سرخ اور سیاہ/ڈاکٹر مختیار ملغانی

یہ فرانسیسی ادیب سٹینڈال کا ناول ہے جو 1830 ء میں لکھا گیا ۔
سٹینڈال کو سمجھنے کیلئے ان کے فلسفیانہ مضامین کو پڑھنا ضروری ہے، محبت پر اپنے ایک مضمون میں انہوں نے آبگینے کا نظریہ پیش کیا، انگریزی میں اسے theory of crystalization کہتے ہیں۔ لفظ ،کرسٹل، کو اردو رسم الخط میں لکھنا کہیں نا کہیں بصارت و سماعت کو چبھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، اس لئے یہاں لفظ آبگینہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

سٹینڈال نے یہ نظریہ نمک کی ایک کان کے مشاہدے کے بعد پیش کیا، درخت کی ٹوٹی ہوئی خشک ٹہنیاں اس کان کے اردگرد بکھری پڑی ہیں ، سردیوں کے موسم میں ان ٹہنیوں کو نمک کے آبگینے اوڑھ لیتے ، ہوا چلتی ، آبگینے خشک ہوتے تو مردہ اور بدصورت ٹہنی کہیں نظر نہ آتی بلکہ اس کے اوپر دودھیا رنگ کے آبگینے ایسی خوبصورت اور چمکتی تصویر دکھاتے گویا کہ کسی بچے کا کھلونا ہیں، سٹینڈال نے اسے محبت میں مبتلا شخص کے ذہنی میٹامارفوسز سے تعبیر کیا کہ محبوب کی بدصورتی عاشق کو نظر نہیں آتی بلکہ عاشق اپنے محبوب میں وہ خوبیاں ڈھونڈھ لیتا ہے جو محبوب کی ذات کا حصہ ہی نہیں ہوتیں، انسان اپنے ذہن کے دھوکے میں ایک بے جان ٹہنی کو چمکتا موتی سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ دھوکہ فرد کی نفسیات کو لتاڑتے ہوئے اس کی اور اس کے اقارب کی قسمت پہ اثر انداز ہوتا ہے، ادب اور سماج کی پوری ساخت اس دھوکے کے زیرِ اثر ہے اور رہے گی۔

سٹینڈال کلاسیکی ادیب تھے اور انسانی رویوں کی نفسیات ان کا پسندیدہ مضمون تھا، رومانوی ادیبوں کے ہاں روح اور جسم کی منزلیں مختلف ہوتی ہیں جس سے ایک نئی ماورائی حقیقت جنم لیتی ہے لیکن کلاسیکی مصنف روح اور جسم کو اکٹھا دیکھتا ہے، ان کی ایک ہی سمت اور منزل طے کرتا ہے۔

ناول، سرخ اور سیاہ، سٹینڈال کے ادبی سفر کا شاید سب سے اہم ناول ہے، یہ ایک غریب لڑکے ، جولیئن ، کی کہانی ہے جو بڑھئی کا بیٹا ہے ،یعنی ایسا نوجوان جس کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں، اور ایسے آرکیٹائپس کا عمومی انجام ٹریجڈی ہے، چرچ میں خدمات کی بدولت پڑھنا لکھنا سیکھ چکا ہے، لاطینی زبان بھی جانتا ہے، غریب ہے لیکن خواب بڑے ہیں، وسائل نہ ہونے کے باوجود غربت و ذلالت کی دلدل سے نکلنا چاہتا ہے، یہی تضاد اور بے چینی اسی ناول کی بنیادی بحث ہے۔

یہ دور نپولین کے بعد کا فرانسیسی معاشرہ ہے، نوجوانوں کی اکثریت سوشل سٹیٹس سے محروم ہے مگر ماضی قریب کا زعم انہیں موجودہ حقیقت کی بدشکلی کو قبول نہیں کرنے دیتا کہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ستائیس اٹھائیس سال کا آدمی فرانسیسی فوج کا مارشل تھا اور اس کے ارد گرد کئی نوجوان کرنل و جرنل کے عہدے پر فائز دنیا کی تقدیر بدل رہے تھے اور یہ کیسے ہوگیا کہ آج مے خانے میں اتنی بھی میسر نہیں کہ ہونٹ تر کیے جا سکیں ۔

نپولین کا ڈنکا اس کی موت کے کئی دہائیوں بعد بھی نوجوانوں کے دل میں بجتا رہا، یہ بلاشبہ اس کی سحرانگیز شخصیت تھی کہ ہر نوجوان اس کے قرب کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا اور اپنی جان دینے کو تیار تھا، نپولین کا قریبی نوجوان ساتھی جنگ میں دونوں ٹانگوں سے محروم ہوا اور خون بہہ جانے کی وجہ سے زندگی کے آخری لمحات میں تھا، نپولین کو اطلاع دی گئی، وہ بھاگتا ہوا آیا، ساتھی کو گلے لگایا اور پوچھا کہ مانگو جو کچھ مانگنا چاہتے ہو، تمہاری ہر خواہش کی تکمیل کی جائے گی، اس نوجوان نے کہا، بس ایک ہی خواہش تھی کہ اپنی زندگی میں اپنے محبوب مارشل نپولین کی فتوحات کا جشن منا سکوں ، افسوس زندگی نے مہلت نہ دی، اس کے علاوہ اور کسی چیز کی کبھی طلب نہیں کی۔

نپولین کی جادوئی شخصیت نے اس کی موت کے بعد بھی نوجوانوں کو اپنے حصار میں جکڑ رکھا تھا، وہ کچھ بڑا کام کرنا چاہتے تھے، دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھتے، عمومی زندگی ان کیلئے فقط ایک بوجھ تھی، مہم جوئی اگر زندگی کا حصہ نہیں تو زندگی بیکار اور بوریت کا نام ہے، جولیئن بھی اسی دور کا، ایسے ہی عظیم خواب رکھنے والا نوجوان ہے ، جسے افسوس ہے کہ اس کی ماں نے اسے پہلے کیوں پیدا نہیں کیا کہ وہ نپولین کی فوج میں شامل ہوتا جہاں کسی بیک گراؤنڈ کے بغیر بھی، اپنے بل بوتے پہ ترقی ممکن تھی ۔ اس ذہنی کیفیت کو جنون یا دیوانگی کہا جا سکتا ہے۔

فرانس کے ایک چھوٹے قصبے میں، اس قصبے کے میئر کے ہاں جولیئن بطور ٹیوٹر کام شروع کرتا ہے، اس کے بچوں کو پڑھاتا ہے، میئر متکبر شخص ہے، جولیئن کو اس لئے بھی وہ پسند نہیں کہ کیسے کیسے احمق لوگ ایسے بڑے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں، اس پہ اتراتے بھی ہیں، لاشعور میں اس میئر سے انتقام لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، انتقام لیکن کس لئے اور کس طریقے سے لیا جائے ؟ کیونکہ کہیں کوئی قانونی یا سماجی بے ضابطگی نہیں ہو رہی تو انتقام کیسا؟

مگر یہی سٹینڈال کا ” طریقۂ واردات” ہے۔ ظلم تو ہوا ہے کہ جولیئن اس میئر کی جگہ کبھی نہیں پا سکتا، کیونکہ اس کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہے اور ذاتی قابلیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے میں سماج مانع ہے، جولیئن کے کردار کو اس کے دل کی بھڑاس نکالنے کا بہترین طریقہ مصنف یہ پیش کرتے ہیں کہ میئر کی بیوی کو بستر پہ لایا جائے، اور سونے پہ سہاگہ کہ ” خاتونِ اول” کو جولیئن پسند بھی ہے، اس اشارے کو پاتے ہی جولیئن اور میئر کی بیوی یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں، حریف کی بیوی کے ساتھ معاشقہ نپولین کا بھی پسندیدہ کھیل تھا، ایک طرف حریف کو نیچا دکھانے کی خوشی، پھر اس بیوی سے سیاسی و عسکری راز اگلوانا بھی ایسے معاشقوں کا لازمی جزو تھا ۔ حریف کی بیوی کے ساتھ مہم جوئی اس لئے بھی مشکل نہیں ہوتی کہ اشرافیہ میں زیادہ تر شادیاں مالی فائدے کے تحت ہوتی ہیں، یہ شادیاں محبت کی نہیں ہوتیں، تعلق میں ایک پیاس موجود رہتی ہے، نپولین اسی پیاس کو بجھانا جانتے تھے، جولیئن بھی ” Bonapartism” کا جذبہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ اس کی نیت دوغلی ہے ، وہ میئر کی بیوی کو اپنے انتقام کیلئے استعمال کر رہا ہے، خشک اور مردہ ٹہنی کو مگر خوبصورت آبگینے کیسے گھیرتے جاتے ہیں، یہ سٹینڈال ہی کا خاصہ ہے۔

عورت کی نفسیات کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دیوانوں کو دنیا پہ آشکار کرنا چاہتی ہے، تاکہ دنیا دیکھے کہ اس کا حسن کیسے کیسوں کو متاثر کرتا ہے، میئر کی بیوی اس معاشقے کو چھپا نہیں پاتی، شہر میں افواہیں اڑتی ہیں، میئر کو خط کی صورت اطلاع دی جاتی ہے، اس نازک صورتحال سے نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جولیئن جان چکا ہے کہ معاملہ گھمبیر ہے، اسے بالآخر وہاں سے نکلنا پڑتا ہے، وہ ایک روحانی درسگاہ میں داخلہ لیتا ہے اور تعلیم حاصل کرتا ہے، درسگاہ کا سرپرست اس نوجوان کے علم سے بڑا متاثر ہوا، لیکن انہی دنوں اس سرپرست پر مزہبی توہین کا الزام لگا تو انہیں استعفیٰ دینے پہ مجبور کیا جاتا ہے، درسگاہ کے سرپرست کا پیرس میں ایک امیر دوست ہے جو اس وقت کی فرانسیسی اشرافیہ کا علمبردار ہے، یہ دوست اس سرپرست کو پیرس اپنے پاس آنے کی دعوت دیتا ہے، وہاں سرپرست کو معلوم ہوا کہ اس کے امیر دوست کو اپنے لئے ایک معاون کی ضرورت ہے، وہ جولیئن کا نام لیتا ہے اور جولیئن اس طرح اس امیر آدمی کا معاون بن جاتا ہے۔

اشرافیہ کا یہ علمبردار جولیئن کی عقلمندی اور جفاکشی کو پسند کرتا ہے، جولیئن اب اس کا اہم معاون ہے، دفتری کاموں کے ساتھ ساتھ اس کے ذاتی معاملات میں بھی معاون ہے، اس امیر آدمی کی ایک صاحبزادی ہے جو ذہنی طور پر کچھ کھسکی ہوئی ہے، وہ یوں کہ وہ کسی دوسری دنیا کی باسی ہے، سٹینڈال یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بعض اوقات کچھ لوگ اپنے وقت سے کچھ پیچھے یا کچھ آگے جی رہے ہوتے ہیں، وہ اس ریئلٹی کو پسند نہیں کرتے جو ان کے گرد موجود ہوتی ہے، ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بہتات ہے جو محمد بن قاسم کے دور میں جی رہے ہیں، خواب میں ہم ارطغرل کی طرح گھوڑا بھگاتے کسی منگول یا عیسائی کو حق اور انصاف سکھا رہے ہوتے ہیں۔ انسان اپنے لئے جس دور کا انتخاب کرتا ہے، اس کے جزبات، اس کے خوف و امید اور رویہ بھی اسی دور کے مطابق ہوتے ہیں۔

یہ لڑکی صلیبی جنگوں کے دور میں جی رہی ہے، اسی لئے اس وقت کے ” کمزور نوجوان” اسے پسند نہیں، وہ کسی knight کی منتظر ہے، مغرور اور ہٹ دھرم بھی ہے ، جولیئن اس کیلئے دو ٹکے کا منشی ہے، ایک خالی برتن ہے۔ جولیئن کے خواب مگر بڑے ہیں، وہ مارشل بننا چاہتا ہے، دنیا فتح کرنا چاہتا ہے، یہاں ایک بار پھر خشک ٹہنی پر آبگینے اگنا شروع ہو جاتے ہیں ، یہ لڑکی اپنی تخیلاتی طاقت سے اس خالی برتن کو صلیبی جنگجو کی بہادری سے بھرنا شروع کر دیتی ہے، جولیئن اس کیلئے اب عام نوجوان نہیں رہا ، وہ غیر معمولی ہے، یہ تخیلاتی مشق اسے جولیئن کے قریب لے آتی ہے اور وہ اسے پسند کر بیٹھتی ہے۔
لوگوں کی نظر میں تم وہی ہو جیسا وہ تمہیں تصور کرتے ہیں ۔

لڑکی اب جولیئن کو دلہا بنانے کو تیار ہے، اس دوران کوئی اخبار نویس جولیئن کی پرانی محبت، میئر کی بیوی، کا قصہ سامنے لے آتا ہے جو اسے میئر کی بیوی ہی نے بتایا، اخبار نویس مرچ مصالحہ لگا کر اسے پیش کرتا ہے کہ جولیئن صرف کیریئر، طاقت اور دولت کا بھوکا ہے، اس کیلئے وہ کسی بھی عورت یا لڑکی کو استعمال کر سکتا ہے، ضمیر نام کی چیز سے وہ مکمل محروم ہے، اس سیکینڈل سے جولیئن کا اپنے باس اور اس کی بیٹی سے تعلق خراب ہوا اور جولیئن بدلا لینے کیلئے میئر کی بیوی کو قتل کرنے چل پڑا ، وہ اسے عبادت گاہ میں پاتا ہے اور اس پہ فائر داغ دیتا ہے، میئر کی بیوی زخمی ہوئی لیکن بچ گئی، جولیئن گرفتار ہوا، اگرچہ قتل اور ارادۂ قتل کی سزا میں فرق ہے لیکن جولیئن کو پھر بھی موت کی سزا سنائی جاتی ہے کہ عبادتگاہ میں قتل کا ارادہ کیا گیا، تقدس پامال ہوا، اس لئے سخت ترین سزا تجویز کی گئی۔

یہ خبر سن کر جولیئن کی متوقع دلہن خوشی اور جوش سے سرشار ہے کہ جولیئن واقعی صلیبی دور کا بہادر جنگجو ہے، گویا کہ اس کا انتخاب بالکل درست تھا، شاید وہ بھی Bonapartism کا شکار تھی ۔ جولیئن کیلئے اس کے دل میں محبت اور عزت مزید بڑھتی ہے، وہ اسے اب کسی بھی طرح جیل سے نکالنا چاہتی ہے کہ ایسا جانبار اسے اور کہاں ملے گا۔ جولیئن کو معافی نامے کی عرضی لکھنا ہے اور اس کی دلہن اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اپنے محبوب کو جیل سے نکلوانے میں کامیاب ہو جائے گی ۔

لیکن جیل کی بدبو، کھردرا فرش اور تنہائی جولیئن کے دماغ پہ نجانے کیا اثر کرتی ہیں کہ وہ معافی نامہ لکھنے سے انکار کر دیتا ہے، وہ اپنے اندر کسی جنگ میں مصروف ہے، آبگینے تخیل کی گرمی سے پگھل رہے ہیں، ٹہنی ننگی ہو رہی ہے۔ کلاسیکیت کا یہ خاصہ ہے کہ مادیت انسان کی نفسیات کو متاثر کرتی ہے، سٹینڈال کلاسیکی ادیب ہیں اگرچہ وہ خود کو رومانوی کہلوانا پسند کرتے تھے ، مگر یہاں جس طرح جولیئن کے گرد کا ماحول اس کی نفسیات کو جھنجھوڑ رہا یے، یہ خالص کلاسیکیت ہے، اس سٹیج پر محسوس ہوتا ہے کہ ناول سٹینڈال کے ہاتھوں سے نکل کر اب آزاد پرواز پہ آگیا ہے۔

مستقبل کی دلہن جولیئن سے باتیں کرتی ہے، معافی نامے کا کہتی ہے، زندگی کی نوید دیتی ہے، مگر جولیئن خاموش ہے۔ اس کی سابقہ محبوبہ، میئر کی بیوی، بھی اس سے ملنے آتی ہے مگر زبان سے کچھ بھی نہیں بولتی ، جولیئن کو اس کی خاموشی زیادہ پسند ہے، ننگی ٹہنی پر اب نئے آبگینے نمودار ہو رہے ہیں ۔

جولیئن اپنی سوچوں میں گم ہے، پتنگے کی طرح وہ بھی بھر پور زندگی گزار سکتا تھا چاہے یہ زندگی ایک دن کی ہی کیوں نہ ہوتی لیکن افسوس کہ ایسا ممکن نہ ہو سکا اگرچہ وہ اس کا اہل تھا ، اب نئی زندگی مل بھی جائے تو وہ آزاد پتنگہ نہیں بن سکتا، بھرپور زندگی نہیں گزار سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ماحول سازگار نہیں تو اہل نوجوان کسی بیک گراؤنڈ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، وہی آگے بڑھیں گے جو کوئی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں چاہے وہ نااہل ہی کیوں نہ ہوں، جولیئن نے اشرافیہ سے یہی گلہ کیا کہ اسے صرف اس چیز کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ عام آدمی ہے جس کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں۔ اس راز کا پا لینا جولیئن کیلئے زندہ رہنے سے زیادہ اہم تھا ، اب اسے مرنے کا کوئی خوف نہ تھا۔
میئر کی بیوی جولیئن کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتی، مگر جولیئن اس سے وعدہ لیتا ہے کہ وہ اس کی موت کے بعد کسی صورت اپنی جان لینے کی کوشش نہیں کرے گی، اسے بچوں کیلئے زندہ رہنا ہے، وہ بچے جنہیں جولیئن ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا، میئر کی بیوی نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ کبھی اپنی جان لینے کی کوشش نہیں کرے گی۔
جولیئن کو مقدس مقام پر ارادۂ قتل کے جرم میں موت کی سزا دی جاتی ہے، تین دن بعد میئر کی بیوی جان کی بازی ہار جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply