عذاب الٰہی سے خوفزدہ ہوگئے ہوں۔ پھر ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ اونچائی پر بنی ہوئی ریل کی پٹڑی پر سفر شروع ہو گیا تھا۔ اب بحر اسود کا لہریں اچھالتا ہوا نیلگوں پانی اور اس کی سطح پر سورج کی کرنوں کے باعث بنتے ہوئے چمکدار جھلملاتے ہوئے ان گنت تارے دل کو لبھا رہے تھے۔ چھتیس گھنٹوں کا سفر اڑتالیس گھنٹوں پر محیط ہو چکا تھا۔

تفریحی سیاحتی شہر کے سٹیشن پر اترنے کے بعد بہت دیر تک حسام کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ وہ دکھائی دیتا بھی تو کیسے کیونکہ غیر متوقع صورت حال  کے سبب ریل گاڑیوں کی آمد کے اوقات اتھل پتھل ہو کر رہ گئے تھے۔ سب مسافر جا چکے تھے۔ آخر طغرل نے بھی بیگ اٹھایا اور سٹیشن سے باہر آ کر ٹیکسی والے سے بات کی تھی کہ وہ اسے “تو آب سے” کے تفریح گھر پہنچا دے۔ شاید ایک سو روبل میں معاملہ طے ہوا تھا، تب یہ بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔

ٹیکسی ڈرائیور مقامی قفقازی شخص تھا۔ تب طغرل کو قفقاز میں رہنے والی مختلف قومیتوں کے لوگوں کے درمیان امتیاز کرنا نہیں آتا تھا، بس یہ کہ وہ دوسرے سفید فام ملکی لوگوں سے مختلف تھے۔۔ ان کے سر کے بال کالے اور چہروں کے نقوش ترکوں کے نقوش سے مشابہ تھے۔ ڈرائیور نے اپنی پرانے ماڈل کی روسی گاڑی کے ٹیپ ریکارڈر میں کوئی گیت لگا دیا تھا۔ آذری تھا، آرمینیائی تھا یا کسی اور زبان کا ،معلوم نہیں ہو سکا تھا مگر گیت کے آہنگ میں غنائیت بہت تھی۔ قفقا ز کا حسن اور ہوا کی تازگی روح کو تروتازہ کر رہی تھی اس پر طرح یہ گیت۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ طغرل اور ڈرائیور راستے بھر آپس میں باتیں کرتے رہے تھے۔ کیسے کرتے رہے تھے، طغرل کو آج بھی یاد نہیں کہ کیسے۔ راستے کی مسافت بھی ایک ڈیڑھ گھنٹے سے کم نہیں تھی لیکن ماحول کے طفیل سفر کی کسالت دور ہو گئی تھی۔ مزاج میں ترنگ بھر گیا تھا۔ بڑی شاہراہ سے ایک ذیلی سڑک پر مڑ کر جس کے دورویہ خوبصورت جنگل تھا، ایک چیک پوائنٹ سے اندر جا کر بنی ہوئی عمارت کے پاس جا کر ٹیکسی ڈرائیور نے ٹیکسی روکی تھی اور ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا تھا “ایدمنستراتسیا توآب سے پینسیونات” یعنی یہ تو آب سے تفریح گھر کی انتظامیہ کا دفتر ہے۔ طغرل نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے ادائیگی کی تھی اور دفتر میں داخل ہو گیا تھا۔

حسام نے اسے کوپن دے کر سمجھا دیا تھا کہ یہ کوپن انتظامیہ کے حوالے کرنے کی خاطر سنبھال کر رکھے۔ اس نے وہ کوپن انتظامیہ کی اہلکارہ کے حوالے کر دیا تھا جس نے جانچ پڑتال اور اندراج کے بعد اسے کمرے کا نمبر کاغذ کے پرزے پر لکھ کر دے دیا تھا اور اشاروں سے سمجھا دیا تھا کہ سامنے کی درمیانی سڑک پر اسے مختص کیا گیا کمرہ کہاں پر واقع ہے۔ طغرل نے کمرہ جلد ڈھونڈ لیا تھا۔ کمرہ کھلا تھا۔ ایک بستر پر ایک نوجوان روسی لڑکا لیٹا ہوا کچھ پڑھ رہا تھا۔ طغرل نے اس سے ہیلو ہائی کرنے کے بعد اسے چٹ دکھائی تھی جس نے زیادہ توجہ مبذول کیے بغیر ایک چارپائی پر بچھے ہوئے بستر کی جانب اشارہ کر دیا تھا۔ اس نے چارپائی کے نیچے اپنا بیگ رکھا تھا اور حسام و نتاشا کو تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا تھا۔

اسے معلوم تھا کہ سمندر کو وہاں کی زبان میں موریا کہتے ہیں اور اس کا خیال تھا کہ انہیں سمندر کے کنارے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ وہ “موریا، موریا” پوچھتا ہوا کوئی ایک سو کے قریب پتھروں سے بنی سیڑھیاں اتر کر ایک کچے راستے پر پہنچا تھا، جہاں سے نیچے دور سمندر دکھائی دے رہا تھا۔

اس نے ایک افریقی نژاد لڑکے سے پوچھا تھا کہ وہ کہاں کا طالبعلم تھا۔ وہ اسی ہونیورسٹی کا طالبعلم نکلا تھا جس میں حسام پڑھتا تھا۔ وہ حسام کے نزدیک کے کسی ہوسٹل کا رہائشی تھا۔ حسام نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ حسام نام کے کسی طالبعلم سے شناسا ہے، اس نے انکار کر دیا تھا۔ پھر اس سے پوچھا تھا کہ ساحل سمندر تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ اس نے دور اشارہ کرکے کہا تھا کہ جہاں وہ کیبن دکھائی دے رہا ہے وہاں سے زینہ نیچے جاتا ہے جس سے اتر کر ساحل سمندر پر جایا جا سکتا ہے۔ پھر اس نے طغرل پر معترضانہ سی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا تھا لیکن تم نے تو کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔

طغرل یہ سمجھا تھا کہ شاید ساحل سمندر پر لوگ مادر زاد برہنہ ہوں گے کیونکہ جس نئے ہوسٹل میں وہ منتقل ہوئے تھے اس کے غسل خانے تہہ خانے میں واقع تھے جہاں بغیر دروازوں کے غسل خانوں میں داخل ہونے سے پہلے سبھی نہانے والے ایک ملحق کمرے میں اپنے سارے کپڑے اتار کر رکھنے کے بعد اندر جاتے تھے بلکہ ایک بار تو طغرل نے مردوں کے غسل خانے میں  ایک نوجوان لاطینی امریکی لڑکی کو بھی نہاتے دیکھا تھا جس کو باقی لوگوں کی نگاہوں سے ڈھانپنے کے لیے تین چار افریقی مرد نما نوجوان اپنے طویل مردانہ اعضا لہراتے ہوئے اس کے ادھر ادھر ہو رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے۔

نیم روشن غسل خانوں میں تو طغرل نے کسی نہ کسی طرح سب کی موجودگی میں کپڑوں سے آزاد ہونے کی جرات کر لی تھی لیکن روز روشن میں سرعام ایسا کرنا اسے بہت مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ پھر بھی اس نے کیبن تک پہنچتے پہنچتے پتلون میں سے قمیص باہر نکال کر قمیص کے بٹن کھول لیے تھے اور سوچا تھا کہ اوکھلی میں سر دیتے ہوئے موسلوں کے ڈر سے بے نیاز ہو جانا چاہیے۔

نیچے اترنے والے زینے تک پہنچ کر ساحل سمندر پر موجود لوگ دکھائی دینے لگے تھے جو یکسر ننگے نہیں تھے بلکہ پیراکی کے لباس میں  تھے یعنی مردوں نے جانگیے اور عورتوں نے جانگیوں کے ساتھ ساتھ انگیائیں پہنی ہوئی تھیں۔ زینوں کے پاس موجود کیبن درحقیقت ایک وسیع اور کھلا لکڑی کی چھت والا ہال تھا جس میں پیراکی نہ کرنے والے پھٹے بچھا کر بے سدھ لیٹے ہوئے تھے۔ لکڑی سے بنا یہ کھلا ہال لکڑی کے ہالوں پر استوار تھا جو ساحل سے دور کی زمین میں گڑے ہوئے تھے۔

طغرل ابھی وہاں کھڑا، سمندر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کھاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس جم غفیر میں اپنے دوستوں کو کیونکر تلاش کر سکے گا کہ اسے نیچے اترنے والے زینے پر چڑھتا ہوا ایک لاطینی امریکی لڑکا دکھائی دیا تھا جو ہوسٹل میں نتاشا سے گپ شپ لڑایا کرتا تھا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو ہائی کہا تھا۔ جب طغرل نے اس سے نتاشا کے بارے میں پوچھا تھا تو اس نے ہاتھ سے اشارہ کرکے دکھا دیا تھا کہ نتاشا کہاں ہے۔ طغرل مطمئن اور خوش ہو گیا تھا۔ اس نے نیچے اتر کر نتاشا کو جا پکڑا تھا اور وہ بھی طغرل کے بخیریت پہنچ جانے پر شاداں دکھائی دینے لگی تھی۔ جب اس نے اس سے حسام کے بارے میں پوچھا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ وہ اسے خوش آمدید کہنے کے لیے شہر کے ریلوے سٹیشن گیا ہوا ہے اور کہا تھا کہ دو دنوں میں یہ اس کا تیسرا چکر تھا۔ پھر نتاشا اسے لے کر اوپر چڑھی تھی اور تفریح گھر کے علاقے میں واقع ایک دکان میں لے گئی تھی جہاں سے اس نے طغرل کو ایک شارٹس خریدوائی تھی اور ایک واٹربال بھی خریدی تھی۔ وہ ایک بار پھر ساحل سمندر پر جا پہنچے تھے۔ طغرل کو تیرنا نہیں آتا تھا بس ساحل کے ساتھ ساتھ اتھلے پانی میں کھڑا ہو کر بیٹھتے ہوئے ڈبکی لگا کر خود کو گیلا کر لیتا تھا۔ طغرل اور نتاشا واٹربال سے کھیلتے رہے تھے۔ کوئی چھ بجے کے قریب جب سورج سمندر کی سطح کے نزدیک پہنچنے کو تھا تب حسام بھی پہنچ گیا تھا۔ اس نے طغرل کو وہاں موجود پا کر اطمینان کی سانس لی تھی اور ساتھ ہی طغرل کو اپنے طور پر تفریح گھر پہنچ کر نتاشا کو تلاش کر لینے پر داد بھی دی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جار ی ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply