گنجی بار ناول میں کیا ہے؟۔۔توقیر کھرل

گزشتہ ہفتے پروفیسر منیر رزمی صاحب نے ناول گنجی بار اپنے  دستخط  کے ساتھ عنایت کیا اور یہ بھی لکھا کہ عزیزم توقیر کھرل کے جذبہ حریت اور قوم پرستی کے نام ۔
ناول ہاتھ میں آتے ہی پڑھنا شروع کیا۔
میں نے گنتی کے چند ناول پڑھے  ہیں، یہ واحد ناول تھا جو دو نشستوں میں ختم کردیا  ، ناول میں متعدد موضوعات ہیں لیکن مجھے انگریزی تسلط کی مزاحمت کرنے والے ہیروز احمد کھرل، مراد فتیانہ ،
سوجابھدرو نادر قریشی کی کہانی نے زنجیر کی مانند باندھ کر رکھ دیا ، صفحات کم پڑتے گئے جونہی یہ ناول پنے انجام کو پہنچا ، مجھے اس ناول کا یوں اچانک ختم ہوجانا ایک آنکھ نہ بھایا اور طبعیت سیر ہوکر بھی سیر نہ ہوتی محسوس کی۔

ناول میں مکالموں کا استعمال کم اور بیانیہ پہ  زیادہ زور دیا گیا ہے ۔شہید احمد کھرل کی بغاوت کے بارے میں پائے جانے والے تمام شکوک  و شبہات کو دلائل اور واقعات سے کاؤنٹر کیا گیا ہے ۔گزرے ہوئے وقت کی تصویر کا دوسرا رخ دکھا کر ناول نگار شاہد رضوان نے پنجابیوں پہ بڑا احسان کیا ہے۔اگرچہ ناول تاریخ نہیں ہوتا، لیکن ناول میں احمد کھرل کے گرد کہانی تاریخ کے پنوں سے باہر نہیں ہے ۔

بہت سے اذہان میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ضعیف العمر آخر احمد کھرل اور ان کے ساتھیوں نے مجاہدین سمیت انگریزوں کے ہاں  قیام کیوں کیا ہوگا؟

اس سوال کا جواب ہمیں شاہد رضوان کے ناول “گنجی بار” سے مل جاتا ہے ۔اس سے قبل طاہرہ اقبال نے افسانوں کی کتاب گنجی بار تخلیق کی ہے۔ گنجی بار دریائے راوی اور بیاس کے درمیان کے علاقے کو کہتے ہیں اس علاقے میں چیچہ  وطنی، ہڑپہ  ،ساہیوال اوکاڑہ، گوگیرہ آتا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ بل کھاتا دریائے راوی جسروتہ ،دوسہ جستر ڈیرہ بابا نک، رمداش سودیان، شرقپور ،سید والا ،کمالیہ ،چیچہ  وطنی،تلمبہ سے ہوتا ہوا سرائے سردار پور میں چناب اور جہلم میں جاگرتا ہے۔ ناول کے تناظر میں دیکھا جائے توبغاوت سے قبل صورتحال یہ تھی کہ تجارت کی غرض سے آنے والے انگریز سامراج نے یہاں کے باسیوں سے ہی دس گنا ٹیکس لینا شروع کردیا تھا کسانوں پر مالیہ کا بوجھ بڑھا دیا تھا اور چوکیدارہ ٹیکس میں دس گنا اضافہ کردیا کیا گیا۔ ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں ملازمت کی تلاش کے لئے جانے والے افراد سے چھ پائی ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا ،ہر گھوڑا اور گدھا گاڑی سے چارسے آٹھ آنے ٹیکس لینا مقرر ہوا۔

بات یہاں  تک ہی نہیں  رُکی ،مسلمانوں کے مذہبی عقائد بدلنے کے لیےسکولوں، کالجوں، جیلوں ،دفتروں اور دیگر مقامات پر کھلم کھلا عیسائیت کا پرچا رکیا جانے لگا اور مسلمان سپاہیوں کو پادری کا خطاب سننے پر مجبور کیا جاتا۔ سرولیم میور نے لائف آف محمد لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کردیا۔ مولوی محمد باقر کو سزائے موت ہوئی اور ان کا بیٹا لاہور آگیا تھا۔ ہر طرف بغاوت ہوچکی تھی۔ اورانگریز سامراج تمام تر وسائل اور سازشوں سے احمد کھرل اور ان کے جانباز ساتھیوں کو تہہ تیغ  کرنے کے درپے تھا۔

ناول کی زبان میں لہندی جانگلی لفظوں کا استعمال کیا گیا ہے لیکن کئی مرتبہ ایسے الفاظ بھی استعمال ہوئے جن کا لہندی ( جانگلی) سے دور دور تک تعلق نہیں تھا، ناول نگار کو دوسرے ایڈیشن میں اس خامی کو ضرور دور کرنا چاہیے ۔

چونکہ میرا تعلق کھرل خاندان اور نیلی بار سے ہے اس لئے بھی میں ناول میں اپنی ذات کو نہیں نکال سکا، جیسے ناول نگار ناول لکھتے ہوئے خود کو اس کہانی سے جدا نہیں کرسکتا، اس لئے ہمیں ناول کا مرکزی کردار لکھاری ہی محسوس ہونے لگتا ہے ایسے ہی یہ ناول احمد کھرل کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھنے والے گنجی بار کے باسیوں، پنجابی فریڈم فائٹرزکے چاہنے والوں کو اپنے سورماؤں کی نابر کہانی پڑھ کر ایک بار یہ گمان ضرور ہوگا کہ جو مشکلات مصائب و الم اُن باغیوں اور مجاہدین پر گزرے  ہیں گویا مذکورہ صفحات کے درمیان اُن پہ بھی بیتتی ہے ۔ اور جب کسی ناول کو پڑھنے والی اکثریت ایسی کیفیت کا شکار ہوتی ہے تو وہ بہترین ناولوں میں سے ایک ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ ناول شاہد رضوان کا بہترین شاہکار ہے ۔

بچپن سے ایک ہی سوال ذہن میں گونجتا تھا کہ 21ستمبر 1857کو ہمارے آباؤ اجداد  نیلی بار پہ راوی کنارے جھنگ سے تلمبہ کے نز دیک بستی سنپال میں کیسے اور کیوں کر مہاجر ہوئے ہوں گے ۔انگریز بعد میں پڑدادا اور ان کے بھائیوں کو فوج میں شامل کرنا چاہتا تھا تو وہ کیوں چھُپ جایا کرتے تھے ہماری گھُٹی میں، رگوں میں استعمار دشمنی کیوں ہے ؟کسی نے کہا تھا بندہ کھرل ہوتے  ہوئے حُسینی نہ  ہو ،یہ  نہیں ہوسکتا۔۔ ان تمام سوالوں کے جوابات اس ناول میں راز کی طرح چھُپے ہوئے تھے ۔

احمد کھرل کی شہادت کے بعد انگریز سامراج کے مظالم میں اضافہ ہوگیا تھا کھرلوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا ،اس لئے کوئی کھرل سے “ہرل “ہوگیا کوئی” کھر” ہوا ۔اس گھمبیر صورتحال میں بہادر اور غیرت مند پنجابیوں کو اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ اپنی نسل کو بھی بچانا تھا، یہ دُکھ یہ قربانیاں کس قدر مصائب سے بھری تھیں ، ناول کا ایک ایک صفحہ  مجھ میں   اپنے آبا ء پہ فخر  کا جذبہ بڑھا رہا تھا۔
شاید یہی جذبہ قوم پرستی اور جذبہ حریت کہلاتا ہے دراصل یہی قوم پرستی ہی حقیقی حب الوطنی ہے اور مجھے ایسی  قوم پرستی پہ فخر ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لمحہ موجود میں نوجوان نسل کو ارطغرل غازی ڈرامہ دیکھنے کی ترغیب دلائی جارہی ہے لیکن ہمارے اصلی ہیروز کے بارے میں نہ تو کوئی ڈرامہ بنایا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی فلم بنائی گئی ہے۔شاہد رضوان کا ناول اس قدر جاندار ہے کہ اس سے احمد کھرل اور استعمار کے خلاف تحریک کے بارے میں ایک شاندار فلم تخلیق کی جاسکتی ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply