ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔۔۔حارث عباسی

سال پرانی بات ہے. یہی دِن تھے اور قائداعظم یونیورسٹی مکمل طور پر میدان جنگ کی سی صورت اختیار کئے ہوئے تھی.

گرچہ فضا ہر طرح کی افواہوں سے پُر تھی تاہم اِکّا دُکّا ذرائع سے خبر ملتی کہ یونیورسٹی کی طلباء تنظیم چالیس دِن سے اپنے مطالبات لئے کھلے آسمان تلے بیٹھی سراپا احتجاج ہے. مطالبات کی پوچھ گچھ پر قائداعظم کے  14 نقاط کے  مشابہہ ایک لمبی لِسٹ ہاتھ میں تھما دی  جاتی. گرچہ چند ایک نقاط کے علاوہ تمام ہی مطالبات نہایت معقول تھے تاہم ایک لمبے عرصے تک انتظامیہ کی طرف سے اِن معقول ترین مطالبات کا نہ ماننا بھی کسی اچھنبے سے کم نہ تھا. کہیں کان دھرو تو یہ بھی سننے میں آتا کہ اِس شدید احتجاج کا مقصد یونیورسٹی میں کچھ عرصہ قبل ہوئے لسانی فسادات میں شامل چند ایکسپیلڈ طلباء کو دوبارہ بحال کروانا ہے جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ یہ قدم اٹھانے کیلئے تیار نہیں.

خیر! تقریباً ڈیڑھ ماہ گزرا. ۔یونیورسٹی انتظامیہ اور طلباء تنظیم میں معاملات طے پائے اور تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد یونیورسٹی کے حالات معمول پر آئے.

سال گزر گیا. اگرچہ اِس دوران کئی چھوٹے موٹے حادثات نما معاملات یہاں کی یونیورسٹی روٹین کے مطابق پیش آتے رہے تاہم آج ایک نیا معاملہ سر اٹھائے جامعہ کے بیچوں بیچ کھڑا ہے.

ٹرانسپورٹ پرابلم!

مختلف روٹس پر چلنے والی بسوں پر اپنی صلاحیت سے کئی گنا زیادہ طلباء کو سوار کر کے لے جانے کا معاملہ آج یونیورسٹی کے مختلف ڈسکشن فورمز کے علاوہ عام سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہے. سوشل میڈیا پر موجود مختلف تصویروں اور ویڈیوز میں دور دراز علاقوں کے طلباء کو یونیورسٹی بسوں  کی چھتوں پر بیٹھے سفر کرتے دیکھا سکتا ہے. ریسرچ کے حوالے  سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ایشیاء میں جانی جانے والی جامعہ میں اس طرح کے ایشوز بلاشبہ ایک سنجیدہ ترین مسئلہ ہے تاہم اِن معاملات کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے ہمیں کچھ قدم پیچھے جانا ہوگا

سال ٢٠١٧ کی ہڑتال اور مطالبات کی لسٹ، انہی درجن سے کچھ زائد مطالبات میں سے ایک مطالبہ جامعہ میں ذرائع آمدورفت کے مسئلے کا حل تھا. بسوں کی کمی کے باعث مختلف علاقوں سے آنے والے طلباء و طالبات کو بسوں  میں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا تھا. مذاکرات کی کامیابی کے بعد ایک سال گزرنے تک یہ مسئلہ جوں کا توں رہا. دو سمسٹر گزر گئے. نئے داخلے ہوئے. نئے لوگ آئے. بسیں آج بھی وہی جو پچھلے سال. طلباء تنظیم نامی کسی بلا کیطرف سے آج کی تاریخ تک دوبارہ اِس معاملے پر کوئی احتجاج یا ردعمل نظر نہ آیا.

آنکھوں کے  ساتھ ذہن بھی دھندلا گیا. ملک کے ٹاپ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو احتجاج کے نام پر ڈیڑھ ماہ بند رکھنا کیا واقعی مطالبات کے منوانے کی وجہ سے تھا یا فقط من مانی کا ایک آدھ مطالبہ منوایا جانا تھا؟

کیا ڈائریکٹ صدر کی زیرنگرانی چلنے والے ہمارے ادارے بھی یونہی ہمیشہ بلیک میلنگ کا شکار ہوتے رہیں گے؟۔۔۔۔۔اور

کیا “لاء اینڈ آرڈر” ہمارے ہاں ہمیشہ ایک بااثر لاٹھی کا نام ہی رہے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

فقط ایک سوال ہے…

Facebook Comments

Hariss Abbassi
نام کافی است

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply