انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا شرعی حکم۔۔ڈاکٹر محمد عادل

جدید مسائل عموماً اجتہادی نوعیت کے ہوتے ہیں اور فقہاء کے درمیان فکر و نظر کا اختلاف مسائل کے حکم میں اختلاف کا باعث بنتا ہے۔ ان مختلف فیہ مسائل میں سے ایک مسئلہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری (Transplantation of human organs)ہے۔عصر حاضر میں انسانی اعضاء کی پیوند کاری کی کئی نئی صورتیں سامنے آئی ہیں ،جس کی وجہ سے اس طریقۂ علاج کو اختیار کرنے میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔اس لئے یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ فقہاء کے آراء کا تقابلی مطالعہ کرکے اس مسئلے کا حکم معلوم کیا جائے۔ اسی ضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے زیرِ نظر آرٹیکل میں انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا شرعی حکم تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اعضاء کی پیوندکاری میں فقہاء کا اختلاف
انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا مسئلہ فقہاء کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے ۔ مذکورہ پیوندکاری کے جواز کا فتویٰ دینے والوں میں مجمع الفقہ الاسلامی ، فقہ اکیڈمی انڈیا اور علمائے عرب شامل ہیں۔ جبکہ برصغیر پاک وہند کے اکثر علما  اس کے عدم جواز کےقائل ہیں۔

مجوزین کے دلائل
پہلی دلیل
انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے مجوزین کی ایک دلیل آیت قرآنی ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔
اس آیت کریمہ سے فقہاء نے ایک قاعدہ کا استنباط کیا ہے کہ الضرورات تبيح المحظورات ،جس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام شرعاً ممنوع ہے ،وہ ضرورت شدیدہ کے وقت جائز ہو جاتا ہے۔

وجۂ استدلال
شریعت ِ اسلامی میں انسان کی راحت اور حفاظتِ نفس کی رعایت رکھی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات انسانی ضرورت کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ممنوع و حرام اشیاء کو بھی جائز قرار دیا ہے۔انسانی اعضاء کی پیوندکاری بھی اگرچہ اصلاً حرام ہے ، لیکن جب اس کے بغیرانسان کے بچنے کی کوئی صورت نہ ہو تو مندرجہ بالا آیت و قاعدہ کی رو سے اس کے لئے یہ جائز ہو جاتا ہے کہ کسی اور انسان کے عضو کو بروئے کار لا کراپنی زندگی بچا لے ۔
کتب فقہ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں اس قاعدے کو بنیاد بناکر فقہاء نے حاجت شدیدہ کے وقت امورِممنوعہ کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، جیسے انسان کا کوئی عضو سڑ جائے تو اس عضو کوکاٹ کر الگ کرنے کو فقہاء نے جائز کہا ہے،اگرچہ اس سے انسان تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے ، جو کہ شرعاً ممنوع ہے،جیسے فتاویٰ ہندیہ میں ہے کہ اگر کسی عضو میں سڑن پیدا ہو جائے اور اس کے دوسرے اعضاء کی طرف سرایت کرنے کا ڈر ہو ،تو اسے کاٹنا جائز ہے ۔

دوسری دلیل
قائلین اباحت اس آیت کو بھی بطور استدلال پیش کرتے ہیں:
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمہ: اور دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو۔

وجۂ استدلال
اس آیت کریمہ میں انصار کی تعریف اس صفت کی وجہ سے کی گئی کہ وہ خود تکلیف برداشت کرکے ایثار کا مظاہرہ کرتے تھے ۔یہ بات مدنظر رہے کہ انصار کی ایثار محض اشیاء تک محدود تھی اور ان کی تعریف براہ راست قرآن کریم میں فرمائی گئی ۔ جب کہ کسی انسان کی زندگی بچانے یا اس کی شدید تکلیف کو ختم کرنے کے لئے خود اپنے جسم کے اعضاء اس کو عطیہ کرنا ایثار کی اعلیٰ مثال ہے اور اس آیت کریمہ سے اس کا نہ صرف جواز بلکہ قابلِ تعریف ہونا معلوم ہوتا ہے ۔

تیسری دلیل
مجوزین کی تیسری دلیل قاعدہ فقہیہ ہے: اذا تعارضت مفسدتان روعی اعظمهما ضرراً بارتکاب اخفهما
ترجمہ: جب کوئی دو خرابیوں میں مبتلا ہو جائے ،تو ان میں آسان کواختیار کیا جائےگا۔

اس قاعدے کی تشریح یہ ہے کہ جب دو ممنوع چیزیں یا دو ضرر درپیش ہوں اور ان سے خلاصی نہ ہو ،تو آسان کو اختیار کیا جائے ۔

وجۂ استدلال
انسان کو جب کوئی دو ضرر در پیش ہوں تو شریعت ا س کام کا حکم دیتی ہے جس میں ضرر کم ہو۔ لہٰذا جب ایک انسان کو کسی عضو کی خرابی کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو ،تو اگر دوسرا شخص اسے اپنا کوئی ایسا عضو عطیہ کرے کہ جس سے اس کی اپنی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو شریعت اس کو ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے، کیونکہ اس کو عضو دینے سے جو ضرر لاحق ہوگا وہ انسانی جان کے مقابلے میں کم ہے۔
اسی قاعدے کی وجہ سے فقہاء مختلف ممنوعہ کاموں کے جوازکے قائل ہیں، جیسے مردہ حاملہ عورت کی سرجری کرکے بچہ نکالنا مردے کی حرمت و کرامت کے منافی ہے لیکن ایک انسانی زندگی کو بچانا مردے کی حرمت سے زیادہ ضروری ہے ۔جبکہ علامہ ابن حزم اس صورت میں سرجری ترک کرکےبچے کی زندگی نہ بچانے کو قتل سے تعبیر کیا ہے ۔
اسی طرح بعض فقہاء اسی قاعدے کی وجہ حالت اضطرار میں مردےکا گوشت کھانے کی بھی بقدر ضرورت اجازت دیتے ہیں کیونکہ انسان کی زندگی بچانا،میت کی حرمت سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔

چوتھی دلیل:
قائلین اباحت کی ایک دلیل یہ ہے کہ جو حکم شریعت میں صراحۃً موجود نہ ہو ،اس میں عرف کا لحاظ کیا جائے گا ۔ ماضی میں علوم ِطب اور آلات کی کمی کے باعث فقہاء نے انسان کی حرمت و کرامت کے ضیاع اور اہانت انسانی کی وجہ سے اعضاء کی منتقلی کی حرمت کا فتویٰ دیاتھا ۔ جبکہ موجودہ زمانے میں جدید آلات اور نئی تحقیقات کے باعث اعضاء کی منتقلی میں انسان کی کوئی اہا نت لازم نہیں آتی بلکہ عصر حاضر میں اس کو باعث کرامت سمجھا جاتا ہے اور معاشرے میں اپنے اعضاء عطیہ کرنے والوں کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔لہٰذا اس زمانے میں فقہاء اعضاء کی پیوند کاری کے جوازکا فتویٰ دیتے ہیں ۔

پانچویں دلیل
مجوزین کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ میت کی حرمت کے مقابلے میں انسانی زندگی بچانا اولیٰ ہے۔یہی وجہ ہے کہ فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر کشتی زیادہ بوجھ کی وجہ سے ڈوب رہی ہو اور اس میں کوئی لاش بھی ہو ،تو کشتی والوں کے لئے جائز ہے کہ بوجھ ہلکا کرنے کے لئے لاش کو دریا میں پھینک کر خود کو بچالیں ۔

وجۂ استدلال
میت کی حرمت کا خیال رکھنا ضروری ہے مگر زندہ انسان کی حرمت اور جان کا تحفظ اس سے مقدم ہے۔لہٰذا کسی انسان کی زندگی بچانے کے لئے میت کے اعضاء کو استعمال کرناجائز ہے۔

مانعین کے دلائل
پہلی دلیل
انسانی اعضاء کی پیوندکاری کے مانعین کی پہلی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
“اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو خشکی اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔”
اور انسانی اعضاءکو استعمال میں لانا اس کی اہانت ہے،جیسے فقہاء بیان فرماتے ہیں یہاں تک انسان کے بالوں سے بھی کسی قسم کا انتفاع کو فقہاء نے انسانی کرامت کی وجہ سے ناجائز قرار دیا ہے ۔
انسان کو جو حرمت وکرامت اللہ تعالیٰ نے دی ہے ،وہ صرف زندگی تک محدود نہیں بلکہ موت کے بعد بھی اس کی حرمت وکرامت باقی رہے گی جیسے علامہ عینی فرماتے ہیں کہ انسان کی حرمت زندگی اور موت کی حالت میں یکساں ہے ۔اس لئے موت کے بعد بھی انسانی اعضاء کا دوسرے انسان کو منتقل کرنا جائز نہیں۔

دوسری دلیل
مانعین دو احادیث مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں:
۱: أذَى المؤمِن فِي مَوتِهِ كأذَاهُ فِي حَيَاتِهِ ترجمہ: مؤمن کو موت کے بعد تکلیف دینا،زندگی میں تکلیف دینے کے برابر ہے۔
۲: كَسرُ عَظمِ الميَتِ كَكَسرِهِ حَياً ترجمہ:میت کی ہڈی توڑنا ،زندہ انسان کی ہڈی توڑنے جیسا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مؤمن کی حرمت موت کے بعد باقی رہتی ہے ۔

وجۂ استدلال
انسان کی حرمت موت کے بعد بھی ویسے ہی برقرار رہتی ہے جس طرح موت سے پہلے تھی ۔لہٰذا اس کے اعضاء کو موت کے بعد بھی استعمال کرنا اہانت کے سبب نا جائز ہے۔مندرجہ بالا دو احادیث ظاہری طور پر موت کے بعداعضاء عطیہ کرنے سے متعلق ہیں ،لیکن جب موت کے بعد اعضاء کی منتقلی اہانت شمار ہوتی ہے تو زندگی میں بطریق اولیٰ اہانت ہوگی۔

تیسری دلیل
تیسری دلیل یہ ہے کہ انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں ،لہٰذا شرعی طور پر اسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ زندگی میں یا موت کے بعد اپنے اعضاء کسی کوعطیہ کر ے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ انسان کا خود پر جنایت ویسے ہی گناہ ہے جس طرح وہ دوسروں پر جنایت کریں کیونکہ انسان کا جسم اس کی ملکیت نہیں ،بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے ۔لہٰذا اس کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف جائز نہیں ۔
یہاں تک کہ کسی انسان کے سامنے کوئی بھوک سے مر رہا ہو تو اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنا عضو اسے کھانے کے پیش کرے۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب المحیط البرہانی میں ہے کہ مضطر کو ہلاکت کا خطرہ ہو اور کھانے کے لئے مردار بھی نہ پائے، اگر کوئی اس سے کہے کہ میرے جسم سے گوشت کاٹ کر کھالو ،تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ۔

وجۂ استدلال
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسم امانت کے طور پر دی ہے اور اسے اختیار نہیں کہ اس میں اپنی مرضی سے تصرف کر ے۔لہٰذا کوئی زندگی میں یا موت کےبعد کسی کو اپنے اعضاء عطیہ نہیں کر سکتا۔

چوتھی دلیل
ہر وہ کام جو بذات خود حرام نہ ہولیکن حرام کا وسیلہ اور سبب بن رہا ہو تو وہ حرام ہو جاتاہے ۔علامہ زرکشی فرماتے ہیں :
أسباب الحرام حرام ترجمہ: حرام کے اسباب و ذرائع بھی حرام ہیں۔

وجۂ استدلال
اعضاء کی پیوندکاری کئی حرام کاموں کا مقدمہ و سبب بنتی ہے ،جیسے اس سے انسانی اعضاء کی خرید و فروخت ، میت کی بے حرمتی وغیرہ جیسے حرام افعال کا دروازہ کھلتا ہے۔لہٰذا حرام کا سبب بننے کی وجہ سے اعضاء کی منتقلی بھی ناجائز ہے۔

پانچویں دلیل
مانعین کی ایک دلیل یہ فقہی قاعدہ ہے:الضرر لا یزال بمثله ترجمہ: کسی ضرر کا ازالہ اس کے جیسے ضرر سے نہیں کیا جائےگا۔
یعنی اگر انسان کسی تکلیف میں ہو تو اس کے لئے جائز نہیں کہ اس تکلیف و ضرر کو دور کرنے کے اس کے برابر تکلیف و ضرر کا سہارا لے ۔بلکہ اس سے کم تکلیف وضرر سے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

وجۂ استدلال
یہ قاعدہ زندہ انسان کے اعضاء کی منتقلی کی حرمت پر دلالت کرتا ہے۔کیونکہ جب ایک انسان کسی عضو کی تلفی کی وجہ سے تکلیف میں ہوگا اور صحت مند انسان کا عضو اسے منتقل کیا جائے گا تو وہ صحت مند انسان بھی تکلیف میں مبتلا ہوگا،جیسے کوئی ایک گردہ کسی کو عطیہ کرتا ہے تو خود اس کو بھی تمام زندگی ایک گردے کے سہارے گزارنا ہوگااور اگر وہ ایک گردہ کام چھوڑ دے تو اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔اس لئے مندرجہ بالا فقہی قاعدے کی رو سے ضررکا ازالہ اس کے مثل ضرر سے نہیں کیا جائے گا۔

علمی محاکمہ
اعضاء کی پیوند کاری کے مجوزین و مانعین کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں لہٰذا متبادل طریقے اختیار کرکے ضرورت پوری کی جائےمثلا مصنوعی اعضاء ، جانوروں کے اعضاء اور انسان کے اپنے اعضاء کو بروئے کار لا یا جائے۔
اس تمام تر احتیاط کے باوجود بھی معتمد و ماہر ڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ انسانی اعضاءکے بغیرکوئی علاج ممکن نہیں ،تو فقہی قاعدے الضرورات تبیح المحظورات(ضرورت امرِ ممنوع کو مباح کردیتی ہے)کو سامنے رکھ کر دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی نے مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ قائلینِ جواز کے فتویٰ پر عمل کو جائز کہا ہے، لیکن ڈاکٹر اور متعلقہ لوگوں پر توبہ استغفار اور صدقہ وخیرات بھی کرنا لازم قرار دیا ہے۔
 اعضاءکی پیوندکاری کے علاوہ کوئی اور علاج ممکن نہ ہو۔اگر ایسی کوئی بھی صورت ممکن ہو، جیسے گردوں کے مریض کا ممکنہ حد تک ڈائلایسس سے کیا جائے،تو پھر پیوندکاری جائز نہ ہوگی۔کیونکہ فقہی قاعدہ ہے:
الضرورات تقدر بِقَدرِهَا ترجمہ:جو فعل کسی ضرورت کی وجہ جائز کیا گیا ،اس کا جواز ضرورت کے مطابق رہے گا۔
 پیوند کاری سے علاج یقینی ہو ۔اگر پیوند کاری کے بعد بھی مرض ختم نہ ہونے کا امکان ہو، تو پھر پیوند کاری جائز نہ ہوگی،جیسے فتاویٰ ہندیہ میں ہے:إن قيل قد ينجو وقد يموت أو ينجو ولا يموت يعالج وإن قيل لا ينجو أصلا لا يداوى بل يترك كذا
ترجمہ: اگر کہا گیا کہ ممکن ہے بچ جائے اور ممکن ہے مر جائے یا مرے گا نہیں بلکہ نجات پائے گا،تو علاج کیا جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ،تو علاج نہیں کیا جائے گا۔
اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
إن كان الغالب على من قطع مثل ذلك الهلاك فإنه لا يفعل لأنه تعريض النفس للهلاك و إن كان الغالب هو النجاة فهو في سعة من ذلك
ترجمہ:اگر اس جیسے قطع سے جان خطرے میں آجاتی ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے اور اگر غالب گمان صحیح ہونے کا ہو ،تو اس کے لئے اس میں گنجائش ہے۔
 عضو دینے والے کو خود اپنی زندگی کا خطرہ یا ضرر شدید لا حق ہونے کا خدشہ نہ ہو یعنی ایسا عضو جس پر زندگی موقوف ہو جیسے دل یا انسان اساسی وظیفہ سے محروم ہو،جیسے آنکھیں کیونکہ قرآن کریم میں اس طرح کے تبرع و احسان سے منع فرمایا گیا کہ بعد میں انسان کو خود تکلیف ہو: وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا
ترجمہ: اور نہ بالکل کھول ہی دو (کہ سبھی دے ڈالو اور انجام یہ ہو) کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ۔
ایک حدیث مبارک میں آیا ہے : لا ضرر ولا ضرار ترجمہ: نہ ضرر پہنچے اور نہ ضرر پہنچایا جائے۔
لہٰذا اگر معطی (عضو دینے والا) کو ایسا کوئی خطرہ لاحق ہو تو پیوند کاری جائز نہ ہوگی۔
 پیوند کاری کے لئےانسانی اعضاء کی خرید وفروخت نہ ہوبلکہ عطیہ کی صورت ہو ،کیونکہ انسانی اعضاء کو مال تجارت بنانا اس کی انتہائی درجہ اہانت ہے۔
 جس انسان کا عضو نکالا جا رہا ہو ،اس کی طرف سے اجازت ہویا اگر قریب المرگ ہو تو اس کے ورثاء کی طرف سے اجازت ہو۔
 کسی مسلمان کو کافر کا عضو نہ لگایا جائے اور کافر کو مسلمان کا عضو دیا جائے۔
 لا وارث میت ہو تو اس کے عضو نہ نکالا جائے ۔
ترجیح
مذکورہ بالا دلائل کا بنظر غائر تجزیہ کے بعد یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اعضاء کی پیوند کاری کے مانعین کے دلائل کافی مضبوط ہیں۔لہٰذا کسی بھی صورت مندرجہ بالا شرائط کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔ان شرائط کی عدم موجودگی کی صورت میں اعضاء کی پیوندکاری کا اصل حکم یعنی حرمت لوٹ آئے گا۔
ان شرائط کی موجودگی میں بھی کوشش یہی کی جائے کہ زندہ انسان کی بجائے میت سے اعضاء حاصل کئے جائیں ،لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اس کی زندگی میں اس سے اجازت لی گئی ہو یا اس کے ورثا ء سے اجازت لی جائے۔
حواشی و حوالہ جات

1۔            المائدۃ ، ۳:۵

[1]           الوجيز فی إيضاح قواعد الفقۃ  الكلیۃ،محمد صدقی بن احمد،۱ : ۲۳۵، مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت،۱۴۱۶ھ/۱۹۹۶ء

[1]           مجلۃ المجمع الفقہی الاسلامی ،۳۹، السنۃ الاولیٰ، العدد الاول،۱۴۲۴ھ/۲۰۰۳ء

[1]           فتاویٰ   ہندیہ ،لجنۃ العلماء ریاست نظام الدین،۵ : ۳۶۰،دار الفکر ، بیروت،۱۳۱۰ھ

[1]           الحشر، ۵۹: ۹

[1]           تفسیر الطبری،محمد بن جریر الطبری،۲۳: ۲۸۴،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت،۱۴۲۰ھ/۲۰۰۰ء

[1]           مجلۃ المجمع الفقہی الاسلامی ،۳۸

[1]           الوجيز فی إيضاح قواعد الفقۃ  الكلیۃ،۱ : ۲۶۰

[1]           القواعد الفقہیۃ  وتطبيقاتہا فی المذاہب الأربعۃ،محمد مصطفیٰ الزخیلی،۱ : ۲۳۰،دار الفکر ،بیروت،۱۴۲۷ھ/۲۰۰۷ء

[1]           تخفۃ الفقہاء، محمد بن احمد السمرقندی،۳ : ۳۴۵،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴ء

[1]           المحلی بالآثار، ابن حزم  علی بن احمد،۳ : ۳۹۵، دار الفکر ، بیروت

[1]           الحاوی الکبیر فی  فقہ مذہب  الامام الشافعی،علی بن محمد بن محمد،۱۵ : ۱۷۶، دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۹ھ/۱۹۹۹ء

[1]           جدید فقہی مباحث،(مقالہ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)،۱: ۲۰۶،۱۴۲۹ھ/۲۰۰۹ء

[1]           البیان فی مذہب  الامام الشافعی،یحییٰ بن ابی الخیر الشافعی،۵۱۸:۴ ،دار المنہاج ، جدہ، ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء

[1]           بنی اسرائیل،۱۷:۷۰

[1]           الہدایۃ،علی بن ابی بکر المفرغانی المرغینانی،۳ :۴۶،دار احیاء التراث العربی،بیروت

[1]           شرح سنن ابی داؤد،بدر الدین العینی محمود بن احمد،۶ : ۱۵۸،مکتبۃ الرشد ،الریاض،۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء

[1]           المصنف ،ابوبکر بن ابی شیبۃ،کتاب الجنائز، ما قالوا فی سب الموتیٰ،حدیث:۱۱۹۹۰،مکتبۃ الرشد،الریاض،۱۴۰۹ھ/۱۹۸۹ء

[1]           سنن ابی داؤد، ابو داؤد سلیمان بن اشعث،کتاب الجنائز،باب فی الحفار یجد العظم ،حدیث:۳۲۰۷،المکتبۃ  العصریۃ،صیدا ، بیروت

[1]           فتح الباری ،۱۱۳:۹

[1]           فتح الباری شرح صحیح البخاری، احمد بن علی بن حجر العسقلانی،۱۱: ۵۳۹،دار المعرفۃ ، بیروت،۱۳۷۹ھ

[1]           المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، برہان الدین محمود بن أحمد،۵ : ۳۸۱، دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۲۴ھ/۲۰۰۴ء

[1]           بدر الدین محمد بن عبد اللہ الزرکشی ،البحر المحیط فی اصول الفقہ،۱: ۳۰۰،بیروت،دار الکتب العلمیۃ،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴ء

[1]           الوجيز فی إيضاح قواعد الفقۃ  الكلیۃ،محمد صدقی بن احمد،۱ : ۲۵۹،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت،۱۴۱۶ھ

[1]           شرح القواعد الفقہیۃ ،احمد بن شیخ محمد الزرقا، ۱ : ۱۸۷، دار القلم، دمشق،۱۴۰۹ھ/۱۹۸۹ء

[1]           فتاویٰ  ہندیہ،۵ : ۳۶۰

[1]           فتاویٰ قاضی خان بہ حامش فتاویٰ ہندیہ،حسن بن منصور الفرغانی،۳ : ۴۱۰، مکتبہ حبیبیہ ،کوئٹہ

[1]           فتاویٰ  عثمانی، مفتی تقی عثمانی ،۴: ۲۲۵،مکتبہ معارف القرآن ،کراچی،۱۴۳۸ھ/۲۰۱۶ء

[1]           الاسراء،۱۷ : ۲۹

[1]           السنن الکبریٰ،احمد بن حسین البیہقی،کتاب الصلح، باب لا ضرر ،حدیث:۱۱۳۸۴، دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۲۴ھ/۲۰۰۴ء

Advertisements
julia rana solicitors

[1]           فتاویٰ  عثمانی، ۴: ۲۲۵

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply