اور میں نم دیدہ نم دیدہ (32،آخری حصّہ) -ابوبکر قدوسی

ہم اپنے مقررہ وقت پر جدہ میں واقع دار السلام کے شوروم پر پہنچ گئے ۔ فیصل علوی دارالسلام کے مدیر جناب عبدالمالک مجاہد کے داماد ہیں اور مولانا محمد ادریس فاروقی رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند ہیں ۔ مولانا محمد ادریس فاروقی معروف تاریخی شخصیت مولانا عبدالمجید سوہدروی رحمہ اللہ کے پوتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ خود بھی ایک صاحبِ علم و بصیرت انسان تھے ۔ آپ کی ہمارے والد مکرم سے پرانی دوستی تھی مجھے اپنے والد مکرم کا شعوری ساتھ آخری دو تین برس ہی حاصل ہو سکا تھا جب کالج سے آتا تھا تو کچھ دیر مکتبے پر رک کر گھر جاتا ۔ یہ تمام تر عرصہ مشکل سے تین برس کا رہا ہوگا ۔ اس دوران والد مکرم کے پاس ان کے جو احباب ملاقات واسطے آتے ، ان کا تعارف حاصل رہتا اور والد مکرم کے سبب اس بات کا بھی اندازہ ہوتا کہ ان کا کس سے کیسا تعلق ہے ۔ مولانا ادریس فاروقی ان دنوں کوئٹہ ہوتے تھے اور سال میں جب کبھی ایک آدھ بار پنجاب تشریف لاتے تو والد مکرم کو ملنے کے لیے مکتبہ خصوصیات ضرور آتے ۔ والد مکرم جس انداز میں اور محبت سے ان کے ساتھ پیش آتے اور جیسے خود مولانا والد مکرم کے ساتھ عزت و احترام و عقیدت سے پیش آتے اس سے مجھے ہمیشہ ہی یہ اندازہ رہا کہ آپ کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔
سو وراثت میں ملی ہوئی اس محبت کے سبب میں بھی فیصل علوی کو ملنے جا رہا تھا ۔ دور سے دیکھا کہ آپ ادارے کے کاؤنٹر پر ہی تشریف فرما تھے ۔ ہم دونوں بھائی اندر داخل ہوئے تو فیصل نے کھلی باہوں سے ہمارا استقبال کیا ۔ پروگرام یہ تھا کہ دار السلام پر کچھ دیر رک کر قریب ہی ہم نے جالیات کے دفتر جانا تھا جہاں کچھ دیر طلباء سے گفتگو تھی ۔ سو فیصل کے پاس بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کرتے رہے ۔ دارالسلام کی کتابیں دیکھتے رہے اور کچھ دارالسلام کے لیے دعائیں کرتے ہوئے عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا ۔ قریبی مسجد میں نماز پڑھ کے ہم گاڑیوں میں بیٹھے اور برادر عبدالقیوم کی معیت میں ہم جالیات کے دفتر کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جو جالیات جدہ میں تعینات ہیں اور ہمیں لینے کے لیے دارالسلام آئے ہوئے تھے ۔ جالیات سعودی حکومت کا ایک دینی پروجیکٹ ہے جو تبلیغ دین کی گراں قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔ خاص طور پر غیر مسلم تارکین وطن جو روزگار کے لیے سعودی عرب تشریف لاتے ہیں ان میں تبلیغ دین کے حوالے سے اس کی بہت زیادہ خدمات ہے اور بہت سے غیر مسلم ان کی دعوت اور سعودی عرب کے ماحول سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے ہیں ۔ دفتر میں داخل ہوئے تو برادر عبد القیوم نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں سے تعارف کروایا اور اس تعارف کے بعد ہم اس کمرے میں چلے گئے جہاں پر طلباء بیٹھے تھے ۔ چونکہ ہمارے مصروفیت شدید تھی اور یہاں سے ہم نے مزید آگے ایک دعوت میں جانا تھا اس لیے میں نے قریباً پندرہ منٹ ہی گفتگو کی اور بات کو سمیٹ دیا ۔ طلباء نے کچھ سوالات کیے اور یوں یہ محفل برخاست ہوئی ۔
جب ہم جالیات کے دفتر سے نکلے تو باہر بارش ہو رہی تھی موسم خوشگوار تھا اور اندر کا موسم بھی ۔۔ گو صبح سے مسلسل مصروفیت تھی لیکن احباب کی محبتوں نے جیسے بہار کا موسم دل و دماغ پر طاری کر رکھا تھا ۔
اب ہم سب دوستوں نے عبدالخالق کے گھر جانا تھا میں تھوڑا تھوڑا مجھے خاصہ اختیار تھا مجھے خود بھی عبدالخالق سے ملنے کا اشتیاق تھا کہ
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
شاید اس بات کو بیس برس ہو گئے ایک دبلا پتلا نوجوان مکتبہ قدوسیہ آنا شروع ہوا ، مجھ سے عمر میں کچھ ہی کم تھا ۔یہ عبدالخالق تھے ۔ جو عمر الفاروق کے چھوٹے بھائی ہیں ۔
اس خاندان سے میرا تعلق قریبا اٹھائیس برس سے تھا ۔ انیس سو ننانوے میں میں عمرہ کرنے کے لیے آیا تو جہاں بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوئی انہی میں ایک عمر الفاروق تھے ۔ جو ان دنوں جالیات کے دفتر میں ملازمت کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ کتابوں کا کاروبار بھی ۔ ان کی تب جدہ میں دارالمسافر کے نام سے دکان تھی یوں میرے ہم پیشہ تھے ۔ اس کے بعد عمر الفاروق سے تعلق جڑا ہی رہا کئی بار آپس میں کاروباری معاملات بھی ہوئے ۔ ہم سعودی عرب ان کو کتابیں بھی بھیجا کرتے تھے گو اب وہ صورت نہیں رہی ۔
جب عمر الفاروق سے ہمارا تعلق بنا تو ان کے چھوٹے بھائی عبدالخالق لاہور میں سی ایس ایس کر رہے تھے ۔ عمر الفاروق کو شوق تھا کہ ان کا بھائی بڑا افسر بنے ہیں اور عبد الخالق شاعرانہ مزاج کا حامل ۔ اکیڈمی سے پڑھ پڑھا کے موصوف مکتبہ قدوسیہ آ جاتے اور شام ڈھلے تک مجلس جمی رہتی تب موسم خوش گوار ہوا کرتے تھے اور دلوں میں تعلق مضبوط ۔ وقت تب بھی اتنا ہی تھا ، دن کے چوبیس گھنٹے ہی ہوا کرتے تھے راتیں ایسے ہی سردیوں کی لمبی اور گرمیوں کی چھوٹی ہوتی تھی ، لیکن کچھ الگ تھا جو اب نہیں ہے ۔
وقت میں برکت ہوتی تھی ایک دوسرے کے لیے وقت ہوتا تھا۔ کتنی مدت ایسی گزری کہ عبدالخالق روزانہ قدوسیہ پر آکر بیٹھ جاتے دنیا جہاں کی باتیں کرتے ہیں ۔ عبدالخالق افسر تو نہ بنے سعودی عرب آ گئے ۔ سعودی عرب آنے کے بعد عبدالخالق کو اللہ تعالی نے کاروبار میں خاصی کامیابی دی ،کچھ سیاست سے بھی شغف ہو چکا ہے سو پچھلے دنوں جب میاں نواز شریف لندن کے ” فراری کیمپ ” سے واپس آئے تو عبدالخالق بھی ان کے طیارے میں ان کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ ہم تو اپنے دوستوں کی خوشی میں خوش رہتے ہیں کہ
جگ تے توں جیویں تے تیری آس تے میں جیواں
عبدالخالق کے گھر جاتے ، بیتے ماہ و سال کسی فلم کی طرح میرے سامنے چل رہے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں ہم ان کے گھر تھے ۔جہاں مکرم عمر الفاروق اور برادر مکرم عبدالماجد بھی موجود تھے ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ عبدالخالق اور برادران ایک بڑے گھر میں رہتے ہیں ۔ میرا مزاج ہمیشہ سے ایسا ہے کہ دوستوں کو خوش حال دیکھ کر خوش ہوتا ہوں ، ان کی جیب بھری ہوتی ہے تو خود کو امیر سمجھتا ہوں ۔ یہی خوشی مجھے عبدالخالق کا گھر دیکھ کر ہوئی ، برادر عمر الفاروق سے بہت دن بعد ملاقات ہوئی سو بیٹھے گزری باتیں یاد کرتے رہے ۔ عبدالخالق نے کافی محبت کرنے والے دوست اکٹھے کر رکھے تھے ۔ جن میں مسلم لیگ ن کے مقامی سعودی عرب کے رہنما بھی شامل تھے ۔ گو رات گیارہ بجے تک خوب مجلس جمی لیکن ہجوم دوستاں کےسبب مجھے عبدالخالق سے براہِ راست گفتگو کا موقع کم ہی ملا ۔ ایک تو کافی زیادہ احباب جمع تھے اور دوسرے وہ خود میزبان تھے اور میزبانی میں تندہی سے مصروف۔
ہمیں ساڑھے بارہ بجے ایئرپورٹ کے لیے نکلنا تھا اور ادھر گیارہ بج رہے تھے سو احباب سے رخصت چاہی ۔۔۔
ابوالحسن گاڑی چلا رہے تھے اور میں اس رات کے اندھیرے میں گزری محبتوں کے سحر میں مبتلاء تھا ۔ کچھ ہی دیر میں ان کے گھر پہنچ گئے ، سامان گاڑی میں رکھا ۔ ابوالحسن کے دونوں بڑے بچے سوئے ہوئے تھے اور صرف چھوٹا سعد جاگ رہا تھا ۔ ہم ایئرپورٹ کے لیے نکل رہے تھے وہ بھی ساتھ ہمیں چھوڑنے جا رہا تھا ۔ ۔ دل پر عجیب اداسی نازل ہو رہی تھی ۔
ایئر پورٹ پر پہنچے تو میں نے ابوالحسن علی کو گلے سے لگایا ، پردیس کے رہنے والے بھی عجیب ہی دل کے قریب ہوتے ہیں کہ فیض نے کہا تھا
دور جا کے قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
معلوم نہیں یہ دوریاں کس سبب قربتوں میں بدل جاتی ہیں ۔
ائیر پورٹ پر پہنچ کر سامان سمیٹا ، اور تمام مراحل سے فارغ ہوئے اور انتظار گاہ میں جا قیام کیا ۔ اس عارضی قیام گاہ میں شدید سردی تھی ۔ دراصل باہر بارش کا موسم تھا اور اندر تیز ائیر کنڈیشنر چل رہے تھے ۔ ہم نے سعودی عرب کے ماحول کے مطابق گرمیوں والے کپڑے پہنے تھے سو اس رات نے بیمار کر دیا ۔
اب یہ معلوم نہیں کہ یہ جدائیوں کے دکھ تھے کہ اندر اتری برسات کے زخم ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم شد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply