جنوری کی سرد رات تھی۔ رشکئی انٹر چینج سے ہم موٹر وے پر ہو لیے۔ گاڑی میں ہیٹر چل رہا تھا اور موٹر وے کا سفر اتنا آرام دہ اور پرسکون تھا کہ نیند کا غلبہ ہونے لگا۔ اونگھ سے بچنے کے لئے گلاس ونڈوز نیچے کیں لیکن پھر سردی سے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ طے یہی پایا کہ گاڑی سائیڈ پر کھڑی کر کے کچھ دیر آرام کیا جائے۔ پچھلی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا اور دونوں گاڑیاں سائیڈ پر پارک کیں۔ رات کے دو بجے روڈ بالکل ویران پڑا تھا لہذا ہم مزے سے سوئے۔
کوئی گھنٹہ بھر بعد پولیس سائرن کی آواز سے ہماری آنکھ کھلی۔ دیکھا تو یہ موٹر وے پولیس کی گاڑی تھی۔ ایک دوست اتر کر ان کے پاس گئے۔ وہ کوئی تین ستاروں والے آفیسر تھے۔ کہنے لگے کہ آپ یہاں گاڑیاں پارک نہیں کر سکتے۔ اگر سونا ہی ہے تو جلد سے جلد موٹر وے چھوڑ دیں۔ لہذا ہم ایک دفعہ پھر سے محو سفر ہوئے۔
اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ ہم جو اتنے ٹیکس دیتے ہیں موٹر وے پر تو یہ صرف پولیس کی مہنگی گاڑیاں خریدنے واسطے ہے۔ ورنہ یہ لوگ سوائے چالان فارم بھرنے کے اور کچھ نہیں کر رہے۔ رات کے تین بج رہے تھے۔ پیچھے علاقہ غیر سے ہم لوگ آ رہے تھے۔ دو مشکوک گاڑیاں لینڈ کروزر اور ویگو ہمارے پاس تھیں۔ جب کہ ان میں بندے بھی صرف اتنے تھے کہ ایک گاڑی میں بھی سما سکتے تھے۔ اور پھر اتنی رات گئے ہم ویران روڈ پر کیوں کھڑے تھے؟ جب کہ انہوں نے پوچھنا مناسب ہی نہ سمجھا کہ یہاں کیا کر رہے ہو؟ کہاں سے آ رہے ہو؟ کیا لے جا رہے ہو؟ بلکہ انہوں نے تو گاڑی سے اترنا ہی اپنی شان کے خلاف جانا۔
اور یہی کچھ صورتحال اب سامنے آ رہی ہے کہ جناب سی سی پی او صاحب فرما رہے ہیں کہ وہ روڈ رات کو سفر کے لئے مناسب نہیں تھا سو اس خاتون کو وہاں سفر نہیں کرنا چاہیے تھا۔
محترم ! آپ ایک ذمہ دار محکمے کے آفیسر ہیں نا کہ سائیں نائی کے حمام کے ایک بین الاقوامی سطح کے دانش ور۔ اگر وہ روڈ اچھا نہیں تھا اور سکیورٹی رسک تھا تو اسے کور کرنا کس کا کام تھا؟ آپ کے اس بیان سے اندازہ ہو رہا ہے کہ غلطی کس کی ہے؟
غلطی واقعی خاتون کی تھی۔ نہ وہ اتنی رات گئے اکیلے سفر کے لئے نکلتیں اور نہ ہی کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بنتیں۔ قصور واقعی حوا کی بیٹی کا ہے۔ انہیں اندازہ نہ ہو پایا کہ یہ کافروں کا ملک فرانس نہیں بلکہ مدینہ کی عظیم مسلم ریاست ہے۔ جہاں قصور صرف اور صرف مظلوم کا ہی نکلتا ہے۔ یہ وہ فلاحی ریاست ہے جہاں کا پولیس آفیسر خود اعتراف کر رہا ہے کہ غلطی متاثرہ خاتون کی ہے۔
سوچتا ہوں، کیا خان صاحب کی طرح اب ساری حکومتی مشینری ہی صرف خطروں سے آگہی کے لئے رہ گئی ہے؟
آدھا جرم تو عورت کا نکل ہی آیا ہے۔ دعا کیجیے، مجرم بھی اسی کے آ شنا نکلیں تا کہ ریاست مدینہ کا تو بھرم رہ جائے۔ اور مجھے خان صاحب اینڈ کمپنی سے یا ان کے بھرتی کئے گئے افسران سے بالکل بھی گلہ نہیں کہ ان کی کار کردگی روز اوّل سے ہم پر عیاں ہے۔ مجھے تو اس بھولی عوام پر رونا آ رہا ہے جو سارا الزام مظلوم خاتون کو دے رہے ہیں۔ مجھے اپنی یونیورسٹیز سے، اپنے مدرسوں سے، اپنے سکولوں سے اور اپنی مساجد کے منبر سے گلہ ہے جو آج تک ہمیں یہ نہ سکھا سکے کہ مظلوم کے ساتھ ہمدردی کی جاتی ہے نا کہ اسے سر بازار جوتیاں ماری جاتی ہیں۔
کیا آپ لوگوں کو اندازہ ہے ہمارے اس رویے سے ان خاتون کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟ جسے آج ہماری ہمدردی کی ضرورت تھی ہم اسی پر طنز کے تیر برسانے لگے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کے اس رویے سے وہ ظالم درندے کتنے خوش ہوتے ہوں گے؟
اگر آپ کو دوسروں کی عورتوں سے خدا واسطے کا بیر ہے تو بھی کوشش کیجیے کہ مجرموں کی طرف داری مت کیجیے۔ مجھے تو ان خاتون سے اس لئے ہمدردی ہے کیوں کہ وہ میری بہن تھیں۔ آپ کو بھی لازمی درد ہو گا جب آپ کی بہن کے ساتھ ایسا کچھ ہوگا۔ اور یقین جانیے اگر آپ نے ایسے ہی سازشی تھیوریوں میں سر دئیے رکھا تو وہ دن دور نہیں جب آپ کو بھی رونا پڑے گا، لیکن پھر پوری قوم بھی آپ پر اور آپ کی عورتوں پر صرف ٹھٹھے ہی اڑائے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں