اُمت مرحوم کی مشکلات/حامد عتیق سرور

امت مرحوم کی اصطلاح، اقبال نے شکوہ میں ایجاد کی تھی ۔ اس کے معانی “رحمت کی گئی ” اور “فوت شدہ” دونوں ہی مستعمل ہیں ہر چند کہ دوسرا مطلب اب زیادہ قرین قیاس معلوم پڑتا ہے ۔ ہمارے سکول کے زمانے میں جب امیرالمومنین ضیا الحق شہید نے نصاب کو مشرف بہ اسلام کرنا شروع کیا تو فزکس ، کیمسٹری اور بائیالوجی کی کتابوں کا پہلا باب جماعت اسلامی کے زعما کے دریافت کئے گئے مسلم سائنسدانوں کے کارناموں سے شروع ہوتا تھا ( اب بھی شاید یہی ہو ) ۔

اس زمانے میں یوں لگتا تھا کہ جابر بن حیان کی اہم ترین retort کی ایجاد کے بعد کیمیا میں ، خوارزمی کے صفر کی دریافت کے بعد ریاضی میں ، بوعلی سینا کی کتاب طب کے بعد بائیالوجی میں اور ابن الہیزم کی روشنی پر تحقیق کے بعد فزکس میں کوئی قابل ذکر کام باقی نہیں بچا تھا لہٰذا ہمارے قدما نے باقی fill in the blanks اہل مغرب کے لئے چھوڑ دئیے کہ بے چارے کچھ تو ایسا کر لیں جس سے ان کی سائنس میں sense of participation باقی رہے ۔ یاد رہے کہ اسلامی سائنس  کے یہ کارنامے کوئی 1050 عیسوی تک ختم ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد ہمارے پاس اور بہت سے کام آگئے تھے جس میں شاعری ، فلسفہ ، سیاست اور مذہب کی حقانیت پر دفتر مرتب کرنا وغیرہ شامل تھا مگر ہم نے دنیوی علوم خاص طور سائینس وغیرہ سے پیچھے رہنا شروع کردیا۔ امام غزالی بھی شاید کچھ ایسا ہی کہہ گئے تھے ( گو اس معاملے میں دو رائے پائی جاتی ہے ) ۔

پھر سنا ہے 1258 میں ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے وہاں کا ذخیرۂ کتب بھی جلا ڈالا۔ اس پر وہی ہوا جو اس دیہاتی کے ساتھ ہوا تھا کہ جس کی گھڑی رک گئی تھی ، کھولی تو اس میں مرا ہوا مچھر پڑا تھا ۔ بولا کہ گھڑی نے خاک چلنا ہے اس کا تو ڈرائیور ہی مر گیا ہے ۔ بغداد کی کتابیں بھی شاید امت کی سائنسی گھڑی کا ڈرائیور تھیں جن کے بعد اس علم کی اسلامی تاریخ رک سی گئی۔

کچھ سال پہلے ترکی کے توپ کاپی میوزیم/ محل جانا ہوا ۔ معلوم ہوا کہ وہاں آویزاں خلفاء کی تصاویر اٹلی کے مصور آکر بنایا کرتے کہ اسلام میں تصویر کشی حرام تھی سو ان کی تصاویر میں تھری ڈی اور perspective نہیں آتا تھا ( مانی و بہزاد کا بھی اغلبن یہی مسئلہ ہے ) ۔ روم گئے تو داونچی کی ڈرائنگز دیکھیں ،جو آج بھی صنعتی اشیا کے product design کی اساس ہیں ۔اللہ ہمیں معاف کرے مگر ہمیں تو روم اور فلورنس کے چپے چپے پر ماضی کے مجسمے بنانے کی صلاحیت ان کی lambhorghini کے ڈیزائن کی رگ رگ میں نظر آئی ۔ کچھ یورپ کے بُرے موسم نے انہیں زراعت سے نکالا اور رزق کی خاطر کچھ نئی دنیاؤں کی تلاش انہیں بحری جہاز جیسی بڑی حرفت کی طرف لے گئی ۔ پروٹسٹنٹ مذہب نے انہیں آخرت کو دنیا میں ڈھونڈنے کا مشورہ دیا اور وہ علمی ، سیاسی اور عسکری میدان میں آگے بڑھتے چلے گئے ۔ سترہویں صدی تک یہ تفاوت یوں بڑھ گیا کہ آہستہ آہستہ قریب تمام عالم اسلام یورپی اقوام کی براہ راست غلامی میں آگیا۔ اس کی انتہا پہلی جنگ عظیم کے بعد لائیڈ جارج کے اس نعرے سے ہوئی جس میں اس نے تمام صلیبی جنگوں کے بدلے کا حتمی اعلان کر دیا۔

اس دور کی بے بسی یوں تھی کہ علامہ اقبال شکوہ لکھتے ہوئے یوں desperate ہوئے کہ(شاید ۔ شارحین ایک اور معنی بھی بیان کرتے ہیں ) ہندؤوں کے مسلمان ہونے کی دعا کرنے لگے
مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کردے
اور اکبر الہ آبادی جو زیادہ منہ پھٹ تھے بولے کہ ؛
نہ لائسنس ہتھیار کا ہے، نہ زور
کہ ترکی کے دشمن سے جا کر لڑیں
تہِ دل سے ہم کوستے ہیں مگر
کہ اٹلی کی توپوں میں کیڑے پڑیں

ان دو نابغوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر موضوع پر واپس آئیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس مایوسی نے اس پانچ سو سالہ دور میں دو یا تین Active فکری رویوں کو جنم دیا ۔ ایک مسلح جدوجہد جو قومی سطح پر بھی ہوئی (پہلی جنگ عظیم ، پہلی اور دوسری عرب اسرائیل جنگ ) اور گروہی سطح پر بھی ( فلسطینی ہائی جیکرز ، القاعدہ، 9/11 ، خودکش دھماکے ، حماس کا حملہ ، روس کا رات کا واقعہ ) ۔ دوسرے مغرب کی ترقی کو دیکھتے ہوئے اس کی مکمل Adaptation ( اتا ترک ، شاہ ایران ، ظاہر شاہ ) اور تیسرے ایک مرد_ فقیر سر سید کا راستہ۔

اگر چہ آج کا مقبول بیانیہ پہلے والا ہی ہے مگر ان ساری ٹکروں کا نتیجہ ہمیں معلوم ہے ۔ اسرائیل ترس رہا تھا کہ اسے غزہ کی آبادی کو تہ و تیغ کرنے کا موقع ملے سو حماس نے ایک جہادی حملہ کرکے اسے وہ جواز دے دیا۔ روس دنیا میں تنہا ہوا جاتا تھا اور یوکرین کے بعد گمان تھا توپوں کا رخ مسلمانوں سے ہٹ کر شاید گوروں کی آہس کی لڑائی کی طرف ہوجائے مگر کسی مجاہد نے کل روس کے نومنتخب صدر کو دوبارہ مغرب سے ہمدردیاں لینے کا موقع دے دیا ( ہر چند مجھے یقین ہے کہ شاید یہ کام مغرب نے خود ہی کروا ڈالا ہو۔ مگر بد اچھا ، بدنام برا کے مصداق نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرنا ہے)۔

مغرب ، اسرائیل ، امریکہ کی موجودہ آندھی طاقت ان کی پانچ سو سالہ سائینسی علوم پر دسترس ، جنگی فتوحات سے حاصل شدہ اور نئے دریافت کردہ وسائل اور سیاست ، معاشرت اور معیشت پر ان کی عالمی گرفت پر مبنی ہے اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اب تک کے تمام جہادی اور بائیکاٹ نما اقدامات ہمارا ہی مزید بیڑہ غرق کرتے ہیں ۔

سرسید نے اپنی زندگی میں بہت کچھ لکھا اور کیا۔ لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا اور کافر کہا مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ ان کا بتایا ہوا راستہ ہی شاید پاکستان اور امت مسلمہ کی نجات کا واحد راستہ ہے ۔ وہ پانچ سو یا ہزار سال ہم نے ضائع کر دئے ان کی قیمت چکائے بغیر آگے جانا ممکن نہیں ۔ مغرب کی مہربانی سے علوم اور حرفت کے حصول پر پابندیاں قدرے کم ہیں ۔

اس دنیا میں وہ ملک کامیاب ہیں جن کا لباس پہننا دوسروں کے لئے قابلِ تکریم ہے ، جن کی زبان سب بولتے ہیں ، جن کے ہیرو دنیا کے ہیرو ہیں ، جن کے  فلمی اور ادبی کردار دنیا کی مشترکہ تہذیبی وراثت کا حصّہ ہیں ، جن کی بنائی اشیا ساری دنیا استعمال کرتی ہے ۔ جن کے جہازوں پر سفر کرتے اور جن کی دوا کھاتے آپ کو ڈر نہیں لگتا۔ آپ کے سرجن جن کی کتاب پڑھ  کر یہ سیکھتے ہیں کہ آپریشن میں جلد پر کہاں اور کتنے انچ کا اور کتنا گہرا چرکہ لگانا ہے ۔ جسم کے اندر گردے ، جگر یا دل کی طرف کیسے جانا ہے کہ خون کم بہے اور کسی اہم رگ ، ورید یا nerve پر آنچ نہ آئے۔
الدنیا مزرع تل آخرہ اور آتنا فی الدنیا حسنہ والی امت نے تو انسان کے درد کے نجات کی پینا ڈول بھی نہیں بنائی ۔ کوئی نقل وحمل کا ذریعہ ، کوئی مشین ، کوئی جدید بھلائی کا قانون ، کسی بھی ڈھنگ کرنے کا کوئی طریقہ ، کوئی بین الاقوامی icon ہمارا نہیں ۔
پھر یہ رونا کیوں کہ فلسطین پہ کچھ کیوں نہیں کرتے ۔ جواب یہ ہے کہ یہ بے حسی نہیں ، ناطاقتی ہے ، ضعیفی ہے ۔

منتخب امت کی entitlement تو یہود کی بھی تھی لیکن ہزاروں سال راندہ ء درگاہ رہے۔ مگر جب 1890 کے بعد انہوں نے طاقت کے حصول کے لئے قدم بڑھایا تو آج امریکہ جیسی طاقت بھی ان کی علمی ، معاشی اور صحافتی طاقت کی باندی ہے ۔ کچھ حاصل کرنا ہے تو پہلے خود میں کوئی آئن سٹائن، کوئی نیل بوہر ، کوئی زکربرگ، کوئی مارکس ، کوئی فرائڈ کوئی اوپن ہائمر، کوئی نوم چومسکی، کچھ نہیں تو کوئی الزبتھ ٹیلر ، باب ڈلن ، جیری لوئس یا چارلی چپلن ہی پیدا کریں ۔ اور تو اور یہ چیٹ جی پی ٹی والا آلٹمین بھی یہودی ہے۔ اگر نہیں پیدا کر سکتے تو کڑھتے اور بد دعائیں دینے سے کیا حاصل ؟

یہ بے بسی نہیں ۔بھارت جو آپ کا ہزار سال غلام رہا ہے آپ سے آزاد ہو کر علم میں راماننج، کوشک بابو، دیبراج رے، امرتیا سین ، پروین جے کمار اور صنعت میں ٹاٹا ، برلا، امبانی اور ثقافت میں ٹیگور ، امیتابھ اور شاہ رخ خان لا چکا ۔ ہم نے کیا کیا ؟ جنونیوں اور self righteous اور کل دنیا کے ٹھیکیداروں کی فوج ظفر موج پیدا کی ہے جو تلوار سے دشمن کا سر تن سے جدا کرنے کو بے چین ہیں مگر اس کے لئے لوہا مغرب سے منگواتے ہیں اور اس کی دھار تیز کرنے کی مشین بھی ۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ مغرب کے لوگ ہمارے اعمال دیکھ کر ہمارے مذہب اور ہمارے نبی کی حقانیت پر یقین نہیں کرتے کہ ہم خود چلتی پھرتی توہین مذہب ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معاف کیجیے گا ، مجھے معلوم ہے کہ میرے دلائل میں بہت سے سقم ہیں مگر پھر بھی میرے خیال میں فلسطین کی آزادی اور پاکستان کی خودمختاری کی راہ دنیاوی علوم کے cutting edge تک حصول ، سرمایہ کاری ، محنت، کلچرل طاقت ، دنیا میں نیک نامی سے نمایاں ہونے اور طاقتور ممالک سے فی الوقت صلح جو رویے سے جڑی ہے ۔ اس سارے کام میں اسلام کو کچھ خطرہ نہیں کہ وہ حق ہے اور اس کی حفاظت خود خدا کرلے گا ۔ سرسید کی باتوں سے دوبارہ رجوع کا وقت ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply