• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سائبان تحریک اور ہماری ادبی صورتحال۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

سائبان تحریک اور ہماری ادبی صورتحال۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

پچھلے تیس چالیس برس سے ہماری ادبی صورتِ حال مسلسل زوال کا شکار ہے۔ اس سے پہلے بھی اگرچہ ادب اور ادیب کے احوال اس معاشرے میں کبھیمثالی نہ تھے لیکن گزشتہ چار عشروں میں تو ادبی زبوں حالی تشویشناک حدوں کو چھونے لگی ہے۔ ایک طرف کتاب کی لاگت اور قیمت میں بے جا اضافے کا چیلنج درپیش ہے اور دوسری جانب کتاب کلچر سے بیگانگی کا چلن عام ہو چلا ہے۔ عجب ستم گری ہے کہ پاکستان کی آبادی میں اضافہ تو تواتر سےہو رہا ہے لیکن سنجیدہ کتاب جو بھلے وقتوں میں ہزار دو ہزار کی تعداد میں چھپا کرتی تھی اور فروخت بھی ہو جاتی تھی اِن دنوں پانچ سو سے زیادہ نہیں چھپتی بلکہ بعض صورتوں میں تو فقط دو تین سو ہی۔ اور اس کی زیادہ تعداد دوست احباب میں مفت تقسیم ہوتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کتابوں کی اشاعت کے اس مرحلے میں ادیب ہی کی جان شکنجے میں پھنسی ہے کہ کتاب چھپوانے کے مشکل مرحلے سے لیکر کتاب پر سرمایہ کاری کا مقدس فریضہ بھی اسے ہی انجام دینا پڑتا ہے۔ ناشر اپنے منافع سمیت پوری لاگت تو ادیب سے وصول کر لیتا ہے لیکن کتاب کی فروخت کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ اس دِگرگوں صورتِ حال کا زیادہ سامنا ادبی جرائد کو ہے جنہیں باقاعدہ خریداروں کی قلت، پرچے کی طباعت پر اُٹھنے والے اخراجات میں روز افزوں اضافے کی اذیت اور اشتہارات سے محرومی کے سنگین مسائل درپیش ہیں جن کی تاب نہ لا کر بہت سے عہد ساز ادبی رسائل دیکھتے ہی دیکھتے بند ہو گئے اور باقی ماندہ جاں کنی کے عالم میں ہیں۔ ادھر عام ادیب کی رہنما سماجی حیثیت اور معاشی استحکام نیز اس کی ضعیف العمری میں سُکھ کا سانس ایسے خواب ہیں جن کی تعبیر کوسوں دور ہے۔ اس زبوں حالی کے اسباب و عوامل بہت سے ہیں جن کی تفصیل میں جائے بغیر یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ادبی بہتری کے اس باب میں سرکار کی غفلت اور معاشرے کا اغماض بھی برابر کا ذمہ دار ہے کہ وہ بھی سیاسی اور سماجی چپقلشوں کا شکار ہے۔تاہم حال ہی میں معروف ادیب، شاعر اور ادبِ لطیف کے سابق مدیر اعلیٰ نے ’’سائبان‘‘ کے نام سے جس ہمہ جہت ادبی تحریک کی بنیاد رکھی ہے اور جس جوش و جذبے کے ساتھ وہ مختلف محاذوں پر ادب، ادیب اور کتاب کلچر کے فروغ کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ اس سے یہ امید بندھی ہے کہ ادب کی مشکلات کے خاتمے اور کتاب کے فروغ (بشمول ادبی رسائل) میں حائل دشواریوں کے تدارک کی منزل زیادہ دور نہیں۔ سائبان تحریک کا نعرہ ہے ’’کتاب پڑھیں اور خرید کر پڑھیں‘‘۔ اور یہ خالی خولی نعرہ نہیں بلکہ چند ماہ کے مختصر عرصے میں انہوں نے کئی ادیبوں کی معیاری کُتب براہِ راست ادیبوں سے خرید کر اپنے اراکین اور حلقۂ اثر میں تقسیم کی ہیں۔ اس کے علاوہ چند مرحوم ادیبوں کی غیر مطبوعہ کتابوں کے مسودات اُن کے اہل خانہ سے پیشگی رائلٹی کے عوض حاصل کر کے اُن کی اشاعت کا بھی ڈول ڈالا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب ’’رنگ جیدی‘‘ جو اطہر شاہ خان جیدی مرحوم کے طنزیہ، مزاحیہ کلام کا مجموعہ ہے کچھ روز قبل شائع ہو کر اہلِ فکر و نظر سے تحسین حاصل کر رہی ہے۔ سائبان تحریک کی ترجیحات کا ایک زاویہ یہ بھی ہے جو اہلِ قلم کتاب شائع کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کی مالی اعانت بھی کی جائے اور کتاب کی فروخت میں خاطر خواہ سہولت بھی بہم پہنچائی جائے۔ ادبی جرائد کی سرپرستی بھی سائبان تحریک کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے تاکہ ان پرچوں کے بند ہونے کی نوبت نہ آئے۔ بدلتے ہوئے سماجی تناظر میں ہمارے شعر و ادب میں اُستاد شاگرد کا ادارہ تقریباً معدوم ہو گیا ہے اور نئے لکھنے والوں کی تربیت اور رہنمائی کا اہتمام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِس خلا کو پُر کرنے کیلئے سائبان تحریک نے نئے ادیبوں کی ذہنی اور فکری رہنمائی کیلئے تخلیقی ہنرمندی کی ورکشاپوں کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ سائبان تحریک کے رفاہی لائحہ عمل کے تحت مفلوک الحال ادیبوں کے علاج معالجے اور کفالت کی ذمہ داری اُٹھانے کا پروگرام بھی روبہ عمل لایا جا چکا ہے اور کئی مستحق ادیبوں کی دستگیری کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔
سائبان تحریک کے روحِ رواں حسین مجروحؔ اسے فقط لاہور ہی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان اور پوری ادبی دنیا کا مؤثر ترین پلیٹ فارم بنانے کا عزم رکھتے ہیں اور اسی جذبے کے تحت مسلسل حالتِ سفر میں رہتے ہیں۔ میں پرانے پاک ٹی ہاؤس سے حسین مجروح کو جانتی ہوں وہ تعریف اور تنقید میں بے باک ہے اور ہمیشہ لگی لپٹی سے ماورا ہو کر بات کرتا ہے۔ وہ ایک صاحبِ رائے اور نظریاتی شخص ہے۔ ایک متحرک، قابل اعتماد اور دلِ درد مند رکھنے کے ساتھ مقصد کو زندگی بنا لیتا ہے۔ کبھی کبھی رکاوٹیں بڑے مقاصد کا وسیلے بن جاتی ہیں۔ ایک آزاد رائے رکھنے والے شخص کو ایسا کام ہی کرنا چاہئے تھا۔ قوی امید ہے کہ سائبان تحریک کے نفسِ ناطقہ کے طور پر حسین مجروح اس مورچے کو سر کئے بغیر دم نہیں لیں گے۔ تمام اہلِ ادب اور اصحابِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ سائبان تحریک کے ساتھ جڑت اختیار کریں بھلے وہ کوئی مشورہ ہی کیوں نہ ہو۔ اتنے سارے مقاصد میں اگر اُستاد شاگرد کا رشتہ بحال ہو گیا، صدیوں سے ٹائٹل کی پیشانی پر نام کی تختی دیکھتے ردی ہوتے کاغذ کتاب کو دیکھ لیں تو یہ بہت بڑا احسان ہو گا۔ میں ذاتی طور پر معاشرے میں ادب، ثقافت، جمالیات اور اعلیٰ قدروں کی ترویج کے لئے پچیس ہزار کا عطیہ عنایت کرتی ہوں، اس دعا کے ساتھ کہ ادب کی ترقی ہمیں مہذب معاشرے میں بدلے گی اور ہماری سوچ سے تنگ نظری کا خاتمہ کرے گی

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply