لبنانی مصورہ، شاعرہ، ادیب “ایتل عدنان”/منصور ندیم

24 فروری سنہء 1925 کو لبنان کے شہر بیروت میں پیدا ہونے والی ایتل عدنان بطور لبنانی و امریکی مصنفہ جو اپنے متنوع اور کثیر الشعبہ کولامو۔ جیسے شاعری مصوری نقاد مضمون نگار کے طور پر ادبی اور فنکارانہ دونوں دنیاؤں میں معروف ہوئیں، ایثل عدنان کا آج عرب دنیا میں گوگل ڈوڈل منایا جارہا ہے، آج کے دن سنہء 1955 میں ایتل عدنان کی مصوری کی پہلا سولو نمائش سان رافیل، کیلیفورنیا میں ہوئی تھی۔ ایتل عدنان کی والدہ روز للی یونانی آرتھوڈوکس مسیحی اور والد اسف قادری ایک سنی مسلمان جو ملک شام کے شہر دمشق میں پیدا ہوئے اور ان کے والد ترک اور والدہ البانوی تھیں، ایتل کے دادا کا تعلق ترک افواج سے تھا ، اہل ثروت و اہل منصب رہے، ایتل کے والد ملٹری میں اعلیٰ عہدے پر اور مصطفی کمال اتا ترک کے کلاس فیلو رہے تھے۔

ایتل عدنان اپنے والدین کے ساتھ یونانی اور عربی دونوں زبانوں نیں بولتی تھی، لیکن پانچ سال کی عمر میں فرانسیسی لبنانی کیتھولک اسکول میں داخلہ لینے پر فرانسیسی اس کی بنیادی زبان بن گئی۔ فرانسیسی انفارمیشن بیورو کے لیے کام کرتے ہوئے، اس نے Ecole Supérieure de Lettres de Beyrouth میں شرکت کی، جہاں اس نے اپنی پہلی نظم  لکھی ۔ 24 سال کی عمر میں ایتل عدنان نے پیرس کا سفر کیا جہاں اس نے پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد اس نے ریاستہائے متحدہ کا سفر کیا جہاں اس نے سوربون، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے اور ہارورڈ یونیورسٹی میں فلسفہ بھی پڑھا۔ ایتل عدنان نے سان رافیل کے ڈومینیکن کالج میں سنہء 1958 سے سنہء 1972 تک فلسفہ پڑھایا، جہاں الجزائر کی جاری جنگ آزادی کے سلسلے میں، اس نے فرانسیسی زبان میں لکھنے میں سیاسی مضمرات کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے اس نے اپنے تخلیقی اظہار کی توجہ بصری فن پر مرکوز کر دی یو آئل پینٹنگز بنانا شروع کر دیں۔ ویتنام جنگ میں ایتل عدنان نے دوبارہ نظمیں لکھنا شروع کیں، ایتل نے امریکا کی کئی یونیورسٹیز میں لیکچرز بھی دیے۔

حالانکہ بعد میں ایتل فرانسیسی کے بجائے انگریزی میں فرانسیسی زبان کے نئے اخبار الصفا کی ثقافتی ایڈیٹر بننے کے لیے واپس لبنان چلی گئیں تھی۔ امریکہ سے لبنان واپس آنے کے بعد بیروت میں فرانسیسی زبان کے اخبار الصفا میں صحافی اور ثقافتی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ اس کے علاوہ ایتل نے اخبار کے ثقافتی حصے کی تعمیر میں بھی مدد کی، کارٹون اور عکاسی بھی کی۔ الصفا میں ایتل کا دور صفحہ اول کے اداریوں کے لیے سب سے زیادہ قابل ذکر تھا، جو اس وقت کے اہم سیاسی مسائل پر تبصرہ کرتے تھے۔ ایتل عدنان نے  اپنے بعد کے سالوں میں کھلے عام ہم جنس پرست کے طور پر شناخت بنائی اور خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کیا، لبنان کی خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد، ایتل عدنان پیرس چلی گئیں، جہاں اس نے ناول Sitt Marie Rose (1977سنہء ) لکھا، جس نے France-Pays Arabes ایوارڈ جیتا۔ فرانسیسی زبان میں لکھا گیا اور کئی زبانوں میں ترجمہ ہونے والا یہ ناول صنف اور سیاست کے باہمی تعلق کا جائزہ لیتا ہے۔

سنہء 1979 میں ایتل عدنان کیلیفورنیا واپس آگئی۔ ایتل عدنان کی شاعری میں حقیقت پسندانہ منظر کشی اور زبان و لسان پر مبنی اور رسمی تجربے کے ساتھ طاقتور استعاراتی اشاریے ملتے ہیں، ایتل کے نثر و نظم جلاوطنی کی نوعیت اور سیاسی، سماجی اور صنفی بنیاد پر ناانصافی کو حل کرنے کے لیے غیر متوقع اور تجرباتی تکنیکوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ ایتل نثر اور شاعری کی بے شمار کتابوں کی مصنفہ ہیں، وہ ایک مصور، مجسمہ ساز اور تبصرہ نگار بھی ہیں، جس کے فن کی بین الاقوامی سطح پر نمائش کی جا چکی ہے۔ ایتل کی شاعری کے کئی مجموعوں میں

Shifting the Silence (2020 سنہء );
Time (2019 سنہء ), (winner of the Griffin Poetry Prize;)
Surge (2018 سنہء);
Night (2016 سنہء );
Seasons (2008 سنہء);
There: In the Light and the Darkness of the Self and the Other (1997 سنہء);
The Spring Flowers Own & Manifestations of the Voyage (1990 سنہء);
The Indian Never Had a Horse (1985سنہء );
Moonshots (1966سنہء ).

اس کے علاوہ Sitt Marie Rose, اور Adnan’s prose includes Of Cities and Women (Letters to Fawwaz) (1993سنہء ) ایتل عدنان کے یہ حقوق نسواں کے خطوط کا ایک سلسلہ ہے، جو فواز طرابلسی جو جلاوطنی میں تھے ان کے کے نام لکھے ہیں۔ جسے Arab American Book Award ایوارڈ بھی ملا۔

عربی زبان میں ایتل عدنان کے یہ ناول ہیں ۔

السیط ماری روز: القاہرہ: الحیاۃ الامۃ لأقصور الثقفۃ، سنہء 2000۔
مدون و نساء: رسائل فواز بیروت: دار الہہار، سنہء 1998۔
کتاب البحر؛ کتاب اللیل کتاب الموت؛ کتاب النکاح ، عابد ازاریح کے ساتھ ۔ بیروت: دار امواج، سنہء 1994۔
السیت میری روز ۔ بیروت: المعاصۃ العربیہ للدراسات و النشر، سنہء 1979

ایتل عدنان کی فرینچ زبان میں بھی کتب شائع ہوئی ہیں سنہء 1960 کی دہائی میں، ایتل عدنان نے عربی خطاطی کو اپنے فن پاروں اور اپنی کتابوں، جیسے Livres d’Artistes میں ضم کرنا شروع کیا۔ وہ الفاظ کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر عربی گرامر سے الفاظ کی نقل کرنے میں گھنٹوں بیٹھ کر یاد کرتی ہیں۔ اس کا فن ابتدائی حروفیہ فنکاروں سے بہت زیادہ متاثر تھا، جن میں عراقی مصور جواد سلیم ، فلسطینی مصنف اور مصور جبرا ابراہیم جبرا اور عراقی مصور شاکر حسن السید شامل ہیں ، جنہوں نے مغربی جمالیات کو مسترد کر کے ایک نئی آرٹ فارم کو اپنایا جو کہ جدید ہونے کے ساتھ ساتھ روایتی بھی تھا۔

امریکا میں امریکی فلمساز میری ویلنٹائن ریگن نے ایتل عدنان کی زندگی کے بارے میں ایک دستاویزی فلم سنہء 2023 میں شروع کی تھی جس کا آغاز “ان کی زندگی کے آخری پانچ سالوں” کے بارے میں کیا گیا تھا، ایتل عدنان کے کام کے ثقافتی اور تنقیدی سیاق و سباق پر ایک پروگرام کیا گیا، جو”ایٹل عدنان: عرب-امریکی مصنف اور آرٹسٹ پر تنقیدی مضامین (سنہء 2002، جس کی تدوین لیزا سہیر ماج اور امل امیرہ نے کی ہے) میں کی گئی ہے۔ ویمن پلے رائیٹس انٹرنیشنل نے عدنان کو خواتین کے ڈرامہ نگاروں کے لیے اپنے سالانہ ایٹل عدنان ایوارڈ سے نوازا گیا”. ایتل عدنان نے RAWI: Radius of Arab-American Writers Incorporated کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ سوسالیٹو اور پیرس میں اپنے ساتھی مصور اور مصنف سیمون فیٹل کے ساتھ رہتی تھیں، جس نے سب سے پہلے سیٹ میری روز کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ایتل عدنان کا انتقال نومبر سنہء 2021 میں ہوا۔ اور آج عرب دنیا میں ایتل عدنان کی خدمات کو گوگل ڈوڈل کے نام سے منسوب کر کے منایا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مآخذات : مختلف عرب ویب سائٹس ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply