آج کل شیراز کی دھوم ہے۔ دھوم دھڑکے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ لاہور کراچی یا دیگر شہروں میں آ گیا ہے اور میمز بن رہی ہیں اور واہ واہ ہو رہی ہے اور ٹی وی سکرین پہ بھی موجود ہے اور بہتر زندگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ آیا یہ ترقی کے پیمانے ہیں یا نہیں کی بحث بھی الگ موضوعات ہیں۔ اصل بات جس طرف میری توجہ مبذول ہوئی وہ اس کی ثقافت ہے، اس کا اپنا رہن سہن ہے، اس کے اپنے پہاڑ اور آسمان اور در و دیوار ہیں جہاں وہ زندگی بسر کر رہا تھا اور لا محالہ ایسے ہزاروں بچے ہیں جو پہاڑوں میں رہتے ہیں اور ان کی اپنی اپنی دنیائیں ہیں۔ جو فرق پڑے گا اس کے شاید مثبت نتائج بھی ہوں اور منفی بھی ہو سکتے ہیں سے بھی قطع نظر اس کا جو کانٹینٹ ہے وہ اس کے علاقے کی دین ہے۔ چونکہ وہیں پلا بڑھا ہے۔ وہیں کھیلا کودا ہے۔ وہیں بھاگتا رہا ہے۔ وہیں ہواؤں نے اسے چھوا ہے۔ وہیں اسے اندر ہی اندر ایک ساز میسر آیا ہے جو بجا جس کی دھن بھی سب کو سنائی دی تو بلاوا آ گیا۔ وہ ترقی کے موجودہ اور شاید مسلط کردہ پیمانوں پہ آگے نکل بھی جائے گا اچھی بات ہے لیکن اسے جو چیز بنیادی طور پہ میسر آئی ہے وہ اس کی فطرت کے بیچ پرورش کا نتیجہ ہے۔ اس کے گاؤں کی ویڈیوز میں نالی، ندی، پہاڑ، درخت، فضا، آسمان، اور مقامی ثقافت کے بہت سارے پہلو ملے۔ اس سے ہٹ کے خلوص، پیار، محبت، اپنائیت، خوبصورتی اور دیگر مظاہر بھی دیکھے۔ وہ باقیوں کے لیے ایک مختلف نوع اس لیے بنا چونکہ اس علاقے کی تنہائی اور انفرادیت اور اپنائیت اور مختلف طور طریقے اور وہ سب جو اس نے متعارف کروایا ان کے لیے ایک نئی جہت تھی۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ اس کی اصل اور اس کی جڑیں دراصل اس کی مقامی ثقافت اور نوع ہے۔ ان جڑوں کے بعد یہ درخت جیسا بھی ہو، جو بھی پھل میسر آئے، جس بھی طرح کے پتوں اور پھولوں کا نیا تعارف ملے بہرحال جڑیں ہی اس کی اصل ہیں۔
مزید برآں علاقائی محبت لکھت پڑھت کو بھی تقویت دیتی ہے۔ دراصل آپ جب ایک جگہ موجود ہوتے ہیں تو اس علاقے سے آپ کی اپنائیت کے بہت سارے دروازے وقتاً فوقتاً اور جوں توں کھلتے جاتے ہیں۔ جہاں آپ نسل در نسل آباد رہتے ہیں وہاں زبان، اور ثقافت اور فلسفے بھی پنپتے ہیں۔ اصل چیز محسوس کرنا ہے۔ جب محسوس کرتے ہیں تو قلم کی نوک بھی حرکت میں آجاتی ہے۔ سونگھنے، چکھنے، لمس لینے، دیکھنے، سننے، کھانے پینے اور ہضم کر لینے سے سمجھ آتی ہے۔ ایک بچے کی آنکھ سے ایک تعارف ملتا ہے، ایک نوجوان مختلف نظریے سے دیکھے گا، اور ایک بوڑھا اپنا ہی ذاتی نقظہ نظر پیش کرے گا! اصل معاملہ جڑوں سے محبت اور پیار کا ہے جو تبھی تادیر رہے گا جب ہم شیراز کی طرح مشاھدہ کرتے اور ثقافتی پہلوؤں کا احاطہ کرتے رہیں گے۔
حسان عالمگیر عبا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں