گھروندا ریت کا(قسط32)۔۔۔سلمیٰ اعوان

ماں نے غسل خانے سے چلّا کر کہا تھا۔
”ڈوری ہوگئی ہوکیا؟کب سے شور مچا رہی ہوں کہ کپڑے دے جاؤ پر تمہارے حواس جانے کہاں ٹکے ہیں۔بات کی کوئی سُنوائی ہی نہیں۔
وہ گھبرائی ہوئی، پھولتے ہاتھ پاؤں سے کمرے میں اِدھر اُدھر چکر کاٹتی پھر رہی تھی۔اُسے یہ بُھول گیا تھا کہ اسٹینڈ پر رکھی استری کی کی نوب اپنے آخری پوائنٹ پر ہے۔کمرے میں پھیلی ناگوار سی ہمک کا بھی اُسے احساس نہیں ہوا تھا۔
اُس نے فرنچ شیفان کی ساڑھی الگنی پر لٹکتی ہاتھ بڑھا کر کھینچی۔اس کی چار تہیں کیں۔اس میں کچھ زیادہ سلوٹیں نہیں تھیں۔اِسے بغیر استری کے بھی پہنا جا سکتا تھا پر ماں کے نفاست پسند مزاج کو کیا کہتی جنہیں یوں کپڑے پر بکھری ہلکی سی شکن بھی چُبھنے لگتی۔اُس نے ساڑھی کو پھیلایا اور استری اس پر رکھ دی۔بھک سے چاروں تہوں کی دھجیاں اڑ گئیں۔
”باپ رے باپ وہ مزید بوکھلا گئی۔اب کیا کروں“بدحواسی میں اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔
استری ایک طرف رکھ دی۔اُوپر سے ماں کا شور شرابا۔استری کی چمکدار سطح کپڑا چمٹنے سے عجیب کھردری سی ہوگئی ساڑھی گول گچھا کر کے اُس نے بکس کے ایک کونے میں پھینکی۔
“خداوندا ماں ملیدہ کر دے گی۔”
وہ زندگی میں نظم وضبط، رکھ رکھاؤ، طورطریقے اور باقاعدگی کی قائل تھیں۔ثریا اور نازلی جب بھی کسی پھوہڑپن کا ثبوت دیتیں۔کوئی الٹا پُلٹا کام کر تیں۔ وہ پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ جاتیں۔ڈھیروں صلواتیں سُناتیں۔
بہرحال اب جو ہونا تھا ہو چکا تھااُس پر افسوس اور پچھتاوا بیکار تھا۔
الماری سے دوسری استری شدہ ساڑھی نکال کر وہ باتھ روم کی طرف بھاگی۔
”تمھیں تو کام کہہ کر بھول جانا چایئے۔“
ماں نے پیٹی کوٹ بلاؤز اور ساڑھی اس کے ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے کہا۔پر ساڑھی پر نظر پڑتے ہی وہ بولیں۔
”ارے میں نے یہ کب مانگی تھی۔پرنٹڈ شیفان کی دو جو الگنی پر لٹکی ہوئی ہے۔میں نے بیگم ضیا کے گھر جانا ہے۔“
”ماں اب یہی پہن لیں۔مجھے وہ مل نہیں رہی۔“
”توبہ ہے ان لڑکیوں پر ذرا سا کام کرنا پڑجائے تو جان مصیبت میں پھنس جاتی ہے ان کی۔معلوم نہیں اگلے گھروں میں جاکر کیا کریں گی؟“
اور جب وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بچھی چھوٹی تپائی پر بیٹھی بالوں کی اُلجھی لیٹں سُلجھا رہی تھیں۔انہوں نے بیٹی سے پوچھا تھا۔
ڈاک نہیں آئی ابھی تک۔
ماں کو تنزانیہ سے چھوٹے بھائی اور بمبئی سے جیٹھ کی چٹھیوں کا انتظار تھا۔
دُبلی پتلی کھلتی رنگت والی ثریا نے یکسر لاعلمی کا اظہار کیا۔وہ چھپا گئی تھی کہ سات سمندر پار سے وہ خط آیا ہے جس کا اُسے دنوں سے انتظار تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اُسے موصول ہواتھا اورجس نے اُسے پریشان کردیا تھا۔
ماں دھیمے لہجے میں اُن دعاؤں کو پڑھ رہی تھیں جو اکثر اپنے بھائی کی طرف سے کوئی خیریت نہ ملنے پر پڑھاکرتی تھیں۔
پاؤں میں چیل پہنتے ہوئے انہوں نے کہا تھا۔
آج شام جماعت خانے جانا ہے۔شہزادی سلیمہ کا ڈھاکہ کا دورہ متوقع ہے۔ استقبالیہ کمیٹی پروگرام کی تفصیلات پرمیٹنگ چاہتی ہے۔تم بہانے بنانے مت کھڑی ہو جانا۔چلنا ہے۔جماعت خانے کے کاموں کو بھی اپنی زندگی میں اہمیت دینا سیکھو۔
اس نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے چلیں گے۔“
ماں کے باہر جانے کے بعد وہ دوسرے کمرے میں چلی آئی۔دراز میں رکھا اُس نے خط نکالا۔وہ اپنی ماں کو اس خط کے بارے میں کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی۔اس کی یہ دوست انہیں پہلے جس قدر پیاری تھیں۔اب وہ اُس سے اتنی ہی ناخوش تھیں زندگی سے متعلق اہم فیصلوں میں اُس نے جس جلد بازی، جذباتی پن اور سُوجھ بُوجھ سے عاری فیصلوں کامظاہرہ کیا تھا۔ ماں نے اُسے ناپسند کیا تھا۔
خط کھولا اور اس کی بے چین نظریں سطور پر دوڑنے لگیں دعاؤں اور محبتوں کے اظہار کے بعد اُس نے لکھا تھا۔
“تمہیں لکھنے بیٹھی ہوں تو قریبی فلیٹ سے ٹرپنٹ کی آواز بلند ہونی شروع ہو گئی ہیں۔میں نہیں جانتی یہ کون ہے؟مگر ثریا نازلی یقین کرو اتنی پُر سوز دُھنیں بجتی ہیں کہ جی چاہتا ہے اپنا کلیجہ کاٹ دوں۔کہیں جنگلوں میں نکل جاؤں۔جوگ لے لوں۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے میں پکاڈلی ٹیوب اسٹیشن میں اُس گھڑی کے نیچے کھڑی تھی جس میں ساری دنیا کا وقت معلوم ہوتا ہے۔میرے دائیں بائیں انسانوں کا ایک جمّ غفیر تھا اورمیں اُن میں گھری پُور بو پاکستان کا وقت دیکھ رہی تھی اور سوچتی تھی۔
”رحمان اس وقت دفتر میں ہوں گے۔بچے اسکول میں۔کریم کھانا بنا رہا ہوگا۔اور تم یونیورسٹی کے کوریڈوز میں گھوم پھر رہی ہوگی،نازلی یقینا اپنی ساڑھیوں پر کشیدہ کاری کے جائزوں میں مصروف ہو گی۔
اِن دنوں میں اکثر یہ خیال آتا ہے کہ کچھ لوگوں کی پیدائش کچھ مخصوص کاموں کے لئے ہی ہوتی ہے۔شاید مجھے بھی اللہ نے جلنے کڑھنے سسکنے رونے اور تڑپنے کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔کوئی لمحہ ایسا نہیں جب میرا ذہن سوچوں کی گنجل گچھوں سے آزاد ہو۔ڈھاکہ میں تھی۔تو نداقتوں کابوجھ اٹھائے پھرتی تھی۔والدین بھائی بہن عزیز رشتہ دار عزت ذلت کے دائروں سے نکل نہ پاتی۔کیا ہوگیا ہے؟کیا کر بیٹھی ہوں؟جیسے ملامتی سوالوں کی سُولی پر خود کو توم ڈالتی۔
انکے شفاف ماتھوں پر کلنک کے ٹیکوں کے لگنے کا ہوکا مارے ڈالتا تھا۔
ثریا میرے دماغ کی نسیں پھٹنے لگ جاتیں۔میں بلک بلک کر روتی اور تڑپ تڑپ کر اپنے آپ کو کوستی۔
اور اب جب میں اپنی بہن کی گود میں پناہ لے چکی ہوں تو بھی اذیت میں ہوں۔فرق صرف نوعیت کا ہے۔اب رحمان اور بچے محور بن گئے ہیں۔انہیں کیوں چھوڑ آئی،کیا اُنکے بغیر رہ سکتی ہوں؟
اُس خوبصورت اطالوی ریسٹوران میں کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے جب دفعتاً میری بہن نے مجھ سے یہ کہا تھا۔
”نجمی کچھ اپنے بارے میں بتانا پسند کرو گی۔“
میں ساری جان سے لرزی تھی۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں اُسے کیا بتاؤں اور کیسے بتاؤں۔
لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنا سب کچھ اُگل دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اُس دوپہر میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔
اور کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے ہوئے وہ چُپ چاپ مجھے سُنتی رہی۔اس نے میری کسی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔کسی جگہ مجھے ٹوکا نہیں، شاید وہ چاہتی تھی میرے اندر کا اُبال باہر آجائے۔یا شاید اُس نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
اور جب میں خاموش ہوئی میری آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑیاں تھیں۔
ویٹرس کو بل کی ادائیگی کے بعد وہ مجھے ہاتھ سے تھام کر باہر لے آئی تھی اور اُس چمکتی سیاہ سڑک پر کھڑے ہو کر میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
تو گویا کتابِ زندگی کا ایک تلخ وشریں باب ختم ہوا۔
مگر ثریا یہ میری زندگی کا کوئی ایسا باب ہے جسے ِاس آسانی سے ختم کرنا ناممکن ہے۔یہ تو مجھ پر بہت جلد منکشف ہوگیاتھا۔
میں رحمان اور اُس کے بچوں سے جُدا نہیں رہ سکتی۔وہ میری رگ رگ میں سما چکے ہیں۔
میرا ذہن بیمار ہوگیا ہے جسم میں ٹوٹ پھوٹ کاعمل شروع ہے۔تنہائی ہو یا بھری محفل میں اس خول سے باہر نہیں نکلتی جس میں لپٹی گئی ہوں۔میری بہن کے ایک مرہٹی فیملی سے گہرے مراسم ہیں۔ایک دن اسپتال سے آنے کے بعد اُس نے مجھ سے کہا۔
اس ویک اینڈ پر مڈہرسٹ چلیں گے۔
میرا خیال تھا یہ کوئی تفریحی جگہ ہوگی۔مگر بعد پتہ چلا کہ یہ سینی ٹوریم ہے۔اس مرہٹی خاندان کی ایک لڑکی نے لندن میں رہنے والے کسی سکھ سے عشق کیا۔گھر کی اکلوتی بیٹی تھی۔والدین کٹر قسم کے تھے۔انہوں نے واشگاف لفظوں میں بیٹی پر واضح کر دیا کہ یہ تو شادی کبھی ممکن ہی نہیں۔ وہ اندر ہی اندر گھُلتی رہی۔ بیماری کے جراثیم پھیلتے گئے اور ایک دن مڈیرسٹ پہنچ گئی۔
میں نے یہ سب سُنا تو جانتی ہومیرے دماغ کی پہلی سوچ کیا تھی؟
یقینا میں بھی ایک دن کسی نہ کسی سینی ٹوریم پہنچ جاؤں گی۔
میں نہیں جانتی میری بہن اتنے زور شور سے مجھے وہاں کیوں لے جارہی ہے؟کیا وہ کہے بغیر مجھے یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ عشق کرنے والی حساس لڑکیوں کا انجام یہی ہوتا ہے کہ وہ بستر پر موت کا انتظار کرتی ہیں۔
ہم کوئی سہ پہر کے قریب چلے۔مڈیرسٹ کو جانے والی سڑک پر درخت ہواؤں سے جھُوم رہے تھے۔آسمان ابرآلود تھااور فضا کا حُسن چار سو جلوے بکھیر رہا تھا لیکن میرے دل پر چھائی ویرانی ایسی گھنیری تھی کہ اُسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔
ڈرائیونگ سیٹ پر میری بہن بیٹھی تھی۔دفعتاً اُس نے مجھ سے پوچھا۔
نجمی تمہیں گاڑی چلانی تو آتی ہو گی۔چلاؤ گی۔
لیکن میں نے انکار کر دیا۔ڈرائیونگ کے لئے جس یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ مجھ میں کب ہے؟خوامخواہ گاڑی کِسی درخت سے دے ماروں اور حادثے کا باعث بن جاؤں۔
ہینرل میئر کے جنگل پر رات کا اندھیرا چھا رہا تھا۔یہ کئی گھنٹوں کا سفر تھا۔گاڑی مڈیرسٹ کی طرف مڑی تو سامنے سینی ٹوریم کی شاندار

عمارت رات کے اندھیرے میں برقی روشینوں سے جگمگارہی تھی۔ثریا مڈیرسٹ کا سینی ٹوریم اتنا پُر فضا اور خوبصورت ہے کہ بے اختیار میں نے سوچا۔
”اگر میں یہاں آجاؤں تو یہ کچھ اتنا بُرا نہ ہوگا۔“
گیلریاں شفاف، آڈٹیوریم حسین،کمرے شاندار، اور اُن میں رہنے والے مریض قابل دید۔ تم یقین نہیں کرو گی کہ وہ لڑکی کِس قدر خوبصورت تھی۔ میری بہن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔دیدی دیدی کہتے ہوئے اُس کے ہونٹ خشک ہوئے جاتے تھے۔وہ کسی طرح بھی مریض نظر نہیں آتی تھی۔چہرے پر سُرخی کی جھلک تھی۔میں حیرت زدہ تھی۔مگر اس کا چارٹ دیکھنے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ بیماری کی کِس سٹیج پر ہے۔
لندن کی مصروف اور ہما ہمی سے پُر زندگی میں سے تھوڑا سا وقت کِسی کیلئے نکال لینا بہت بڑی قربانی ہے۔لڑکی اِس بات کو سمجھتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہ اتنی خوش تھی کہ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ میری بہن کے لیے کیا کرے؟
تم بتاؤ ثریا نازلی رحمان اور بچے کیسے ہیں؟ماں یقینا کہتی ہوگی کہ رحمان سے شادی کر کے میں نے غلطی کی اور اب لندن جاکر اس سے بھی بڑی غلطی کی۔
ثریا انسان تو خطا کار ہے۔سکون نہ مجھے ڈھاکہ میں تھا اور نہ ہی یہ لندن میں حاصل ہے۔ چند دن ہوئے میں رابرٹ سٹریٹ میں سے گزررہی تھی۔میں نے دیکھا ایک اُدھیڑ عمر کے مرد کا ہاتھ ایک خوبصورت جوان لڑکی نے پکڑا ہواتھا اور وہ تیز لہجے میں اُس سے کہتی جاتی تھی۔
چھوٹے حروف میں لکھنا ہے۔
IT IS BETTER TO BE THE QUEEN OF AN OLD MAN RATHER TO BE THE SLAVE OF A YOUNG MAN.
اس لڑکی کی صاف گوئی، جُرات اور بے باکی مجھے پسند آئی تھی۔ایک پل کیلئے میرا بھی جی چاہا کہ میں بھی چلّا چلّا کر کہوں کہ میں نے کسی کو جی جان سے پسند کیا ہے۔ اُسے چاہا بھی ہے۔قُربتوں میں اُس کے ساتھ شریک ہوئی ہوں،مگر اپنی سوسائٹی کے خود ساختہ اصولوں سے خائف ہوں اور اس چاہت کا برملا اظہار کرنے سے قاصر ہوں جو مجھے اُس سے ہے۔
میں کتنی ڈرپوک ہوں،کس قدر بزدل ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply