1- کم سن بچوں کو رہائشی مدارس میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ اپنی حفاظت کی صلاحیت سے محروم بچے فاعلین اور جارحین کے لیے آسان شکار ہوتے ہیں۔
2-مدارس میں بچے اپنے فطری اور حقیقی نگہ بانوں (والدین/سرپرست) کی عدم نگرانی میں طویل اوقات کے لیے مدارس میں دست یاب ہوتے ہیں۔ خصوصاً رہایشی مدارس میں رات کے اوقات میں بچے بھی موجود ہوتے ہیں۔
3- مدارس کاروباری نفسیات سے آزاد ہوتے ہیں۔ عطیات اور چندے کے پیسوں سے مدارس کے اخراجات چلائے جاتے ہیں۔ تعلیم مفت ہے۔ مفت میں دی چیز احسان مندی کا تقاضا کرتی ہے اور احسان مند کا استحصال کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یہاں بچے کو خوش اور راضی رکھنا انتظامیہ کی مجبوری یا ترجیح نہیں ہوتی۔
4- کم سن بچوں کے ا ساتذہ عموماً مرد ہوتے ہیں۔ مدرسے کے اندر اساتذہ کے حجرے اور ہاسٹلز ہوتے ہیں جن میں بغیر اجازت داخلہ منع ہوتا ہے۔ یہ سب ہم جنس پرستی کا رجحان رکھنے والوں کے لیے مواقع اور امکانات پیدا کرتے ہیں۔
5- مدارس میں اس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور نہ ان کے وسائل اجازت دیتے ہیں کہ مختلف عمر کے بچوں کو الگ الگ جماعتوں میں بانٹ کر پڑھایا جائے۔ یہاں چھوٹے بڑے سب بچے ایک چھت کے نیچے بیٹھتے ہیں۔ یوں بڑے لڑکوں کی چھوٹے بچوں تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔
6- قرآن مجید اور دین کا استاد ہونے کی بنا پر مدارس کے اساتذہ کے ساتھ جڑے خصوصی ادب و احترام کا رواج استاد کو زیادہ با اختیار اور بے خوف بناتا ہے۔ استاد کی شکایت کرنا آسان نہیں اور پکے ثبوت کے بغیر الٹا شکایت کنندہ ہی گستاخ قرار پاتا ہے۔
7-مدارس میں ہم جنس پرستی اور جنسی زیادتی کے بارے میں فاعل کے خلاف ضابطے کی کارروائی سے متعلق عمومی رویہ ہے کہ جب تک ٹھوس ثبوت ہاتھ نہ آ جائے یا معاملہ مدرسے کی بدنامی کو نہ پہنچ جائے، مدارس کی انتظامیہ ایسے واقعات سے صرف نظر کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ کسی فاعل کے خلاف کارروائی ہو بھی تو خود احتسابی کے اندرونی نظام کے تحت ہوتی ہے۔ پولیس اور سماج کو شامل نہیں کیا جاتا تاکہ مدرسے کی بدنامی نہ ہو۔ اس طرح فاعل کی سماجی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اسے مدرسے، مسجد سے نکال بھی دیا جائے تو کسی دوسرے مدرسے یا مسجد میں با آسانی شمولیت اختیار کر لیتا ہے۔ اس سے قرآن مجید کی وہ حکمت سمجھ آتی ہے کہ زانی کی سزا کے وقت لوگوں کی ایک تعداد موجود ہونی چاہیے۔
8- اہلِ مدارس میں فاعل کی جنسی بے راہ روی کی تشہیر نہ کرنے کو عیوب کی پردہ پوشی کے دینی تصور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس طالبِ علم یا استاد کے تعلقات زیادہ مضبوط ہوں اس کے خلاف بولنا یا کارروائی کرنا عموماً احاطہءِ امکان سے باہر ہوتا ہے۔ فاعل اگر مہتمم (پرنسپل) ہو تو اسے گویا مستقل مامونیت حاصل ہوتی ہے۔ ایسے حالات فاعل اور جارح کے لیے حوصلہ افزا ہوتے ہیں۔
9- مدارس میں کردار کی سند ( کیریکٹر سرٹیفیکیٹ) جاری کرنے کا کوئی قانون اور رواج نہیں۔ یوں ایک فاعل کو مختلف مدارس میں داخلے یا مسجد میں امامت وغیرہ کی ملازم کے حصول اور اپنے رجحان کی تسکین کے مواقع تلاش کرنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آتی۔
10- استاد کا بچے پر تشدد کرنے کا اختیار ایک تہذیبی قدر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ استاد کے اختیارات کی یہ وسعت بچے پر جسمانی تشدد کے علاوہ اس کے جنسی استحصال کے لیے بھی مددگار ہو جاتی ہے۔

11- مدارس میں اساتذہ اور بچوں کی نگرانی کے لیے نگران کیمرون کا رجحان اب تک نہ ہونے کے برابر ہے، بلکہ اس کی مخالفت بھی کی جاتی ہے۔ بعض مدارس میں سخت نگرانی بھی کی جاتی ہے مگر حادثات کے اتنے امکانات پیدا کرنے کرنے کے بعد چور راستوں کو بند کرنے کی کوشش اکثر ناکام ہی ہوتی ہے۔
اقتباس از کتاب ‘اپنی شخصیت کی تلاش میں گم ہمارے بچے’
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں