مشترکہ خاندانی نظام۔۔۔بشریٰ نواز

ہمارا معاشرہ بکھرتا جا رہا ہے جس طرح معاشرہ انتشار کا شکار ہے اسی طرح گھر بھی ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں ،اسی وجہ سے استحکام میں کمی آتی جا رہی ہے، اتفاق ایک ایسی طاقت ہے جو افراد کو اکٹھا کرکے ایک مضبوط چٹان بنا دیتی ہے اگر کوئی توڑنا بھی چاہے تو توڑ نہیں سکتا ۔

اب ہو کیا رہا ہے اور اسکی وجوہات کیا ہیں، اس کی طرف چلتے ہیں ۔۔ایک باپ کی اولاد جب ایک دسترخوان سے پل کر بڑی ہوتی ہے تو شادی ہونے کے بعد ہر بچہ اپنا الگ گھر بناتا ہے اور اس طرح دوسرے بھائی بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر الگ تھلگ زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ ٹوٹ پھوٹ تب تک ہوتی رہتی ہے جب تک آخری بھائی کی شادی نہیں ہوجاتی ۔

ہمارے مشاہدے میں ایسے لوگ بھی آۓ ہیں جو اپنے والدین کی واحد اولاد ہوتے ہیں اور جب انکی شادی ہوجاتی ہے تو وہ بھی اپنے والدین کو تنہا چھوڑ کر الگ زندگی بسر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ہم نے ایسے   افراد کو بھی  دیکھا ہے جو اپنے ہی والدین کو گھر سے باہر پھینک دیتے ہیں ۔ اس معاملے میں اب بڑا قصور وار کون ہے، کیا تعلیم ہے یا معاشرہ؟۔۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ہوسکتا ہے اس میں معاشرے اور تعلیم کا بھی کچھ حصہ ہو لیکن ہماری نظر میں سب سے زیادہ قصور وار والدین ہوتے ہیں ،اگر اماں جان نے اپنی ساس اور سسر کے ساتھ زندگی گزاری ہوگی تو انکی اولاد کبھی اپنے والدین کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گی، وہ لڑکی جو بہو بن کر نئے گھر میں آئی، کیا اس نے اپنے والدین کے ایک اکٹھے گھر میں پرورش پائی لیکن وہی بچی جب بہو بنی اپنے گھر کا مطالبہ کر دیا، اس علیحدگی میں سب سے  بڑا فساد ساس بہو کی لڑائی ہے جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتیں اور پھر ایک ہنستا گھربستا  میدان جنگ بن جاتا ہے، پتہ چلا وہ اپنے میاں کو لے کر الگ ہوگئی۔۔

اب یہاں ایک بات نہایت باریکی کی ہے اگر آنے والی بہو ایک اچھے اور بڑے خاندان سے آئی ہوگی تو کبھی گھر نہیں توڑے گی لیکن اگر وہ ایک بالکل چھوٹی فیملی سے آۓ گی تو اسکا ظرف بھی ویسا ہی ہوگا۔ ہماری سوچ کا کہاں کہاں بیڑہ غرق نہیں ہوا ،بیٹی کی شادی کہاں کرنی ہے، چھوٹی فیملی ہونی چاہیے، اپنا دل چھوٹا تھا انتخاب چھوٹا کیا اور بڑا اور مضبوط گھر کہاں سے وجود  میں آۓ گا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ذرا مضمون کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں بڑے خاندان میں اگر خدا نخواستہ کوئی پریشانی  آ جائے، گھر کے سبھی لوگ بھاگ دوڑ کر کے جلد مسائل کو حل کر لیتے ہیں، جبکہ چھوٹی اور الگ فیملی میں پڑا ہو ا مریض بھی مصیبت کا شکار ہو جاتا ہے، اتفاق اور جوائنٹ فیملی اللہ کی رحمت ہے جبکہ  الگ تھلگ اور چھوٹی فیملی کمزور ترین فیملی ہے جس کا جی چاہے،جسے چاہے  دھمکائے ڈراۓ، ہمیشہ اپنے مرکز سے جڑے رہنے والے لوگوں کا برادری اور معاشرے پہ رعب اور دبدبہ رہتاہے، کوئی گروہ   اس طرف منہ نہیں کرتا لہذا میں اپنی بہنوں سے ایک ہی گزارش کروں گی، اپنے بچوں کو اتحاد اور اتفاق کی نصیحت کرتے رہا کریں، اس بات کا احساس تب زیادہ ہوتا ہے جب اپنے لخت جگر ہمیں چھوڑ کر دور گھر جا کر انجان سی زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں، یہ تبھی ممکن ہے، جب ہمارا ظرف  بڑا اور برداشت زیادہ ہوگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply