• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایمانداری کا بھرم،ہینگ لگے نہ پھٹکڑی،رنگ بھی چوکھاآئے۔۔۔غیور شاہ ترمذی

ایمانداری کا بھرم،ہینگ لگے نہ پھٹکڑی،رنگ بھی چوکھاآئے۔۔۔غیور شاہ ترمذی

اپنے تئیں وہ ایک ایماندار بھکاری تھا۔ ایک دن اُس نے ایک بڑے محل کے دروازہ پر دستک دی۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا اور باہر آیا۔ ’’فرمائیے جناب، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں‘‘۔
بھکاری نے جواب دیا، ’’میں بہت محنتی ہوں، ایماندار بھی ہوں۔ پیسے نہیں ہیں۔ اللہ کے نام پر تھوڑی سی امداد یا کھانے کی کوئی چیز دیں‘‘۔
’’میں گھر کی مالکن سے پوچھ کر آتا ہوں‘‘۔
چوکیدار نے گھر کی مالکن سے جا کر پوچھا جو بہت کنجوس تھی۔ اُس نے کہا، ’’اس مانگنے والے کو پشاوری نان دے دو۔ صرف ایک نان۔ اور دیکھنا یہ پشاوری نان بھی کل والا دینا‘‘۔
چوکیدار کے لئے اپنی مالکن کی ہر بات ایمان کا درجہ رکھتی تھی۔ لہذٰا اُس نے ایک پرانا سخت پشاوری نان لا کر فقیر کے حوالہ کر دیا اور کہا، ’’یہ لو اور اب یہاں سے جاؤ‘‘۔
’’اللہ تمہارا بھلا کرے‘‘، فقیر نے جواب دیا۔
چوکیدار نے برگد کی لکڑی کا دروازہ بند کیا اور فقیر پشاوری نان اپنے بازو میں دبا کر چل دیا۔ وہ اُس بڑے پائپ کےنزدیک پہنچا جس کے اندر اُس نے اپنے دن، رات بسر کرنے کا ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔ اس پائپ کے ساتھ ایک بڑا برگد کا درخت تھا جس کے سائے میں وہ پائپ پڑا ہوا تھا۔ درخت کے نیچے پائپ سے ٹیک لگا کر اُس نے وہ سخت موٹا نان کھانا شروع کر دیا۔ یکایک اس کے دانتوں میں کوئی سخت چیز ٹکرائی۔ اُس نے لقمہ نکال کر دیکھا تو اُس کے اندر سونے کی ایک انگوٹھی نکلی۔ صرف انگوٹھی ہی نہیں بلکہ اُسے اِس نان کے اندر کچھ موتی اور دو ہیرے بھی ملے۔ ’’واہ، کیا قسمت ہے میری‘‘، اُس نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’مَیں انہیں فروخت کروں گا اور پھر لمبے عرصہ تک مجھے پیسے کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔ مگر اُس کی فطری ایمانداری فوراًًً اُس پر غالب آ گئی۔ ’’نہیں، مَیں اِس کے مالک کو ڈونڈھوں گا اور اُسے یہ انگوٹھی واپس کر دوں گا‘‘۔
انگوٹھی کے اندر ایس جے کی مارکنگ کندہ تھی۔ فقیر نہ تو کاہل تھا اور نہ ہی بےوقوف۔ اُس نے اپنے ذہن پر زور دیا اور اُسے یاد آ گیا کہ اُسے یہ نان کہاں سے ملا تھا۔ اپنی ایمانداری کا مظاہرہ کرنے کی خواہش کے پورا ہونے کی خبر نے اُسے بہت مسرور کر دیا اور وہ فوراًًً  اُس گھر کی طرف چل دیا۔  وہاں پہنچ کر اُس نے دروازہ پردستک دی اور وہی چوکیدار باہر نکلا اور بےزاری سے اُسے پوچھا، ’’اب تمہیں اورکیا چاہئے‘‘۔
فقیر نے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا، ’’ابھی کچھ دیر پہلے جو آپ نے مجھے پشاوری نان دیا تھا۔ اُسے کھاتے ہوئے یہ انگوٹھی نکلی ہے۔ اور ۔ ۔ ۔ـ‘‘
چوکیدار نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’اچھا، اچھا۔ میں مالکن سے بات کر کے آتا ہوں‘‘۔ اُس نے فقیر کو اپنے بات پوری کرنے کا موقع بھی نہ دیا اور انگوٹھی لے کر اندر چلا گیا۔ مالکن کو جب اُس نے یہ انگوٹھی دکھائی تو وہ خوشی سے گنگنا اُٹھی کہ یہ انگوٹھی تو پچھلے ہفتے سے گم ہوئی تھی اور اسے بہت دفعہ تلاش کر چکی تھی۔ یہ دیکھو، انگوٹھی کے اندر میرے مختصر دستخط (initials) بھی کندہ ہیں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے چوکیدار سے کہا، ’’جاؤ اور اس فقیر کو کچھ چھوٹا موٹا انعام دے کر چلتا کرو‘‘۔
چوکیدار دروازہ پر آیا اور اُس نے فقیر سے کہا، ’’ہاں یہ انگوٹھی ہماری مالکن کی ہی ہے۔ تم بتاؤ کہ اسے واپس کرنے کے بدلہ میں تم کیا چاہتے ہو‘‘۔
فقیر نے کہا، ’’اللہ کے نام پر اپنی بھوک مٹانے کے لئے روٹی‘‘۔
چوکیدار نے اپنے مالکان کی وفاداری پر رہتے ہوئے اس فقیر کو دوبارہ ایک سخت پرانا پشاوری نان دے دیا اور کہا، ’’یہ لو اپنے لئے نان اور اب جاؤ‘‘۔
فقیر اسے بتانا چاہتا تھا کہ صرف انگوٹھی ہی نہیں نان سے دو، دو موتی اور ہیرے بھی ملے ہیں مگر چوکیدار نے کچھ سنے بغیر دھڑام سے دروازہ بند کر دیا۔ فقیر نے بند دروازہ کے باہر سے ہی دعا دی، ’’خدا تمہارا بھلا کرے‘‘۔
فقیر وہ نان لے کر اپنے ٹھکانہ کی طرف چل دیا تاکہ وہ اپنی بھوک مٹا سکے۔ درخت کے نیچے بیٹھ کر جیسے ہی اُس نے اپنا دوسرا لقمہ لیا، اس کے دانے پھر کسی سخت چیز سے ٹکرائے۔ اُس کی حیرانگی کی حد نہ رہی جب دوبارہ اُس نان سے بالکل ویسی ہی سونے کی انگوٹھی نکلی۔ نان کے مزید ٹکڑے کرنے پر اُس میں دو عدد موتی اور دو عدد ہیرے بھی ملے۔ نہایت حیرانی سے اُس نے نان کو دیکھا اور ان قیمتی اشیا کا معائنہ کیا۔ چونکہ اُس وقت تک رات گہری ہو چکی تھی اس لئے فقیر نے اگلی صبح وہاں جانے کا ارادہ کیا۔
اگلے دن فقیر نے وہاں جا کر دروازہ کھٹکھٹایا اور چوکیدار بایر نکلا۔ چوکیدار نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔ فقیر نے جواب دینے کی بجائے انگوٹھی آگے بڑھا دی۔ چوکیدار اندر گیا اور واپس آ کر پوچھا، ’’کیا چاہئے‘‘۔ فقیر نے پھر وہی جواب دیا، اللہ کے نام پر اپنی بھوک مٹانے کے لئے روٹی‘‘۔
چوکیدار نے پچھلی دفعہ کی طرح دوبارہ اپنے مالکان کی وفاداری پر رہتے ہوئے اس فقیر کو ایک سخت پرانا پشاوری نان دے دیا اور کہا، ’’یہ لو اپنے لئے نان اور اب جاؤ‘‘۔
فقیر واپس اپنے ٹھکانہ پر آیا اور نان کھاتے ہوئے دوبارہ اس کے دانت کسی سخت چیز سے ٹکرائے۔ ’’واہ۔ کیا قسمت ہے۔ پھر اُس کے نان سے ویسی ہی سونے کی انگوٹھی، دو موتی اور دو ہیرے نکلے۔ وہ فقیر پھر انگوٹھی واپس کرنے چلا آیا اور انعام میں ویسا ہی سخت نان پایا اور اپنے ٹھکانہ پر پہنچا۔ اس چوتھی دفعہ کا نتیجہ بھی وہی نکلا جو پہلی تینوں دفعہ تھا اور فقیر بھی اپنی ایمانداری نبھاتے ہوئے سونے کی انگوٹھی واپس کرنے چلا آیا ۔۔۔۔
اُس خوش قسمت دن سے لے کر اپنی موت کے بدقسمت دن تک فقیر کو روزانہ ویسا ہی سوکھا، سخت پشاوری نان ملتا رہا جس میں سے سونے کی انگوٹھی، دو موتی اور دو ہیرے ملتے رہے جس میں سے وہ انگوٹھی واپس کرتا رہا اور موتی، ہیروں سے اپنی مالی مشکلات دور کرتا رہا اور موتی، ہیرے جمع کرتا رہا۔
راقم یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ فقیر نے جس طرح روکھے پشاوری نان سے ملنے والے خزانہ سے ۱% کم سونے کی انگوٹھی واپس کر کے ایمانداری کے جھنڈے گاڑتا رہا ویسے ہی دوبئی امریکہ میں 64 ارب روپے کی جائیداد سے 2 کروڑ 94 لاکھ روپے کا جرمانہ کروا کے (ادائیگی ابھی باقی ہے میرے دوستو) کوئی خاتون ایمانداری کے مینار پر جلوہ افروز ہے۔ اس کہانی سے کسی سیاستدان یا اُس کی کسی رشتہ دار کی ایمانداری کی مماثلت محض اتفاقی ہو گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply