بھارت میں الیکشن کے بعد بڑی تبدیلی کیا ہوگی؟-عزیر احمد

اس بار کا الیکشن بہت اہم ہے، اسے ہلکے میں بالکل نہ لیں، یہ الیکشن ہندوستان کا مستقبل بدلنے جارہا ہے، یا تو اس الیکشن کے ساتھ وزیر اعظم کا ہزار سال والا خواب پورا ہوگا، یا ایک باری پھر قانون اور اداروں کی حکمرانی ہوگی، معاف کیجئے گا اگر آپ کو لگے کہ میں اس الیکشن کو لے کر زیادہ حساس ہورہا ہوں، لیکن میں مابعد الیکشن کی صورتحال کو ہندوتوا مفکرین کے چشمے سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس میں ہندو ثقافتی بالادستی انفرادی طور پر مذہبی ہونے سے زیادہ اہم ہے، یعنی ہندو ہونے سے زیادہ ہندو دِکھنے پر فوکس ہے، موجودہ وزیر اعظم جب بھی بات کرتے ہیں ہزار سال پیچھے اور ہزار سال آگے کی بات کرتے ہیں، ہندوتوا کے لئے ان کا ویژن بہت ہی واضح ہے، وہ عالمی نقشے پر ہندوستان کو ہندو کلچرل ریپبلک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، چونکہ ہندو ازم تصورات اور میتھالوجی پر مبنی مذہب ہے، ان کے اسکالرز کے نزدیک اس میں کچھ بھی “یقین” نہیں ہے، سب ظنون و اوہام ہیں، خدا کو ماننے کے ہزاروں طریقے ہوسکتے ہیں، اور سب طریقے درست بھی ہوسکتے ہیں، اور ممکن ہے کہ درست نہ بھی ہوں، اس لئے اگر کوئی شخص خدا کا منکر بھی ہے تو کوئی دِقت نہیں بس وہ مشترکہ ثقافت اور مشترکہ تاریخ کو اپنائے رکھے، ہندو جو رِیت رواج ہیں، ان کا احترام کرے، اور ہندو تہواروں میں شریک ہو۔

اس لئے مسلمان اس بھرم میں نہ رہیں کہ اگر مودی جی پھر سے جیت گئے تو صرف ہمیں ہی پریشانی تھوڑی ہوگی، ملک میں دیگر طبقات بھی تو ہیں، تو وہ سارے طبقات معاشی طور پر پریشان ضرور ہوسکتے ہیں مگر وہ سب ہندوتوا کے لباس میں فٹ ہوجائیں گے کیونکہ وہ ثقافتی طور پر ہندو ہی رہیں گے، بھلے ہی وہ مذہبی نہیں ہوں گے، مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہوگا، وہ شناخت کے بحران میں ڈوب جائیں گے، مغلوب قوموں کی نفسیات میں سے ہے کہ وہ غالب قوموں کی پیروی کرنے لگتی ہیں، ان کے شعار، رہن سہن، طور طریقوں کو اپنا لیتی ہیں، نتیجتاً وہ اپنے مذہب اور ثقافت سے بیزار ہوجاتی ہیں، اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان میں اور غالب قوموں میں نام کے سوا کوئی فرق نہیں بچتا ہے، بطور مثال ہم جاوید اختر کا ذکر کر سکتے ہیں، جاوید اختر خود کو ملحد کہتے ہیں، اپنے آپ کو کسی بھی مذہب کے ساتھ جوڑ کر نہیں پیش کرتے ہیں، بہت سارے انٹرویوز میں وہ مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کرتے نظر آجاتے ہیں کہ ان میں تشدد پسندی ہے، ان کا معاشرہ پدرسری ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن وہی جاوید اختر صاحب ہولی کے دنوں میں ہندو بن جاتے ہیں، مذہب کا گلال اپنے چہرے پر مل کر ثقافتی ہندو ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، بلکہ اس بار اس طرح کے مظاہر کئی جگہوں پر دیکھنے کو ملے ہیں۔

اس بار رائٹ ونگ کے ذریعہ الیکشن جیتنے کے بعد سب سے بڑی تبدیلی یہی ہونے والی ہے، مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد اس ثقافت کو اپنا مان کر اسے اپنانے والی اور ثقافتی ارتداد کا راستہ کھولنے والی ہے، اور اس کا سب سے زیادہ شکار وہ لوگ ہونے والے ہیں جن کا عقیدہ درست نہیں ہے، جو ہر کسی کے در پر ماتھا ٹیکنے کو کارِ ثواب سمجھتے ہیں، اس لئے اگر اس ثقافتی بالادستی کو روکنا ہے تو اس الیکشن کو غنیمت جانیں، اس کے لئے مسلمانوں میں جاگروکتا پیدا کریں، ہر دن اپنے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں، ایک ایک ووٹ کی اہمیت سمجھائیں، سوشل میڈیا کا استعمال کرکے لوگوں کو بتائیں کہ اس الیکشن میں سیکولر طاقتوں کی ہار کیا معنی رکھتی ہے، اور اس ہار کے بعد کیا کیا تبدیلیاں ہونے والی ہیں، کسی زمانے میں مسلمان کنگ میکر ہوا کرتے تھے، بھاجپا نے اس زعم کو توڑ ڈالا ہے، لیکن آج بھی سسٹیمیٹک طریقے سے ووٹنگ کی جائے تو مسلمان پھر سے اس عہدہ کو حاصل کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پندرہ ایسے مسلم کانسٹیٹیونسیز ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد 60پرسنٹ سے زائد ہے، 19 کانسٹیٹیونسیز ایسے ہیں جن میں 30-40 پرسنٹ کے درمیان ہیں، 48 ایسے ہیں  جہاں 20 سے 30 پرسنٹ کے درمیان ہیں، اور 165 ایسے ہیں جہاں 10 سے20 پرسنٹ کے درمیان ہیں، اور 282 ایسے ہیں جہاں زیرو سے 10 پرسنٹ ہیں، یہ ڈیٹا میں نے ایکونومک ٹائمز سے اٹھایا ہے، یہ کس قدر مصدقہ ہے مجھے نہیں معلوم، کیونکہ سرکاری سطح پر مجھے کوئی ایسا ڈیٹا نہیں مل سکا جس میں کانسٹیٹیونسی وائز مسلمانوں کی تعداد بتائی گئی ہو، لیکن اہم یہ ہے کہ بہت ساری سیٹیں ایسی ہیں جن میں مسلم فیکٹر ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے، بی۔جے۔پی اگر ہارتی نہیں ہے تو بھی اس کی سیٹیں کم ہوسکتی ہیں، ہاں اگر دھاندلی کا ارادہ کرلیا گیا ہے تو پھر الگ بات ہے، اس لئے وقت کو غنیمت جانیں اور اس الیکشن کے لئے رائے عامہ ہموار کریں کہ کسی بھی طرح سے ووٹوں کی تقسیم نہ ہونے پائے، ہر کانسٹیٹیونسی میں سارے مسلمان متحد ہوکر کسی ایک ہی کو ووٹ دیں، اور اس چکر میں نہ پڑیں کہ فلاں ہمارا رشتے دار ہے، یا اس کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہے، اس لئے اسی کو ووٹ دینا ہے، یاد رکھیں کہ اس بار آپ ووٹ ضائع کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں ہیں، ایک باری فضا بدلے ووٹ ضائع کرنے کے پھر مواقع ملتے رہیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply