• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تحریک انصاف کی غیرمتزلزل سیاسی جدوجہد/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

تحریک انصاف کی غیرمتزلزل سیاسی جدوجہد/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

مخلوق خدا اور معاشرے کے فلاح و بہود اورمفاد کیلئے جو سیاست کی جائے وہی سیاست خدمت اور عبادت ہے   اور اس کے برعکس جو سیاست ذاتی اغراض اور خودغرضانہ مفادات کیلئے کی جائے وہی سیاست عوام کیساتھ دھوکہ، فریب اور فساد کے ذمرے میں آتی ہے۔

الیکشن کمیشن ، سپریم کورٹ ہائی کورٹ ، ایف آئی اے، سائبر کرائم، نیب، پولیس، سول و ملٹری بیوروکریسی الغرض سب ادارے کمپرومائزڈ ہے۔حال یہ ہے کہ ان اداروں میں کچھ افراد کو چھوڑ کر دیگر افراد قابل گرفت اور گنہگار ہے ۔ لہذا ان سے اچھے کی  توقع رکھنا ،مفاہمانہ رویہ رکھنا بیوقوفی کی انتہاء ہوگی۔

دراصل اتحادی، پی ڈی ایم ،پی ٹی آئی کو یہ باور کرانے پر تلی ہوئی ہے کہ کسی طور پر اس ناجائز اسمبلی کو مانا جائے، مینڈیٹ چور کو چور اور ڈاکو ہر گز نہ کہا جائے۔ تہذیب اور پارلیمانی ضابطہ اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے مینڈیٹ چوری کو معاف کرتے ہوئے اپوزیشن اسمبلی میں خاموشی سے بیٹھے اور اُف تک نہ کرے۔

اتحادیوں کا یہ ماننا ہے کہ پی ٹی آئی کیساتھ جوڈیشل ریفارمز، الیکشن ریفارمز، ضابطہ  دیوانی و فوجداری اور ایف آئی اے وغیرہ کے علاوہ ہر قسم  کی قانون سازی کرنے کو تیار ہے تاہم کسی کو اختیار نہیں کہ جعلی اسمبلی میں جعلی وزیر اعظم کو جعلی کہنے کی جرات کریں،اوراس طرح مذکورہ بالا قوانین اور ریفامز سے آئندہ کیلئے جعلی مینڈیٹ کا راستہ روکا جاسکے ۔

آپ اچھی طرح سمجھتے ہے کہ اتحادیوں کی  صفوں میں بھی ایسے افراد موجود ہیں ، جو حق کو حق اور جھوٹ کو جھوٹ کہتے ہوئے نہیں شرماتے۔اتحادی حکومت کیلئے فارم 45 ایک تلخ حقیقت ہے جو کہ پی ڈی ایم ٹو کےاتحادیوں کیلئے ہضم کرنا محال ہے ۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ  ہے کہ اس سے مخصوص اور اقلیتوں کی   نشستیں اس لئے چھینی گئی ہیں  کہ اس سے   اتحادیوں کو تقویت ملے گی۔ یہ سپریم کورٹ کا نشان چھیننے کے فیصلے کا تسلسل ہے۔

پنجاب میں مریم نواز کے مینڈیٹ چوری پر آواز اٹھانے والوں پر طعن و تشنیع کی  جاتی  ہے۔ اگر غور کیا جائے تو حکومتی اتحادیوں کے پاس کوئی اخلاقی قدر موجود نہیں جس سے وہ الیکشن کے مینڈیٹ کو جسٹیفائی کرسکیں۔ تاہم ان کی  بحثوں کا زور ماضی کے واقعات کو موجودہ حالات کیساتھ توڑ مروڑ اور جوڑ توڑ کرکے بحث کو گھمانا ہےاور دوسرے  فریق کو ان بحثوں سے چُپ کروانا مقصد ہے ۔

در اصل پی ٹی آئی کے رہنما یہ بھول جاتے ہیں  کہ جب تک ان کا راہنما جیل کی  سلاخوں کے پیچھے ہے،فارم 45 کی  اسمبلی میں  کوئی  حیثیت نہیں، اور اسکے راہنما کی غیر موجودگی میں فارم 47 کی اسمبلی کو ماننا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔اس لئے اس پر چپ کا روزہ رکھنا کیا معنی رکھتا  ہے ۔

در حقیقت حکومت کا سائفر کو جعلی ،فراڈ، سازش کہنے، مداخلت جیسے الفاظ کو  بیچ لانا اور سرے سے ماننے سے انکاری ہونا، اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے عدم اعتماد کی تحریک لاکر عمران خان کی  حکومت کو گرانے سے انکار، سپریم کورٹ سے پے در پے اتحادیوں کے حق میں فیصلے آنا ، عمران خان کو زخمی اور ان پر قتل کے حملے کروانا، اپنے آلہ کاروں کے ذریعے کے پی اور پچھلی  پنجاب حکومت گرانا، عمران خان کی  غیر قانونی گرفتاری اور 9 مئی کا فالس فلیگ آپریشن اور اس کے دوسرے دن پی ٹی آئی مظاہرین پر فائرنگ کرتے36 افراد کو قتل کرنا ، سینکڑوں کو زخمی کرنا، ہزاروں کو جیلوں میں بند کرنا، بیسیوں کے  ملٹری کورٹس میں  ٹرائل کروانا، الیکشن کے عمل کو سست روی کا شکار کرنا، لیول فلیگ فیلڈ نہ دینا، امیدواران کے کاغذات چھیننا، تجویز کنندہ اور تائید کنندگان کو اٹھانا، غائب کروانا، پی ٹی آئی کے منحرف ارکان سے دوسری پارٹیاں بنانا، میڈیا کوریج نہ دینا،  مجبور کرکے پی ٹی آئی کے ممبران سے پریس کانفرنس کروانا، الیکشن سے پانچ دن پہلے تک عمران خان کو روازانہ کی  بنیاد پر سزائیں سنانا، الیکشن کے دن انٹرنیٹ کو بند کرنا، رشوت کے ذریعے صحافیوں کے ذریعے جھوٹے پروپیگنڈے کروانا، الیکشن کے نتائج کو رات گئے تبدیل کروانے کیلئے سسٹم ای ایم ایس کو بند کرنا، آر اوز سے نتائج کو روک لینا، فارم 47 روک کر دوسری  صبح تبدیل شدہ نتائج پر ہار ے ہوئے امیدوران کا  جیتنا ، وغیرہ وغیرہ بے انصافیوں کی  اتنی طویل لسٹ ہے جس سے کسی کی پہلو تہی ممکن نہیں  ہے اور جو کوئی بھی ان مظالم کوبھولے گا ،وہ اپنی وفاداری کو مشکوک کرکے اتحادی حکومت کا ساتھی تصور ہوگااوراس سب کا مقصد دراصل پی ٹی آئی کے امیدواروں کو اتحادیوں  کی  صفوں میں شامل کیا جانا ہے،اور ان امیدواروں سے کام لینا ہی اسٹیبلشمنٹ کا اصل مقصد ہے۔

اصل میں یہ حقیقت اب کوئی راز نہیں رہا کہ سیاسی اسٹبلشمنٹ پی ٹی آئی کے خلاف لالچ، دباؤ، رشوت وغیرہ جیسے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں ۔ جو کوئی امیدوار پی ٹی آئی مظالم کو بالائے طاق رکھے گا دراصل وہ عوام کے مینڈیٹ اورپی ٹی آئی کی  قربانیوں کا دشمن سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ظلم ہوا ، چوری ہوئی ہے تو چاہے کوئی جنت دینے کا لالچ دے تو بھی اس کو لینانہیں چاہیے کیونکہ اس میں بھی اتحادیوں کی  سازش ہوسکتی ہے۔ عوام نے جس کو مینڈیٹ دیا، پہلے اگر اتحادیوں کا ضمیر زندہ ہے تو پی ٹی آئی کو واپس کرے، سائفر پر آزاد اور غیر جانبدار کمیشن بنائے، سیاسی قیدیوں کو رہائی دی  جائے۔بعد ازاں ہی باہمی حکومت، میثاق معیشت ، میثاق مفاہمت ، ترقی اور دیگر اصلاحات پر بات ہوسکتی ہے۔
لیکن پی ٹی آئی مانے یا نہ مانے اسٹبلشمنٹ کسی صورت    باہمی حکومت، میثاق معیشت ، میثاق مفاہمت ، ترقی اور دیگر اصلاحات پر تیار نہیں ہوگی کیونکہ الیکشن کو چوری کروانے کی واردات میں ملوث ہونے کا الزام ان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔عوام سمجھتے ہیں ، کہ اداروں کو یرغمال بنایا گیا ہے۔ قانون کی حکمرانی، آئین اور عوام کی  بالادستی کو اسٹبلشمنٹ خاطر میں نہیں لاتے، حتٰی  کہ میڈیا کی آزادی، اور اس قسم کی  آوازوں اور توجہ دلانے والے  افراد کی آڈیو ویڈیو ٹیپ لیک کرواتے ہوئے ان کی بے عزتی کرواتے ہیں ، پولیس اور لا ءانفورسمنٹ اداروں کے ذریعے اٹھاکر غائب کروادیا جاتا ہے۔ اور ان کی زبان بندی کروائی جاتی ہے۔ جیلوں میں ڈالا جاتا ہے ، غائب کروایا جاتا ہے ۔

میرا ماننا ہے پی ٹی آئی کو اعلیٰ عدلیہ ،سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ اورپولیس سمیت   کسی سے بھی  اچھائی کی توقع رکھنا بے سود ہوگا ۔ اسٹیبلشمنٹ، موروثی سیاسی مافیاؤں کو کسی طور قانون کی حکمرانی منظور نہیں ہے۔ آزاد عدلیہ اب ایک سراب بن چکا ہے۔ ادارے قانون سے تجاوز کرتے امور   سرانجام دیتے ہیں ۔ حتی کہ  ججوں کی بلیک میلنگ کو بھی روا گیا ہے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے اور جو کہ پی ٹی آئی کی حقیقی آزادی کی جد وجہد، قانون اور آئین کی  حکمرانی میں مضمر ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں قانون کی حکمرانی، آئین کی  بالادستی، عوام کے حق ِحکمرانی جیسے امور اور باتیں صرف کتابوں کی زینت ہیں  ،جو کہ اس قسم کے نظریات اور اصولوں کا کوئی تصور بھی پاکستان میں موجود نہیں۔ پاکستانی عدالتوں میں  انصاف ملنا عنقا ہے۔ اب اس کا حل کیا ہے ؟ کیا اس مقصد کا حصول صرف سڑکوں پر نکل  کر حاصل کیا جاسکتا ہے؟

میں سمجھتاہوں کہ پی ٹی آئی تگڑے اپوزیشن کا کردار  ادا کرتے ہوئے حکومت کو مجبور کرتے ہوئے اس وقت صرف عمران خان اور دیگر سیاسی کارکنوں کے رہائی پر فوکس کرنا چاہیے۔ بعدازاں ان کے لئے دیگر معاملات خود بخود ٹھیک ہوتے چلے جائیں گے۔

اب کیا ہوگا؟ مخصوص نشستیں زور زبردستی چھین لی گئی، خدا کا خوف کرے حکومت میں کسی کو کوئی ملال نہیں۔مولانا کو اتحادیوں کی  جانب سے مخصوص نشستوں کی پیش کش ہوئی ہے، خدا نخواستہ اگر سپریم کورٹ تک بھی پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ ملیں  تو اتحادیوں کو دو تہائی اکثریت مل سکتی ہے جس سے قوم و ملک پر ایک ایسا بوجھ ڈال دیا جائیگا جس کا سوچتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ دوسرا پی ٹی آئی کے ورکرز اور عمران خان کیساتھ جابرانہ سلوک مزید بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے۔

پی ٹی آئی کےدلائل اور موقف کو اتحادیوں کی  طرف سے ہرقسم کے  ہتھکنڈوں کے ذریعے روز بہ روز کمزور کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پی ٹی آئی کو سرے سے ختم کرنے کا منصوبہ ہے جو کہ میرے خیال سے ممکن نہیں  ہے کیونکہ عمران خان کی مقبولیت سر چڑھ کر بول رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کے حکمران اپنے لیڈر عمران خان کے موقف سے جڑے رہ کرسیاسی بالیدگی اور دوام حاصل کرسکتے ہیں ۔ اس نسبت تھوڑی  سی  لچک بھی خطروں سے بھرپور ہے۔ لہذا چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی پی ٹی آئی دھرنوں، جلسوں، جلوسوں، مظاہروں پر فوکس کریگی ۔ اس مد میں پارٹی کی  تنظیم اور عام ورکروں کے  اعتماد میں یہ سب کچھ سرانجام دیا جائے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پی ٹی آئی اس ملک میں عدالتی، زرعی، انڈسٹریل، آئینی اور قانونی وغیرہ اصلاحات چاہتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس ملک میں دو دستور نہیں چل سکتے ہیں،اور اس وقت اداروں میں چند بھیڑیوں کیخلاف آواز اٹھانا اس ملک و قوم کیساتھ احسان ہوگا۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply