آئن سٹائن کا سال (60)۔۔وہاراامباکر

بیسویں صدی کے آغاز پر فزکس کی فیلڈ میں ایک نئے شخص کی آمد تھی جو فزکس کے بارے میں بڑا مختلف رویہ رکھتا تھا۔ یہ آئن سٹائن تھے۔ جب پلانک نے کوانٹم کا آئیڈیا پیش کیا تو کسی کو بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ نیچر کا بنیادی اصول ہے۔ کسی کو اس کا ادراک نہیں ہوا کہ کیا دریافت کر لیا گیا ہے۔ جب پلانک نے اپنا اعلان کیا تو آئن سٹائن کالج مکمل کر چکے تھے۔ ان کا پلانک کے کام کے بارے میں کہنا تھا، “یہ ویسا ہے جیسے ہمارے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی ہو اور کہیں کوئی جگہ نظر نہ آ رہی ہو جس پر فزکس کی عمارت کی بنیاد کھڑی کی جا سکے”۔

ارسطو یا نیوٹن کی طرح آئن سٹائن کا نام کسی کے لئے ذہانت کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بلاوجہ نہیں۔ جدید فزکس کی تشکیل میں جتنا زیادہ حصہ آئن سٹائن کا ہے، ان کے قریب بھی کوئی اور نہیں۔ آئن سٹائن نے پلانک کے آئیڈیا کو جب سنا تھا تو وہ پچیس سال کے تھے اور ابھی انہوں نے پی ایچ ڈی مکمل نہیں کی تھی۔ آئن سٹائن وہ شخص تھے جنہوں نے کوانٹم پر پلانک کے کام کو آگے بڑھایا تھا اور یہ دکھایا تھا کہ آخر دریافت کیا ہوا ہے۔

آئن سٹائن کوانٹم فزکس کے بانیوں میں سے تھے۔ پچیس سالہ آئن سٹائن اس خیال کو لے کر آگے بھاگے تھے۔ پچاس سالہ آئن سٹائن اپنی کی گئی کاوش سے نکلنے والے نتائج کے مخالف کھڑے تھے۔

آج کے پاپولر کلچر میں آئن سٹائن کی کوانٹم فزکس کے حوالے سے شہرت اس کے بانیوں میں سے نہیں بلکہ مخالفت میں کھڑے ہونے کی وجہ سے ہے۔ کوانٹم کے حوالے سے انہیں سر جیمز جینز کی طرح دکھایا جاتا ہے، جو ایسا خیال قبول نہیں کر سکے تھے جس کو مشاہدات درست دکھا چکے تھے۔

انہوں نے پچیس سال کی عمر میں جو خیالات پیش کئے تھے وہ روشنی کو نئی نظر سے دیکھنے کے تھے۔ یہ دکھاتے تھے کہ توانائی کوانٹم ذرات سے بنی ہے۔ اس سے نکلنے والے کوانٹم خیالات Reality کو نئی نظر سے دکھاتے تھے اور یہ ایک بڑا مختلف معاملہ تھا۔ یہ خیالات انہوں نے مسترد کر دئے۔

جس طرح کوانٹم تھیوری ارتقاپذیر ہوتی گئی، یہ واضح ہوتا گیا کہ اگر اسے قبول کرنا ہے تو یہ اس چیز کے معنی ہی بدل دیتی ہے کہ وجود کیا ہے، جگہ کیا ہے، ایک واقعے سے دوسرے واقعے کا تعلق کیا ہے، وجہ کیا ہے۔ ارسطو کی مقصدیت والی دنیا سے نیوٹن کی intuitive دنیا تک جتنی بڑی چھلانگ تھی، نیوٹن کی مکینیکل دنیا سے اس نئے کوانٹم ویو تک کی چھلانگ شاید اس سے بھی بڑی تھی۔

اور آئن سٹائن، جنہوں نے پوری فزکس کو ہی تبدیل کر کے رکھ دینے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی، ان کے لئے اپنے کام کے نتیجے میں نکلنے والی میٹافزکس کی اتنی بڑی تبدیلی قبول کرنے میں دشواری تھی اور اس کو انہوں نے اپنی وفات تک قبول نہیں کیا۔ اور یہ ہمیں ایک دلچسپ نکتے کی طرف لے جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو لوگ آج فزکس پڑھتے ہیں، ان کے لئے کوانٹم کی عجیب دنیا کو حقیقت کے طور پر قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں۔ “ایک کوانٹم آبجیکٹ دو جگہ پر بیک وقت ہو سکتا ہے” طویل عرصے سے اسٹیبشلڈ فیکٹ ہے۔ اس پر دلچسپ بات چیت ہو سکتی ہے۔ لیکن فزکس کے کسی طالبعلم کے لئے یہ کوئی ایسی اچنبھے کی بات نہیں جو رات کی نیند اڑا دے۔ لیکن آئن سٹائن جو جدید فزکس کے ہیرو ہیں، انہیں یہ قبول کرنے میں اتنی مشکل کیوں تھی؟

اس لئے کہ فکر کا بھی انرشیا ہوتا ہے، حتیٰ کہ آئن سٹائن جیسے انقلابی فکر کے شخص کے لئے بھی۔ آئن سٹائن جس دنیا میں بڑے ہوئے تھے، یہ نیوٹونین دنیا تھی۔ اس دنیا میں کوانٹم فزکس کی آمد سے نکلنے والے معنی بہت عرصے سے تسلیم شدہ حقائق کو بے معنی کر دیتے تھے۔

کارل ساگان سے منسوب ایک فقرہ ہے کہ سائنسدان نئے حقائق دیکھ کر اپنا ذہن جلد یا بدیر تبدیل کر لیتے ہیں جبکہ نظریاتی دنیا میں ایسا نہیں کیا جاتا۔ ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ فقرہ حقیقت سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ فکر کی ہر جہت کا اپنا انرشیا بھی ہوتا ہے اور تبدیلی کا راستہ اور طریقہ بھی۔ اس بارے میں سائنس ہو یا کوئی بھی اور فکر، ان میں فرق نہیں۔ اور یہ سمجھنے کے لئے بڑا اہم نکتہ ہے۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ اپنی ذاتی فکر کو کسوٹی بنا کر ماضی کا یا دوسروں کا مطالعہ کرنا اور اس پر رائے زنی کرنا اپنے ہم خیالوں میں مقبول یا اپنی اخلاقی برتری کے زعم میں اضافہ تو کر سکتا ہے لیکن دنیا کو یا خود اپنے آپ کو سمجھنے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔

اور ایسا نہیں ہے کہ لوگ محض کاسموس کے بارے میں گہرے سوالات یا پھر کسی اخلاقیات کے موضوع پر مضبوط خیالات میں یا کسی سیاسی نکتہ نظر میں ہی کسی ترمیم سے گھبراتے ہوں۔ ہمارے ہر طرف قسم قسم کے خیالات بکھرے ہوئے ہیں اور ہم ان پر اس لئے یقین رکھتے ہیں کیونکہ ہمارا جن لوگوں سے تعلق ہے، وہ سب لوگ ان پر یقین رکھتے ہیں۔

جن تصورات کے ساتھ آئن سٹائن بڑے ہوئے تھے، ان سے اگلی صدی میں آنے والے طلبا کے پاس ایسی فکری رکاوٹ نہیں ہوتی۔ انہیں “معلوم” ہے کہ کوانٹم تھیوری عجیب ہے اور ان کے آس پاس انٹلکچوئل ماحول میں یہ ایک تسلیم شدہ چیز ہے۔ اب کوئی بھی یہ توقع نہیں رکھتا کہ ہم فزکس میں کسی غلط سمت میں آ نکلے ہیں جہاں سے واپس چلے جائیں گے۔

“ہم اس سے زیادہ عجیب دنیا میں رہتے ہیں جتنا اس کے عجیب ہونے کا تصور بھی کر سکتے ہیں” اب یہ فقرہ کسی کو عجیب محسوس نہیں ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئن سٹائن کبھی بھی روایتی مفکر نہیں رہے اور نہ ہی کبھی روایتی فکر کو چیلنج کرنے سے کبھی گھبرائے۔ روایتی تعلیم نظام سے شدید اختلاف رہا۔ کالج سے نکلنے کے بعد انہیں دو سال تک ملازمت نہ ملی اور دو لڑکوں کو ٹیوشن پڑھاتے رہے۔ آئن سٹائن کے والد نے لیپزگ کے فزسٹ فریڈرک اوسٹوالڈ کو خط لکھا، “میرا بیٹا بہت اپنی بے روزگاری سے بہت پریشان ہے۔ اس میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ روز بروز اس کے اچھے کیرئیر کے امکانات ختم ہو رہے ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ ہم پر بوجھ ہے۔ ہم امیر لوگ نہیں ہیں”۔ نہ ہی البرٹ کو اور نہ ہی ان کے والد کو اس کا کوئی جواب ملا۔ 1901 کے آئن سٹائن سے کوئی اتنا متاثر نہیں تھا کہ انہیں ملازمت دے دیتا۔

آخر سوئٹزرلینڈ کے پیٹنٹ آفس میں 1902 میں انہیں مارسل گراسمین کے والد کی سفارش پر تحریری امتحان کے لئے بلایا گیا جس کو پاس کر کے انہیں ملازمت مل گئی۔ ان کا کام ٹیکنیکل پیٹنٹ کی درخواستوں کو پڑھ کر انہیں آسان زبان میں ترجمہ کرنا تھا تا کہ ان کے سپروائزر انہیں سمجھ سکیں۔ انہیں نے اس سال گرمیوں میں آزمائشی بنیاد پر کام شروع کر دیا۔

آئن سٹائن اپنے کام میں اچھے تھے۔ اگرچہ جب انہوں نے 1904 میں پروموشن کی درخواست کی کہ انہیں تھرڈ کلاس کلرک سے سیکنڈ کلاس میں ترقی دے دی جائے تو یہ منظور نہیں ہوئی۔ اس ملازمت سے پہلے تک انہوں نے دو سائنسی پیپر لکھے تھے جو ان کے اپنے خیال میں بے کار تھے۔ اس کے بعد انہوں نے تین مزید پیپر لکھے جن کا فزکس کی دنیا پر قابلِ ذکر اثر نہ تھا۔ اس کے بعد اگلے سال انہوں نے کوئی پیپر نہیں لکھا۔

آئن سٹائن کو پیسوں کی تنگی اور فزکس میں قابلِ ذکر کامیابی نہ ہونے کے باوجود اپنی ملازمت پسند تھی۔ یہ انہیں کام کے بعد “آٹھ گھنٹے کی فراغت” دیتی تھی جس میں وہ اپنے شوق پر کام کر سکیں اور کام کے بعد فزکس کے بارے میں سوچ سکیں۔ اور پھر وہ سال آیا جب ان کی محنت رنگ لائی۔ 1905 ۔۔۔ جب ان کے لکھے تین معرکة الآراء پیپرز نے انہیں تیسرے درجے کے پیٹنٹ کلرک سے پہلے درجے کا فزسٹ بنا دیا۔

ان تینوں میں سے ہر پیپر ہی نوبل پرائز کا مستحق تھا، اگرچہ ان میں سے ایک کو ہی ملا۔ اور یہ تاریخ کی ایک ستم ظریفی ہے۔ آئن سٹائن آج اپنی تھیوری آف ریلیٹیویٹی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں جبکہ کوانٹم فزکس کی مخالفت کی وجہ سے۔ ان کو ملنے والا نوبل پرائز ریلیٹیویٹی پر نہیں بلکہ اس کام پر ہے جو کوانٹم فزکس کی بنیاد بنا۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

پسِ تحریر نوٹ: نوبل کمیٹی کو ایک ہی شخص کو تین انعامات دینے میں کچھ تامل ہو لیکن اس کمیٹی کے کچھ دوسرے ایسے حیران کن فیصلے رہے ہیں جو زیادہ ناقابلِ فہم رہے ہیں۔ فزکس کے انعامات میں اہم کوانٹم تھیورسٹ سومرفیلڈ، کوانٹم تھیوری آف الیکٹرمیگنیٹزم میں بڑا کام کرنے والے فریمین ڈائسن، نیوکلئیر فشن کے کام پر مائیٹنر کو نظرانداز کرنا یا پھر گامو، ڈک اور پیبلز کو کاسمک مائیکروویو بیک گراونڈ ریڈی ایشن کی پیشگوئی کرنے اور وضاحت کرنے پر نہ دینا جبکہ ان کے بجائے آرنو پیزیاس اور رابرٹ ولسن کو ان کو ڈیٹکٹ کرنے پر دے دینا جب انہیں معلوم بھی نہیں تھا کہ انہوں نے ڈھونڈ کیا لیا ہے، اس کی چند مثالیں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply