اور میں نم دیدہ نم دیدہ (24)-ابوبکر قدوسی

بئر عثمان سے نکلے تو اگلی منزل مقام خندق تھا راستے میں وہ مقام دکھائی پڑا کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دجال کی آخری حد ہے ، اس سے آگے وہ نہیں جا سکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دجال مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔ ہمارے دائیں ہاتھ وہ اونچی پہاڑی تھی جس پر ایک بڑی عمارت بنی ہوئی تھی ۔ یہ سعودی حکومت کے سیکیورٹی سے متعلق دفاتر تھے ۔ یہاں تصویر کھینچنا منع ہے سو چلتی گاڑی سے میں نے اس پہاڑ کی صرف تصویر بنائی۔ مقام خندق کو جاتے ہوئے اس جگہ سے کچھ تھوڑا سا آگے کو بڑھے تو ہمارے دائیں ہاتھ ایک لمبی دیوار تھی جس کے بارے میں عبدالعلیم بتا رہے تھے کہ یہ یہاں کا گورنر ہاؤس ہے ۔ میں بڑا حیران ہوا کہ وہاں پر کوئی غیر معمولی سیکورٹی نظر نہ آئی ، بالکل سادہ سا ماحول تھا ۔ البتہ وسیع و عریض رقبہ تھا جیسے ہمارے لاہور کے گورنر ہاؤس کا ہے ۔ مدینے کے اس گورنر ہاؤس میں بڑے شاندار باغات ہیں جو مخصوص اوقات میں عوام کے لیے کھولے جاتے ہیں اور مدینے کے مقامی لوگ اپنے خاندانوں کے ہمراہ تفریح کی غرض سے یہاں آتے ہیں ۔ اس سے تھوڑا سا آگے بڑھے تو پھر وادی عتیق ہمارے سامنے تھی یہاں پر وادی میں خاصی وسعت تھی اور تعمیراتی کام جاری تھا ۔ اس کو تفریحی مقام کی شکل دی جا رہی تھی ۔ یہاں پل تھا پل سے اترے تو عبدالعلیم کہنے لگے کہ یہاں دائیں ہاتھ کا راستہ مدینہ یونیورسٹی کو جاتا ہے میرا دل تھوڑا سا دھڑکا ۔ گو میرا رات کو یونیورسٹی جانا طے تھا لیکن پھر بھی ہم اس کو دیکھنے چل دیے ۔ دو رویہ سڑک یونیورسٹی میں داخل ہو رہی تھی ، ایک بڑا شاندار دروازہ تھا لیکن وقت کی قلت کے سبب ہم نے اس دروازے کو دیکھا اور گاڑی موڑ لی ۔
کچھ مزید آگے بڑھے تو ہمارے سامنے مسجد قبلتین تھی ، سفید رنگ کی یہ مسجد خاصی خوبصورت ہے ہم نے اس کو باہر سے ہی دیکھا کیونکہ وقت کم تھا اور ہمارے پاس آج کا ہی دن تھا ۔ میں نے گاڑی میں چلتے چلتے اس کی تصویریں لیں مسجد قبلتین ایک تاریخی جگہ ہے ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تاریخ کا ایک موڑ ہے ۔ نماز کے فرض ہونے کے بعد سے لے کر مدینہ میں آمد تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے لیکن دل کعبہ میں اٹکے ہوئے تھے ۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے قیام میں بھی جب نماز پڑھتے تو گو منہ بیت المقدس کی طرف ہوتا لیکن اس رخ پر کھڑے ہو جاتے کہ سامنے کعبہ آ جاتا ۔ رسول مکرم کی دلی خواہش تھی کہ کسی روز اذن ہو اور چہرے کعبے کو ہو جائیں ۔
اس روز دوپہر کا وقت تھا کہ ہمارے حضور بشر بن براء بن معرورؓ کے ہاں بنو سلمہ کے محلے میں تشریف لائے ہوئے تھے ۔ ادھر ہی دوران قیام ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو سلمہ کی مسجد میں ہی نماز کی امامت کے لیے کھڑے ہوئے ۔ دو رکعت گزر چکی تھی اور تیسری رکعت میں آپ کھڑے تھے کہ جبرائیل چلے آئے ، قران کا نزول ہوا اور برسوں کی دلی مراد بر آئی ۔
قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ ط ( البقرہ- 144)
(ترجمہ ) ‘‘یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں لو ہم اس قبلے کی طرف تمھیں پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو ، مسجد حرام ( خانہ کعبہ) کی طرف رخ پھیر دو اب جہاں کہیں تم ہو اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔’’
نماز کے دوران ہی آپ نے اپنا رخ تبدیل کر لیا اور قیامت تک کے لیے مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ یعنی حرم مکی قرار پایا ۔ اسی نسبت سے اس کو مسجد قبلتین کہا جاتا ہے ۔ ظہر کی نماز میں یہ واقعہ پیش آیا اور ظہر کے وقت ہی ہم یہاں سے گزر رہے تھے ۔ سابقہ مسلمان خلفاء اور سلاطین نے بھی اس مسجد کی تزئین و آرائش میں پر خاصی توجہ دی لیکن سعودی حکومت نے اس کو بہت وسیع کر دیا ۔ اب اس کا رقبہ چار ہزار مربع میٹر تک پہنچ گیا ہے اور اس پر 54ملین ریال خرچ ہو چکے ہیں ۔
کچھ ہی دیر میں ہم مقام خندق پر پہنچ چکے تھے ۔ دائیں ہاتھ عظیم الشان مسجد خندق کے پہلو میں پارکنگ میں ہم نے گاڑی کھڑی کی اور نیچے اتر آئے ۔دائیں ہاتھ عظیم الشان اور باوقار مسجد تھی اور سامنے اوپر چڑھائی پر مختلف چھوٹی چھوٹی تاریخی مساجد و مقامات ۔ جب سے مجھے درون قلب سٹنٹ پڑے ہیں ، چڑھائی کی کچھ احتیاط کرتا ہوں ۔ کچھ مزاج کی مستقل بےاعتدالی کہ واک وغیرہ سے دور ہوں لیکن یہاں آ کر اوپر نہ جانا نری محرومی ہوتی ۔ سو میں نے اوپر جانے کا فیصلہ کیا ۔سب سے اوپر چوٹی پر بائیں ہاتھ چھوٹی سی مسجد تھی کہتے ہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا اور جس جگہ خیمہ گاڑا گیا وہاں پر اب ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی گئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو مسلمانوں کے سپہ سالار تھے انہوں نے اپنا خیمہ سب سے آگے لگوایا تھا ۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دور کے سب سے بہادر انسان تھے اتنے بہادر کہ گو سپہ سالار تھے لیکن جب حنین کے معرکہء کار زار میں ہوازن کے تیر اندازوں نے تیروں کی یوں برکھا برسائی کے آسمان چھپ گیا تو ایسے میں آپ خود بھی اپنی سواری پر جیسے تیر کی طرح نکلے ، زبان پر یہ کلمات تھے :
” انا النبي لا كذب
انا ابن عبد المطلب ”
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ غزوہ حنین کے حوالے سے بے سبب یہ بات مشہور ہے کہ اصحابِ رسول بنو ہوازن کے تیر اندازوں کی شدت و تیزی کے سبب جیسے بھاگ نکلے تھے تو ایسا درست نہیں ہے ۔
سیدنا براء بن عازب سے جب پوچھا گیا کہ
“کیا آپ لوگ بھاگ نکلے تھے”
تو انہوں نے یہ کہا تھا کہ :
” ہرگز نہیں کچھ نوجوان جو جلد باز تھے ، بنا مناسب لباس کے آگے بڑھ گئے تھے اور جب تیر ان کے جسموں پر لگے تو وہ پیچھے ہٹے تو جیسے محسوس ہوا بھگڈر مچی ہو وگرنہ اصحابِ رسول ٹھہرے رہے تھے ”
اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو آگے بڑھے اور نئے سرے سے صف بندی کی ۔ ابو سفیان بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے خچر کی لگام تھامی ہوئی تھی آج میں اس بہادر نبی کے خیمے کے پاس بنی مسجد کے صحن میں کھڑا درود پڑھ رہا تھا اور اس جرآت مند نبی کی امت کا حصہ ہونے پر تشکر کے ساتھ فخر کر رہا تھا ۔
چند قدم پیچھے سید سلمان فارسی کا خیمہ تھا ۔ خندق کھودنے کی تجویز بھی سیدنا سلمان فارسی کی ہی تھی کیونکہ آپ فارس سے تھے اور اپنے شہروں کے گرد خندق کھود کر دفاع کرنا ایرانیوں کا طریقہ کار تھا سو اسی سبب آپ نے یہ تجویز پیش کی جو سب کو پسند آئی ۔ یہاں پر بھی ایک مسجد بنائی گئی ہے ۔
سبع مساجد کے مجموعے میں اس دوسری مسجد کا نام مسجد سلمان فارسی ہے جو مسجد الفتح کے جنوب میں صرف 20 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
خندق کے مقام پر واقع یہ چھ مساجد مدینہ منورہ میں جبلِ سلع کی مغربی سمت اُس مقام کے نزدیک واقع ہیں جہاں غزوہ خندق کے موقعے پر مسلمانوں نے مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کی کھدائی کی تھی۔یہ جنگ غزوہ احزاب کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اس میں عربوں کے مختلف قبائل قریش کے ساتھ مل کر حملہ آور ہوئے تھے ، احزاب حزب کی جمع ہے ۔
یہ مختلف مقامات اس غزوہ کے دوران نگرانی کی چوکیاں سمجھ لیجیے جہاں اب مساجد قائم کر دی گئی ہیں ۔ اور ہر مسجد کو اس کی متعلق شخصیت کے نام سے منسوب کر دیا گیا سوائے مسجد الفتح کے جس کو مسلمانوں کی فتح کے ساتھ منسوب کیا گیا۔
شمال سے جنوب کی جانب یہ مساجد بالترتیب اس طرح ہیں مسجد الفتح، مسجد سلمان فارسی، مسجد ابو بکر صدّيق، مسجد عمر بن خطاب، مسجد علی بن ابو طالب اور مسجد فاطمہ [رضی للہ عنہم اجمعین]
ان میں سب سے بڑی مسجد الفتح کو مسجدِ الاحزاب یا مسجد الاعلی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ جبلِ سلع کے مغرب میں واقع ہے۔ مسجد الفتح کی وجہ تسمیہ اس مقام پر سورہ فتح کا نازل ہونا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مدینہ منور کی گورنری کے دور میں (87-93 ہجری) اس کو پتھروں سے تعمیر کرایا تھا۔ بعد ازاں 575 ہجری میں وزیر سیف الدین ابو الہیجاء کے حکم پر اس کی ترمیم ہوئی۔ عثمانی سلطان عبدالمجید اوّل کے دور میں 1268 ہجری مطابق 1851ء میں اس مسجد کی از سر نو تعمیر کی گئی۔
اس مجموعے میں دوسری مسجد کا نام مسجد سلمان فارسی ہے جو مسجد الفتح کے جنوب میں صرف 20 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ معروف صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نام پر ہے جنہوں نے مدینہ منورہ کے دفاع کے واسطے خندق کھودنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس مسجد کو بھی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں تعمیر کیا گیا ، وزیر سیف الدین کے حکم سے ترمیم ہوئی اور پھر سلطان عبدالمجید اوّل کے زمانے میں از سر نو تعمیر کی گئی۔
تیسری مسجد کا نام مسجدِ ابوبکر ہے جو مسجدِ سلمان کے جنوب مغرب میں 15 میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ سابقہ مذکور مساجد کے ساتھ تعمیر ہوئی۔ اب اس کو توسیع کے واسطے منہدم کر دیا گیا ہے۔
مسجد ابوبکر کے جنوب میں 10 میٹر کے فاصلے پر مجموعے کی چوتھی مسجد یعنی مسجد عمر خطاب واقع ہے۔ اس کا طرز تعمیر مسجد الفتح سے مطابقت رکھتا ہے اور غالبا اس کی تعمیر اور ترمیم مسجد الفتح کے ساتھ ہی مکمل کی گئی ہو گی۔
اس ترتیب میں پانچویں مسجد کا نام مسجد علی بن ابو طالب ہے۔ یہ مستطیل شکل میں ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس کی لمبائی 8.5 میٹر اور چوڑائی 6.5 میٹر ہے۔ غالبا یہ مسجد بھی مسجد الفتح کے ساتھ ہی تعمیر ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ترمیم کے عمل سے گزری۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر عمرو بن ود العامری کو قتل کیا تھا جس نے غزوہ احزاب کے دوران اس خندق کو عبور کر لیا تھا۔
اس مجموعے میں چھٹا نمبر مسجدِ فاطمہ کا ہے۔ تاریخی کتب میں یہ مسجد سعد بن معاذ کے نام سے موجود ہے۔ یہ اس مجموعے کی سب سے چھوٹی مسجد ہے جس کی پیمائش صرف 4×3 میٹر ہے۔ غالبا اس کی آخری تعمیر بھی عثمانی سلطان عبدالمجید اوّل کے دور میں ہوئی۔
یہ تو ان چھے مساجد کی تفصیل تھی جن میں سے اب چار باقی ہیں اور تین اس بڑی مسجد کا حصہ بن چکی ہیں جو سعودی حکومت نے تعمیر کی ہے ۔ یہ مسجد خاصی خوبصورت اور وسیع ہے ۔ سر رنگ کے دبیز اور صاف ستھرے قالین اور مکمل اجلی سفید مسجد عجب رنگ دکھا رہی تھی ۔ چھت سے لٹکتے حسین فانوس بنانے والوں کے عمدہ ذوق کا پتہ دے رہے تھے ۔پہلے یہاں آنے والے زائرین کو نماز کی دقت تھی کیونکہ چھے کی چھے مساجد بالکل چھوٹی چھوٹی تھیں ، سو اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے یہ بڑی مسجد بنائی ہے جہاں اب باقاعدہ جمعہ ہوتا ہے ۔ میں نے اس کی اپنے موبائل سے کافی تصاویر لیں ۔
خندق کے مقام پر ہم نے کافی وقت گزارا ۔
یہاں سے ہم سید سلمان فارسی کے باغ کو نکلے ۔ سید سلمان فارسی اسلامی تاریخ کا وہ کردار ہیں کہ جن کو دیکھ کر انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایک شخص کہ جس کی ذات میں طلب کے بھانبڑ مچ رہے تھے یہ بھانبڑ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کا ترجمہ الاؤ کیا جا سکتا ہے لیکن لفظوں کے ساتھ کچھ کیفیات جڑی ہوتی ہیں جن کا اظہار اسی زبان میں ممکن ہے دوسری زبانوں میں صرف ترجمہ کیا جا سکتا ہے اظہار ممکن نہیں ہوتا ۔ بلھے شاہ نے کہا تھا :
اندر بوٹی مشک مچایا
تے جاں پھلن تے آئی ہو
سو تلاش اور طلب کا الاؤ سیدنا سلمان فارسی کے اندر ایسا تیز ہوا کہ اپنے وطن فارس سے نکلے اور جانے کہاں کہاں سے پھرتے پھرتے مدینہ آن پہنچے کہ راہِ طلب میں ہر راہبر نے یہی کہا تھا کہ کوئی دم جاتا ہے کہ آخری پیغام بر آئے گا ۔ نشانیاں سب نے یہی بتائیں کہ کھجوروں کی سرزمین اس کا مسکن ہو گی ۔ طلب اتنی شدید تھی کہ سفر اختیار کیا اور قیدی ہو کر غلام ہو گئے ۔ لیکن غلامی کو بھی محبت سے قبول کیا کہ بستی کھجوروں والی تھی اور نخلستانوں کے جوار میں تھی ۔ اگر آپ سیدنا سلمان کی زبانی بیان کیا ہے تمام واقعہ پڑھیں تو کتنی ہی موقع پر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ برادر عبدالعلیم کہ جن کو یہ واقعات اور تاریخی مقامات کا پس منظر کسی انسائیکلوپیڈیا کی طرح ازبر تھا وہ ہمیں ساتھ ساتھ یہ سب بتاتے جا رہے تھے ۔ انہوں نے باغ کے احاطے میں گاڑی موڑی اور ایک مناسب جگہ دیکھ کر گاڑی کھڑی کر دی ۔ اب جب نیچے اترے تو اتفاق جانیے کہ باغ سے متصل کنویں کے احاطے کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ اسے بئر فقیر یا بئر سلمان بھی کہا جاتا ہے ۔ہم نے یہ گمان کیا کہ یہ جگہ زائرین کے واسطے حکومت نے کھول رکھی ہے ، سو بے دھڑک سب اندر گھستے چلے گئے ۔ اس بےتابی کا سبب یہ بھی تھا کہ اب تک تو بیشتر مقامات” مقید” ہی مل رہے تھے ۔ اندر جاتے ہی کنویں کی تصاویر اتاریں ، اس کو غور سے دیکھا بھالا اور ماضی میں جا نکلے ۔
کھجوروں کے باغ میں ایک روز درخت پر چڑھے سلمان فارسی کام میں مشغول تھے کہ نیچے ” مالکان ” باہم متفکر سے ہوئے دکھائی پڑے ۔
یہ باغ کے مالک کا چچا زاد تھا جو ملنے آیا ، کہہ رہا تھا :
” اللہ تعالیٰ بنو قیلہ کو ہلاک کرے، وہ قباء میں مکہ سے آنے والے ایک آدمی کے پاس جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ نبی ہے ”
سلمان فارسی نے سنا تو جیسے درخت سے نیچے آن گرے کہ مدتوں کا سفر ، برسوں کی مسافتیں ، ازل ازل کی پیاس اور جیسے ایک دم ہی آسمانوں پر مہربان بدلی چھا گئی ، انتظار کی دھوپ چھٹ گئی اور دل میں سکون اتر آیا ۔۔۔ سلمان نیچے اترے خود سیدنا ابنِ عباس کو بتاتے ہیں کہ :
” جب میں نے اس کی یہ بات سنی تو مجھ پر اس قدر کپکپی طاری ہو گئی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اپنے مالک پر گر جاؤں گا۔ میں کھجور کے درخت سے اترا اور اس کے چچا زاد بھائی سے کہنے لگا:
” تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم کیا کہہ رہے ہو؟ ”
ایک غلام کا یہ اشتیاق اور بے تکلفانہ انداز دیکھ کر اس غصہ آیا اور اس نے آپ کو مکہ مار دیا ۔ لیکن یہاں تو یہ حال تھا کہ اشتیاق کے سبب اسی شام کو کچھ کھانے پینے کا سامان لیا اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پہنچ گئے ۔ سامان سامنے رکھا اور عرض کیا کہ ” یہ صدقہ قبول کیجیے گا ”
رسول معظّم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فارسی النسل شخص کو محبت سے دیکھا، اور سب اسباب اپنے اصحاب کو عطا کر دیا اور خود کچھ نہ لیا ۔۔۔ سلمان نے دل میں سوچا کہ ایک نشانی پوری ہوئی کہ ” وہ صدقہ نہیں کھاتے ” ، پھر اگلے روز بطورِ ہدیہ کچھ پیش کیا ، اور وہ آپ نے کھایا تو خوش ہوئے کہ دوسری نشانی پوری ہوئی ۔۔ پھر کسی روز مہر نبوت کو دیکھا ۔۔۔ لیجیے سیدنا سلمان فارسی کی تینوں نشانیاں پوری ہوئی کہ جیسے سب خواب مکمل ہوئے ۔ لمبا قصہ ہے ایک روز رسول مکرم کے کہنے پر اپنے مالک سے مکاتبت کی یعنی خود کو خود سے خرید لیا ۔لیکن سلمان کا دل تو کب کا بکا ہوا تھا کہ خود کو اسلام کے سپرد کر چکے تھے ۔ مالک نے کہا کہ تین سو کھجور کے درخت لگاؤ اور اتنا سونا دے کر آزاد ہو ۔۔۔۔
پھر تاریخ کے اوراق پر وہ دن بھی ثبت ہوا کہ جس روز اپنے سلمان کے لیے خود رسول اسی باغ والے میدان میں اترے ۔۔۔
سیدنا سلمان خود بیان فرماتے ہیں :
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”‏‏‏‏ سلمان! جاؤ اور گڑ ھے کھودو۔ جب فارغ ہو جاؤ تو میر ے پاس آ جانا، (‏‏‏‏ یہ پو دے) میں خود لگاؤں گا۔ ”‏‏‏‏ (‏‏‏‏ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:) میں نے گڑھے کھودے، میرے ساتھیوں نے میری معاونت کی۔ جب میں فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اطلاع دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ نکلے ہم (‏‏‏‏کھجوروں کے وہ) پودے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کرتے تھے اور آپ اپنے ہاتھ سے ان کو لگا دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! ان میں سے کھجور کا ایک پودا بھی نہ مرا۔ ”
وہ گھنا باغ میرے سامنے تھا کہ جو میرے رسول کے ہاتھوں لگا ہوا تھا ، کہ جس میں کھجوریں نہیں محبت اگی ہوئی تھی اور جہاں پھل نہیں محبت اترتی تھی ۔
ہم کہ ماضی میں اتنا دور نکل گئے کہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کوئی ہم کو پکار رہا ہے ۔ یہ دو بنگالی مزدور تھے ، جنہوں نے باقاعدہ وردی پہنی ہوئی تھی ۔ تھوڑے ناراض سے لگ رہے تھے انہوں نے ہمیں وہاں سے باہر نکالا ہم نے ان کو کہا :
” بھئی ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہاں کے محبوب کے اس گھر میں بھی آنے پر پابندی ہے ”
لیکن انہوں نے بتایا کہ تعمیراتی کام کی وجہ سے سامان اندر لانے کے واسطے دروازہ کھولا تھا کہ آپ بھی اندر چلے آئے ۔ ہم نے کہا ناراض کیوں ہوتے ہو بھائی ، یہ لیں باہر چلے جاتے ہیں ۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشت خاک جگر ساغر میں ہے خون حسرت مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں
سو ہم مسافر بھی دامن جھاڑ کر اگلی منزل کو چل دیے

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply