گھر سے دورمکان کا مکیں /ندیم اکرم جسپال

2007کی بات ہے،ہم پنجاب کالج سرگودھا کے طالبعلم تھے۔ نیا نیا گھر چھوڑ کے ہاسٹل رہنا شروع کیا تھا۔ابھی لفظ ہاسٹل زبان پہ نہیں چڑھا تھا،اکثر ایسا ہوتا کہ ہاسٹل کی جگہ “گھر جا رہا ہوں” کہہ دیتا۔ہمارے ایک شاعر طبیعت دوست تھے جو ہر بار ہی ٹوک دیتے،یار گھر نہیں،ہاسٹل یا مکان کہا کرو۔ میرا مدعا لیکن یہ ہوتا کہ جدھر انسان رہ رہا ہو،چار دیواری اور چھت ہو ،رات گزاری کا انتظام ہو وہی گھر ہوتا ہے۔

پھر سرگودھا چھوڑا، لاہور ڈیرے لگائے،لاہور سے لندن، لندن سے واپس لاہور، پھر عرب سے ہوتے ہوئے واپس لندن آپہنچے۔آج اچانک سے ہاسٹل اور گھر کی تفریق پہ دماغ اٹکا ہوا ہے۔شاید جیسے پوستیوں کا چار کش لگا کے دماغ ایک جگہ اٹک جاتا ہے ویسے ہی مسلسل چوبیس گھنٹے کی شفٹ کے بعد میرا دماغ بھی اٹک گیا ہے۔ایک ہی بات ہے جو مسلسل دماغ میں گھوم رہی ہے،کیا اسے گھر کہوں جدھر رہ رہا ہوں؟ چھت ہے،چاردیواری ہے،اگر کوئی رات گھر گزارنی پڑے تو سکھی رات بسر ہوجاتی ہے،وقت ملے تو میرے پسند کے ٹی وی چینل چلتے ہیں،ایک کونے میں دس بیس کتابیں بھی میری پسند کی پڑی ہیں،میں اپنی مرضی سے قیمہ کریلے بھی بنا لیتا ہوں،آدھی رات کچھا پہن کے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ سکتا ہوں، تو کیا اسے گھر کہوں؟

اگر اسے گھر کہوں تو وہ دور گاؤں میں جہاں میں نے بچپن گزارا اسے کیا کہوں؟وہ جس کے لکڑی کے دروازے پکے ہوتے دیکھے ہیں،جس کے ویہڑے میں لگے درخت بڑے ہوتے دیکھے ہیں،اس ویہڑے میں لگا موتیے کا پودا آج تک میرے دماغ کو معطر کرتا ہے،ایک کونے پہ لگے تندور سے دوپہر اور شام کو اُٹھتی روٹیوں کی مہک آج بھی میری بھوک بڑھا دیتی ہے،مجھے آج بھی کسی ڈھابے پہ بیٹھے روٹی دیکھ کے وہ چنگیر ہی یاد آتی ہے۔اس مکان کی دیوار کے ایک کونے میں ایک اینٹ جو پرانی تھی، بُھر کے ٹوٹ گئی تھی،وہ تک یاد ہے۔

اگر اِسے گھر کہوں تو سوچتا ہوں اس میں وہ سکون کیوں نہیں نازل ہوتا جو گاؤں والے اس گھر میں ہوتا تھا؟ عصر سے ذرا بعد “دارے” پہ منجی پہ لیٹے یوں محسوس ہوتا جیسے زمانہ رُک گیا ہے، قطار اندر قطار پنچھی اپنے گھروں کو لوٹتے،گھر سے ذرا پرے سڑک آہستہ آہستہ ویران ہونا شروع ہوجاتی، بس ٹاواں ٹاواں کوئی گاڑی گزرتی،گھر سے ملحقہ مویشیوں کے باڑے سے دھیمی سی کسی گائے بھینس کی آواز آتی،باڑے کی ایک طرف لگے نلکے کی دیوار پہ بیٹھے کوَے اپنے ساتھیوں کو بُلاتے،اور پھر ایک جھنڈ بن کے اپنے گھونسلوں کو پرواز بھر جاتے،ایک سکوت تھا جو ہر شئے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا تھا۔ایک سکون تھا جو روحوں تک اترتا تھا۔
جیسے جیسے سورج سفیدے کے درختوں کے پیچھے چھپتا جاتا ویسے ویسے تھکاوٹ اترتی جاتی،بوجھ ہلکے ہوتے جاتے۔مغرب تک یوں سکون پھیل جاتا جیسا قدرت نے پورے سنسار پہ کوئی سکوت کی چادر لپیٹ دی ہو۔

سوچتا ہوں اگر ساری دنیا آدم کا گھر ہے تو آدم جائے کو یہ سکون اور کہیں میسر کیوں نہیں ہوتا؟شاید اُس پرانے گھر میں گھر کے سارے لوازمات پورے تھے۔وہاں پرسنل سپیس کے نام پہ تنہائیاں نہ تھیں،جدت کے نام پہ مردم بیزاری نہ تھی،وہاں کارپوریٹ کنکشن نہیں،ذاتی تعلقات ہوتے تھے،وہاں ہر شام خبر گیری کو گھنی چھاؤں ورگے رشتے ہوتے تھے،وہاں لیو می الون کی کنجائش نہ تھی،وہاں سارے “ججمنٹل”تھے،وہ آپکے ذہن پہ اترے کرب اور تکلیف جج کر لیتے تھے۔

یہاں میرے بے شمار کنکشن ہیں،کارپوریٹ کنکشن۔یہاں بڑے مہذب اور آزاد خیال لوگ ہیں،یہ کسی کو جج کرنے کے قائل نہیں،بے شک آپ کیسی ہی اذیت میں ہوں کوئی آپکو جج نہیں کرے گا،یہاں پرسنل سپیس بہت ہے،ایسی پرسنل سپیس کہ وہاں کسی آدم زادے کا گزر ممکن ہی نہیں،ایسی پرسنل سپیس کہ  بے شک تنہائیاں آپکو کھا جائیں۔یہاں پکے اونچے گھر ہیں،اتنے پکے کہ ساتھ کے کسی گھر سے کبھی خیر کی آواز تک نہیں آپاتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سفر زادوں کے بختوں میں ہی ایسا لکھا ہے کہ ہماری عمر شاید گھر ڈھونڈتے ہی گزرے۔اب گاؤں جانا بھی ہو تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھر جارہے ہیں،گاؤں سے واپس آئیں تب بھی یہ نہیں کہہ پاتے کہ گھر جا رہے ہیں۔ہمیں سفر نے بہت نوازا ہے،بہت کُچھ دیا ہے۔جب سے ہم گھر سے نکلے ہیں،بس ہماری زندگیوں سے لفظ “گھر” نکل گیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply