ٹرٹلز کین فلائی/احسن رسول ہاشمی

” فن ایک ایسا جھوٹ ہے جو ہمیں سچائی کا احساس دلاتاہے” ( پابلو پیکاسو)
“ٹرٹلز کین فلائی” یہ فلم ایرانی نژاد کرد ہدایتکار بہمن غوبادی نے لکھی اور ڈائریکٹ کی ہے۔ اس فلم نے برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، شگاگو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، سان سیبسٹین انٹرنیشنل فلم فیسٹیول سمیت دیگر بے شمار ایوارڈز اپنے نام کیے ہیں۔اس فلم کی سینماٹوگرافی، اداکاری اور میوزک نہایت عمدہ ہے۔ یہ فلم ایک شاندار، لاجواب اور بے مثال آرٹ ورک ہے غوبادی نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک بہترین کہانی اور اسے سنبھالنے والا ہنرمند دماغ کسی بھی زبان میں ایک شاہکار تخلیق کر سکتا ہے۔

یہ فلم عراق میں کُردوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بالخصوص پناہ گزین بچوں کی مشکلات اور حقوق کے بارے میں ہے۔ ایک انٹرویو میں غوبادی نے کہا تھا کہ
“میری فلم کا ستر فیصد حصّہ عام لوگوں کی زندگیوں میں رونما ہونے والے واقعات پر  مبنی ہوتا ہے اور باقی تیس فیصد میری زندگی کا عکس ہے جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا “۔

اے بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ“جب میں نے اس فلم کو بنانے کے بارے میں سوچا تو میرے پاس اسکرپٹ نہیں تھا میں نے اس کہانی کا صرف بیس فیصد لکھا تھا اداکاروں اور مقامات کی تلاش کرنے اور اسکرپٹ کو مکمل کرنے کے لیے میں نے بے شمار شہروں اور گاؤں کا دورہ  کیا اور ہر جگہ میں نے ہزاروں بچے دیکھے ہر ایک دوسرے سے بہتر تھا۔ میرے پاس انتخاب کیلئے بہت سے اداکار موجود تھے لیکن میں نے چند کو چنا اور تمام باصلاحیت اور حیرت انگیز تھے۔ اگر مجھے ایک ایسا بچہ چاہیے ہوتا جس کے ہاتھ نہ ہوں تو اس سرحدی علاقے میں مجھے ایک ہزار ایسے بچے مل سکتے تھے جو بارودی سرنگوں پر چلتے ہوئے اپنے ہاتھ پاؤں کھو چکے ہیں یہ مرحلہ میرے لیے آسان بھی تھا اور مشکل بھی”۔

غوبادی نے غیر پیشہ ور اداکاروں کی مدد سے حقیقی متاثرین اور انکی روزمرہ زندگی کی مشکلات کو انسانی روح کے ناقابلِ تسخیر سسکتے گیت کے روپ میں پیش کیا ہے۔ یہ گیت امن کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کے پس پردہ نفسیات اور مقاصد کو بیان کرتاہےکہ وقت گزرنے کے ساتھ جغرافیائی سیاسی ایجنڈے کیسے تبدیل ہوتے ہیں اور ایک چنگاری پورے نخلستان کو ویرانے میں بدل دیتی ہے۔

لاکھوں افراد لقمہ اجل بنتے ہیں ہزاروں افراد بے گھر ہوتے ہیں عورتیں بیوہ ہوتی ہیں اور بچے یتیم۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ “جنگ آپ سے سب کچھ چھین لیتی ہے”۔

یہ داستان شمالی عراق اور ترکی کی سرحد پر واقع گاؤں کانیبو کے یتیم پناہ گزین کُرد بچوں پرمرکوز ہے یہ فلم ہمیں یتیم بچوں کی ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں روز مرہ زندگی کی بنیادی سہولیات،کھانا، پینے کا صاف پانی، بجلی اور سکول نہیں ،انکے خیموں کے اردگرد خاردار تاریں، بارودی سرنگیں اور زنگ آلود ٹینکوں کے گولے موجود ہیں۔ انھیں ہر دم یہ خیال ستاتا ہے کہ اپنے دفاع کیلئے ہتھیاروں کو اکھٹا کرنا ہے، کیمیائی حملے سے بچاؤ کیلئے  ماسک کے استعمال کا طریقہ سیکھنا ہے اور بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے بچنا ہے۔

مرکزی کردارسوران ( عرفی نام سیٹلائٹ)ہے جو پناگزین بچوں کا قدرے سخت لیکن ہمدرد حکمران ہے۔ روزگار کی خاطر وہ بارودی سرنگوں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں، بچے بارودی سرنگوں کو ناکارہ بناتے ہیں اور انھیں بیچ کرگزر بسرکرتے ہیں۔ فلم کا آغازعراق پر امریکی حملے سے چند دن پہلے کے مناظر سے ہوتا ہے جہاں لوگ اینٹینا اٹھائے گھوم رہے ہیں وہ ملکی حالات کو جاننے کیلئے بےتاب ہیں اور اس کیلئے وہ سیٹلائٹ کو بلاتے ہیں جو انھیں سیٹلائٹ ڈش لگا کر دیتا ہے اور غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی کوریج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔

فلم کا دوسرا بنیادی کردار اگرین کا ہے جو بظاہر ایک مضبوط لیکن ماضی کی المناک یادوں کے غم میں گھری ہوئی ہے ایک منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ عراقی فوجیوں نے اس کی عصمت دری کی اور شائد ریگا اس کا بچہ ہے جو اسکے ہولناک تجربے کی یاد کی علامت ہے وہ ہر لمحہ اس درد سے نجات کی متلاشی نظر آتی ہے۔

اس کا بھائی ہیگوف ہے جو ہمت و شجاعت کی علامت ہے بارودی سرنگ کے پھٹنے کے باعث بے شمار بچوں نے اپنے ہاتھ اور بازو کھوئے ہیں جس کی مثال ہینگوف ہے جو اسی طرح کسی دھماکےکا شکار ہوا اور اس کے دونوں بازوں کٹ گئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ منہ سے بارودی سرنگوں کوناکارہ کرتے دکھائی دیتا ہے۔ اپنے دونوں بازوں کو کھو دینے کے باوجود وہ زندگی کی ہر مشکل کا بہادری سے مقابلہ کرتا ہے وہ پیشنگوئیاں کرتا ہے جو اکثر درست ہوتی ہیں ( شائد مستقبل کو جاننا بھی تکلیف دہ ہوتا ہے کہ آپ سب جاننے کے باوجود بھی اسے بدل نہیں  سکتے)۔

غوبادی بچوں پر جنگ کے اثرات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں ایک منظر میں جہاں ایک وسیع و عریض میدان میں ہر سو زنگ آلود گولے موجود ہیں جب ریگا ان دھاتی سلنڈروں سے جھانک کر “بوکا” ( ڈیڈی) پکارتا ہے تو وہ منظر ناظر کیلئے  نہایت تکلیف دہ ہے۔یہ مناظر دردناک ہیں اور جب آپ ان کرداروں کو دیکھتے ہیں تو ہر کردار کی تپش آپ کے دل  میں اُتر جاتی ہے۔

فلم کا بنیادی خیال:
فلم ” ٹرٹلز کین فلائی” کا عنوان دراصل فلم کا ایک استعارہ ہے۔ کُرد متاثرین بالخصوص پناہ گزین بچے کچھوے کی نمائندگی کرتے ہیں جو مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں ہر لمحہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور مشکلات کے سمندر سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح فلم میں اگرین کی عصمت دری کا استعارہ کُردستان پر قبضے اور بے جا مداخلت کی طرف اشارہ ہے اس علاقے پر ایران، عراق، شام اور ترکی دعویدار ہیں غوبادی انکے آپسی تصادم اور کرد میں مداخلت کو عصمت دری کے مترادف گردانتے ہیں۔

اسی طرح ایک سین میں جب سٹلائیٹ ممنوع چینلز لگاتا ہے تو بزرگ منہ موڑ لیتے ہیں جو غوبادی پر لگائی گئی پابندیوں کی علامت ہے جس کی وجہ سے اسے اپنے ملک کو چھوڑنا پڑا۔

فلم میں دکھائی گئی مچھلی کی علامت ایک نئے دور کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے جیسے نوروز کا تہوار جو بہار کے موسم کی علامت ہے جو اس خطے میں ہزاروں سال سے  منایا جارہا ہے وادی دجلہ و فرات میں تین موسمی تہوار ( اکی تو، تموز اور تشری) کو بڑی عقیدت سے منایا جاتا تھا۔اکی تو اور تشری نوروز کے طور پر منائے جاتے تھے جبکہ تموز خشک سالی اور غم کا تہوار تھا۔ سٹلائٹ جب مچھلی کو دیکھتا ہے تو چند لمحوں کیلئے میسر خوشی اسی نوروز کے تہوار اور بہار کی علامت ہے لیکن چند لمحوں بعد ہی وہ خوشی تموز کے تہوار کی چادر اوڑھ لیتی ہے اور ظلمات کی ملکہ کا ظہور ہوتا ہے جو جنگ کی علامت ہے۔نابینا بچہ ریگا کمیائی ہتھیاروں کے خوفناک اور مضر اثرات ( تموز) کی علامت ہے جس کی موجودگی اگرین کو ہر لمحہ تکلیف دیتی ہے اسے بے چین رکھتی ہے۔

گاؤں میں موجود تالاب خود شناسی کا ذریعہ ہے یادوں کی جگہ ہے اور انھیں ختم کرنے کا مقام، فلم کے اختتام پرتلخ یادوں کو اسی تالاب کی گہرائیوں میں ڈوبتے دکھایا گیا ہے غوبادی نے اپنی زندگی میں بھی ایسے بے شمار حالات کاسامناکیا،اس نے والدین کی علیحدگی، غربت، جلاوطنی اور جنگی تباہ کاریاں سہی ۔ انھیں اپنے ملک ایران سے نکالا گیا تو کُرد منتقل ہوگئےجہاں انھوں نےصدام کی حکومت، اقوام متحدہ کی پابندیوں، جنگ کی ہولناکیوں اور پناہ گزین بچوں کی مشکلات کو دیکھا۔

غوبادی کی یہ فلم جنگ مخالف ہے جس میں مصنف نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ عقائد، امن، طاقت یا حکمرانی کی خاطر لڑی جانے والی جنگ روایتی ہو یا غیر روایتی انسانی سماج کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہے خاص طور پر  بچے اس کا شکار ہوتے ہیں وہ تاحیات اس ملبے تلے دب جاتے ہیں جو بالغ پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حوالہ جات
ماضی کے مزار از سبط حسن
اے بی سی نیوز، تجزیہ۔ آر نیر، سونیا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply