لیاری کی شناخت۔۔۔۔ذوالفقار علی زلفی

کراچی میں لیاری کا حوالہ ہمیشہ بلوچ رہا ہے ـ اس کی اہم ترین وجہ یہاں کی سیاسی ثقافت میں بلوچوں کا فعال کردار ہے ـ پہلی بلوچ سیاسی تنظیم “بلوچ لیگ” یہاں بنی ـ عہد ساز طلبا تنظیم “بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن” کی پیدائش یہاں ہوئی ـ جدید بلوچی ادب کی ابتدا جس نے بعد میں ایک مؤثر تحریک کی شکل اختیار کر لی، لیاری کی مٹی سے ہوئی ـ پہلی تعلیمی تحریک شروع ہوئی تو “بلوچ اسکول” کی عمارت کھڑی کی گئی، اسٹریٹ اسکول کلچر کا ظہور معروف صحافی نادر شاہ عادل اور پروفیسر ن م دانش کے توسط سے “بلوچ ٹیوشن سینٹر” سے ہوا ـ

برطانوی دور میں گبول (بلوچ) خاندان ہو یا قیامِ پاکستان کے بعد ہارون فیملی (میمن) یا بعد میں بھٹوز (سندھی) انہوں نے لیاری میں سیاست کرنے کے لیے بلوچ مطالبات پر ہی توجہ دی اور ان کے مطابق پالیسیاں ترتیب دیں ـ پیپلز پارٹی کا مقبول عام ترانہ “دل ءَ تیر بہ جن” جس کی تخلیق لیاری میں ہوئی، اپنی ساخت میں بلوچی ہے ـ حتیٰ کہ مہاجر سے متحدہ میں تبدیل ہونے کے بعد الطاف حسین نے بھی لیاری میں قدم جمانے کے لیے بلوچستان کے معروف گلوکار عارف بلوچ کے فن کو استعمال کیا ـ تحریک انصاف کو بھی شکور شاد اور ناصر کریم بلوچ کی ضرورت پیش آئی ـ بلوچ و سندھی قوم پرستوں کا جھکاؤ واضح ہے ـ کراچی بھر میں پھیلے بلوچوں کا سیاسی و ثقافتی قبلہ ہمیشہ سے لیاری رہا ہے ـ بقول بلوچ دانش ور ڈاکٹر شاہ محمد مری “لیاری بلوچوں کا کریملن ہے” ـ

جنرل ضیاالحق انتظامیہ نے پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لیے انور بھائی جان کے “بلوچ اتحاد” کو سپورٹ کیا جبکہ جنرل پرویز مشرف کی فوجی اسیٹبلشمنٹ نے بلوچستان کی سیاست کو لیاری بدر کرنے کے لیے عبدالرحمان بلوچ کی “بلوچ الائنس” میں روح پھونکنے کی کوشش کی ـ

جنرل پرویز مشرف بھی جنرل ضیاالحق کی طرح ناکام رہے ـ جنرل کیانی کے دور میں عزیر بلوچ سامنے آئے ـ اسٹبلشمنٹ نے پینترا بدل کر عُزیر بلوچ کے ذریعے لیاری کی شناخت پر وار کیا ـ یعنی نہ رہے بلوچ نہ رہے گا بلوچستان ـ

عزیر بلوچ گینگ نے “ڈائیورسٹی” کے نظریے کو فروغ دیا ـ گینگ نے پروپیگنڈہ کیا کہ لیاری وسیع اللسان خطہ ہے اس لیے لیاری کی شناخت کا حوالہ بلوچ نہیں ہے ـ عزیر بلوچ گینگ کے دو مقاصد تھے ـ اول: گینگ کو لیاری کے غیر بلوچ علاقوں تک پھیلانا ـ دوم: لیاری کی بلوچ شناخت کو مسخ کر کے بلوچستان کے ساتھ سیاسی و ثقافتی رشتوں میں دراڑ ڈالنا تاکہ یہاں کی سیاست سے مزاحمت کے عنصر کو ختم کیا جا سکے ـ

عزیر بلوچ گینگ ہو یا ارشد پپو گینگ کراچی شہر میں ان کی شناخت گو کہ بلوچ ہی رہی مگر “ڈائیورسٹی” کے نظریے کے ذریعے انہوں نے بالخصوص عزیر بلوچ نے لیاری کے پشتون، میانوالی اور کچھی میمن علاقوں میں کسی حد تک اپنے پاکٹس بنا لیے ـ

عزیر بلوچ گینگ نے بلوچ قوم پرست سیاست کو شجرِ ممنوعہ بنانے کی سرتوڑ کوشش کی ـ قوم پرست سیاسی کارکنوں پر قاتلانہ حملے کیے گئے، بعض کو مارا پیٹا گیا، بلوچستان آپریشن کی مخالفت میں کی گئی چاکنگ مٹائی گئی ـ لیاری کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی فوجی جنرل یعنی جنرل کیانی کی بڑی بڑی تصویریں لگائی گئیں ـ گینگ نے پیپلز پارٹی کے غریب جیالے (بلوچ) کو بھی دیوار سے لگا کر اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے میانوالی کمیونٹی کے امرا کو آگے جگہ دی ـ اس پالیسی نے مزاحمتی جیالوں اور قوم پرستوں دونوں کے راستے مسدود کر دیے ـ

جنرل راحیل شریف کے دور میں کراچی کو رینجرز کے حوالے کیا گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی بوجوہ لیاری سے گینگ کا صفایا کرنا پڑا ـ ایک دہائی سے بھی زائد عرصے تک قائم رہنے والی گینگ آمریت نے لیاری میں سیاست کا کچومر نکال دیا تھا ـ گینگ کے منظرِ عام سے ہٹتے ہی سیاسی خلا واضح ہوگیا ـ

سیاسی خلا کو کراچی بھر میں پھیلے نت نئے این جی اوز نے بھرنے کی کوشش کی ـ این جی اوز کا لیاری کی سیاسی ثقافت سے تعلق نہیں ہے ـ انہوں نے عزیر گینگ کے مستعار لیے ہوئے “ڈائیورسٹی” کے نظریے کو لے کر سماج کو غیرسیاسی بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے ـ مقابلہ فی الوقت یک طرفہ ہے، اس لیے لیاری مختلف قسم کے این جی اوز کا مینا بازار بن چکا ہے ـ

لیاری کو غیرسیاسی بنانے کا عمل آج بھی زور و شور سے جاری ہے ـ تقریباً تمام این جی اوز یہی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ لیاری کا حوالہ بلوچ شناخت نہیں ہے ـ مقصد واضح ہے، لیاری کو اس کی مزاحمتی تاریخ سے بیگانہ کر کے اسے بے شناخت کرنا اور بلوچستان کے ساتھ اس کے دم توڑتے سیاسی و ثقافتی رشتے کا مکمل قلع قمع کرنا ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

نوبت بہ اینجا رسید اچھے بھلے پڑھے لکھے لیارین بھی معصومیت سے پوچھتے ہیں “کیا واقعی لیاری کراچی شہر میں بلوچ سیاست و ثقافت کا مرکز ہے؟” ـ دلچسپ بات یہ ہے شہر کے دیگر علاقوں کے افراد آج بھی لیاری کو بلوچ کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ لیاری کا پڑھا لکھا این جی او زدہ غیرسیاسی نوجوان بضد ہے لیاری ایک ملٹی کلچر خطہ ہے ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply