خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج نے سی ایس ایس کے امتحانا ت اردو میں دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ کوئی پیپر بنانے اور چیک کرنے والا ہے نہ سلیبس ہے تو کیسے ممکن ہے کہ سی ایس ایس کا امتحان اردو میں ہو؟ قابلِ احترام جج صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ ریمارکس بھی دیے ہیں کہ زبانیں فیصلوں سے تبدیل نہیں ہوتیں!
محترم جج صاحب اگر وضاحت فرما دیتے تو بہت سے طالب علموں کا بھلا ہو جاتا کہ فیصلوں سے نہیں تو زبانیں پھر کیسے تبدیل ہوتی ہیں؟ برصغیر پاک و ہند میں انگریزی دفتری زبان اور ذریعہ تعلیم کیسے بنی ہے؟ اور زیادہ اچھا ہوتا اگر جج صاحب یہ بھی فرما دیتے کہ فیصلوں سے کچھ بدلتا بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر کچھ بدلتا ہی نہیں تو فیصلے کیے ہی کیوں جائیں؟
بات اس لحاظ سے البتہ پتے کی ہے کہ:
خرد نے کہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل۔۔۔دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
جب دل و دماغ نے فیصلہ نہ کیا ہو تو عدالتی فیصلوں سے کیا ہوسکتا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں