سن 1848 تک تمام یورپی طاقتوں کو امریکہ سے نکالا چکے تھے۔ بحرِ اوقیانوس سے بحرالکاہل تک پہنچا جا چکا تھا۔ مقامی امریکی اقوام کو دبایا جا چکا تھا کہ وہ نئے قائم کردہ ملک کے لئے کوئی خطرہ نہیں رہی تھیں۔ ملک کو کسی بھی زمینی حملے سے محفوظ بنایا جا چکا تھا۔ اب پیسے کمانے کا وقت تھا۔
مغربی ریاستوں میں آبادکاری ہوئی۔ 1862 میں ہوم سٹیڈ ایکٹ کے تحت کوئی بھی 160 ایکڑ زمین لے سکتا تھا۔ اس کے لئے معمولی معاوضہ دینا ہوتا تھا اور پانچ سال کاشتکاری کرنا ہوتی تھی۔ اگر آپ جرمنی، سکینڈے نیویا یا اٹلی کے غریب فرد ہیں تو لاطینی امریکہ میں مزارعہ بننے کیوں جائیں گے جب آپ امریکہ میں آ کر آزاد زمیندار بن سکتے ہیں۔
روس سے الاسکا کو 1867 میں خرید لیا گیا۔ اس وقت اس سودے کو “سیورڈ کی بے وقوفی” کہا گیا تھا۔ ولیم سیورڈ وہ وزیر تھے جنہوں نے 72 لاکھ ڈالر کے عوض اس زمین کو خریدا تھا۔ میڈیا نے ان پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی تھی کہ انہوں نے دو سینٹ فی ایکڑ کے حساب سے منجمد برفانی زمین خرید لی تھی۔ لیکن جب 1896 میں یہاں سونا دریافت ہوا تو ذہن تبدیل ہوئے۔ اس سے کئی دہائیوں بعد یہاں سے تیل کے بڑے ذخائر بھی ملے۔
سن 1869 میں براعظم میں ریل کی پٹڑی بچھائی جا چکی تھی۔ ملک کا سفر سکڑ کر ایک ہفتے کا رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ خطرناک سفر کئی مہینے لے جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک بڑا ہوا اور امیر بھی۔ اب گہرے پانیوں کی بحریہ بنانے کا وقت تھا۔ انیسویں صدی میں خارجہ پالیسی تجارت وسیع کرنے اور تنازعات سے دور رہنے پر تھی۔ واحد خطرہ سپین سے تھا۔ اگرچہ اس کو باہر نکال دیا گیا تھا لیکن اس کے پاس ابھی کیوبا، پیرٹو ریکو اور ڈومینکن ری پبلک کے حصے تھے۔
خاص طور پر کیوبا مسئلہ تھا۔ یہ فلوریڈا کے قریب تھا اور نیو اورلینز کی بندرگاہ کی آمدورفت کے لئے خطرہ بن سکتا تھا۔
انیسویں صدی کے آخر تک سپین کی طاقت کمزور پڑ چکی تھی لیکن ابھی بھی یہ باصلاحیت ملٹری فورس تھی۔ 1898 میں امریکہ نے سپین سے جنگ کا طبل بجا دیا۔ اسے شکست دی۔ کیوبا، پیورٹو ریکو، گوام اور فلپائن حاصل کرلئے۔
اسی سال اس نے بحرالکاہل میں ہوائی کے جزائر کو بھی ضم کر لیا۔ 1903 میں امریکہ نے معاہدہ کر کے پانامہ نہر کے حقوق حاصل کر لئے۔
امریکہ اب پوری طرح ایک بڑی طاقت کے طور پر دنیا کے نقشے پر یورپی طاقتوں کے مقابلے پر نمودار ہو چکا تھا۔
دسمبر 1907 میں امریکہ سے 16 جنگی بحری جہاز نکلے۔ ان پر سفید رنگ تھا جو نیوی کے لئے امن کا رنگ ہوتا ہے۔ اس کو گریٹ وہائٹ فلیٹ کہا گیا۔ اگلے چودہ ماہ میں یہ برازیل، چلی، اٹلی، چین، مصر، جاپان، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ سمیت دنیا میں بیس جگہوں پر لنگرانداز ہوئے۔
ان میں سے سب سے اہم جاپان تھا جسے پیغام دیا گیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو بحراوقیانوس کی بحریہ کو بھی اس سمت بھیجا جا سکتا ہے۔ دنیا کے گرد یہ سفر اپنی طاقت کی نمائش کا تھا اور اس کو دنیا کی ہر بڑی طاقت نے نوٹ کیا۔
امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے اپنی آخری خطاب میں کہا تھا کہ “کسی سے جذباتی دشمنی نہیں پالنی اور کسی سے جذباتی دوستی نہیں کرنی۔ بیرونی دنیا میں کسی بھی مستقل اتحاد سے بچنا ہے”۔ اور 1941 تک تقریباً ایسا ہی رہا۔
دوسری جنگِ عظیم نے سب بدل دیا۔ امریکہ نے جاپان پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور جاپان نے اس کا جواب امریکہ پر حملے سے دیا۔ اور اس نے امریکہ کو دوسری جنگِ عظیم میں باقاعدہ گھیسٹ لیا۔
جب یہ جنگ ختم ہوئی تو یورپی طاقتیں تباہ ہو چکی تھیں۔ اپنے جغرافیہ کی وجہ سے یہ محفوظ رہا تھا۔ اور اب سب سے بڑی ملٹری اور اکنامک پاور تھا۔ یورپ کے شہر اور آبادیاں ملبے کے ڈھیر تھیں اور ان کی معیشت بھی۔ جاپان کچلا جا چکا تھا۔ چینی خانہ جنگی کا شکار تھے اور تباہ حال تھے۔ روسی تو کیپٹلزم کے کھیل سے خود ہی آؤٹ ہو چکے تھے۔
عالمی نقشے میں اب امریکہ سپرپاور تھا۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں